مشکل راستے قسط ٨

وہ خاموش لیٹا چھت کو گھور رہا تھا  نا جانے کیوں وہ لڑکی اور وہ پرسرار عورت بار بار ذہن کی سکرین پر نمودار ہورہی تھیں ۔۔ جمال شاہ نے اس سے پھر کوئی بات نہیں کی تھی  بس کمرے میں جانے کا کہہ دیا تھا اور بس ۔ وہ حیران بھی تھا اور تھوڑا فکرمند بھی ۔۔۔ نہیں جانتا تھا کے آگے کیا ہونے والا ہے ۔۔ اسی طرح آدھی رات بھی یونہی گزر گئی  آذان کی اواز پر چونک اٹھا

کیا میں پوری رات جاگتا رہا ہوں ۔۔

وہ خود سے سوال کرتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔ فجر کی نماز ادا کر کے وہ پھر سے اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گیا ۔۔ اتنی دیر تک جاگنے کی عادت نہیں تھی اسی لئے لیٹ تے ہی نیند نے آگھیرا  اب کی دفعہ آنکھ گیارہ بجے کے بعد کھلی۔ وہ فجر کی آذان کے ساتھ ہی اٹھ جاتا تھا  نماز سےفراغت کے بعد ہی فوراً ناشتہ ڈائیننگ روم میں کھایا جاتا  جمال شاہ بھی اس کے شاہ بابا جیسے ہی تھے  فجر کے بعد سونے کی عادت نہ اس کے گھر میں کسی کو تھی اور نہ جمال شاہ فجر کے بعد سوتے تھے ۔ اس لئے اسے یہ روٹین عجیب نہیں لگا تھا  مگر کل کے واقع کے بعد وہ پوری رات جاگا تھا ۔۔۔ اور ادھر جمال شاہ نے بھی پوری رات یونہی جاگتے گزار دی تھی ۔ صلاح الدین کو شدید بھوگ لگنے لگی تھی ۔۔ لیکن وہ نیچے جانے سے ہچکچا رہا تھا ۔۔۔ جمال شاہ کا سامنا کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی ۔۔۔ لیکن کب تک اپنے کمرے میں پڑا رہتا ۔۔۔ ناچار ہمت کرکے سیڑھیاں اترنے لگا  سب سےنچلی منزل پر ڈائیننگ روم تھا ۔ وہ سیدھا اس کشادہ ڈائیننگ روم میں چلا آیا  جہاں جمال شاہ کا خاص ملازم عباس موجود تھا

آجاؤ بیٹا ناشتہ کرلو

وہ چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔

پریشان نہ ہو بیٹا ۔۔۔ جو کچھ تم نے دیکھا ہے اسے خواب سمجھ کر بھول جاؤ ۔ اگر اللہ نے چاہا تو حقیقت تم پر واضح ہوجائیگی ۔

وہ گرم پراٹھا اس کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بولا تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہو بیٹا ۔ جو کچھ ہورہا ہے اس پر پریشان نہ ہو ۔۔ اور زیادہ سوچو مت ۔۔ ابھی تم بہت چھوٹے ہو ۔

وہ اس کا کاندھا تھپ تھپاتے ہوئے بول رہا تھا ۔ اور وہ چپ چاپ اسے دیکھے جا رہا تھا ۔ اسے عباس بھی کچھ کم پرسرار شخصیت نہیں دکتا تھا  بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کے اس محل کاہر فرد ہی پرسرار لگتا تھا اسے ۔

صلاح الدین بیٹا آپ کو صاحب لائبریری میں بلارہے ہیں ۔

دوسرے ملازم نے جب آکر اسے جمال شاہ کا پیغام دیا تو اس وقت تک وہ ناشتہ کرچکا تھا ۔۔ ملازم سے پیغام سن کرفوراً باہر نکل گیا  نچلی منزل پرہی لائبریری تھی ۔۔ جو اس منزل کی عین وسط میں گولائی میں ہی ڈزائین کی گئی تھی کے دروازے پر پہنچ گیا ۔۔ لکڑی کے بنے اس بڑے سے دروازے کے سامنے کھڑا وہ ابھی دستک دینے ہی لگا تھا کہ

اندر آجاؤ صلاح الدین ۔۔

جمال شاہ کی اندر سے بھاری آواز گونجی  تو وہ جھجکتا ہوا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔گولائی میں بنی اس لائبریری کے شیلف بھی گولائی میں بنے ہوئے تھے ۔۔۔ ٹیک کی لکڑی سے بنے اونچے اونچے یہ شیلوز اور ان میں سلیقے سے رکھی کتابیں جمال کی ادبی ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھیں  چھت پر لٹکتے انتہائی دلکش فانوس  اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ٹیک ہی کی بنی چار یا پانچ اسٹڈی ٹیبلز اور کرسیاں  سفید ماربل سے بنا ٹھنڈا فرش ۔۔ اور وسط میں بنا چھوٹا سا فاؤنٹین ۔۔اور بیضوی کھڑکیاں ۔ نہایت ہی خوبصورت لائبریری تھی ۔ جمال شاہ اپنے مخصوص خوبصورت آرام دہ سوفے پر بیٹھے اسکی جانب ہی دیکھ رہے تھے ۔۔۔ وہ آہستہ چلتا ہوا انکے قریب آکر موؤدب انداز میں کھڑا ہوگیا ۔۔

بیٹھ جاؤ صلاح الدین ۔۔

وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے ۔ تو وہ انکے سامنے رکھے اسی ہم رنگ سوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔

تمہیں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ کل تم نے دیکھا ہے اسے بھلا دو ۔۔ اور اس کا تذکرہ کسی سے باہر مت کرنا ۔۔۔ یہ تمہارے اور ہمارے حق میں بہتر نہ ہوگا ۔۔

وہ کچھ دیر تک چپ چاپ اسے دیکھتے رہے ۔ پھر دھیمے لہجے میں اس سے بولے تھے ۔۔۔

جی

میں نہیں چاہتا کے کسی اور کو اس کے متعلق کچھ بھی پتہ چلے ۔۔ تم سمجھ رہے ہونا میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔

جی

ہممممم ۔۔ اب تم جاسکتے ہو ۔

وہ اسے کہہ کر سگار سلگانے لگے تھے ۔۔ اور وہ خاموشی سے لائبریری سے باہر نکل گیا ۔

۔

وقت تیزی سے گزرتا گیا ۔۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے ۔۔۔ صلاح الدین اب بیس سال کا ہوچکا تھا ۔ نہایت وجیہ ۔۔۔ گندمی رنگت ۔۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں ۔ اور فراق پیشانی ۔۔ ذہین اور اور نرم گو ۔ Ned University سے الیکٹریکل انجینئرنگ کر رہا تھا ۔۔ اس دن جب یونیورسٹی سےواپس آیا تو
شاہ بابا اور اماں جانی کو موجود پایا  اماں جانی بہت کم ہی آتی تھیں اس سے ملنے  وہ ماں کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ گیا ۔۔۔

چل بیٹا ہم تجھے لینے آئے ہیں


اماں جانی نے کہا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھا ۔۔ ان دس سالوں میں وہ اپنے گھر کبھی نہیں گیا تھا  اور اب اچانک جانے کا سن کر خوش ہوگیا تھا ۔۔۔

مگر شاہ بابا میری اسٹڈیز کا کیا ہوگا ۔

دو ہفتے کے لئے جاؤگے برخوردار ۔۔۔ پھر واپس آجانا ۔۔۔

جی انشااللہ

جمال شاہ کے کہنے پر وہ خوشی سے بولا تھا ۔۔۔

شاہ جی بیٹے اور بیوی کو لے کر کوئٹہ آگئے  پوری حویلی رنگ و نور سے سجی ہوئی تھی ۔۔۔ دادو نے دیکھتے ہی بلائیں لینا شروع کر دیں ۔۔ بہر حال وہ دن صلاح الدین کے لئے ایک یاد گار دن تھا ۔ وہ اپنے والدین اور دادو کے پاس تھا  وہ سب جن سے ملنے کے لئے وہ بیتاب تھا آج اس کے ساتھ تھے ۔۔۔ اس کے اپنے ۔ رات وہ بڑے سکون سے سویا تھا ۔۔

.................

صبح فجر کی آذان کے ساتھ ہی آنکھ کھل گئی ۔ وہ اٹھ کر غسل خانے میں جاکر وضو کرنے لگا ۔۔۔ وضو کے بعد کمرے سےباہر نکلا تو شاہ بابا کو اپنا منتظر پایا ۔۔۔ وہ اسے قریب ہی کی مسجد لے گئے ۔۔ فرض نماز باجماعت ادا کرکے کچھ دیر وہ دونوں باپ بیٹا خاموش بیٹھے دعائیں مانگتے رہے ۔۔۔

دعا سے فراغت کے بعد وہ کچھ دیر بیٹے کو بڑے پیار سے دیکھتے رہے ۔

صلاح الدین میں تجھ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ۔۔

جی شاہ بابا کہئے ۔۔۔

وہ ہم تن گوش ہوا ۔۔

میں تیرا نکاح کر رہا ہوں صلاح الدین ۔۔۔

وہ ایک دم سناٹے میں آگیا ۔۔۔

جیی  لیکن شاہ بابا میری اسٹڈیز ۔۔

شادی کر رہا ہوں تیری اور شادی کے بعد پڑھائی ختم نہیں ہوجاتی اس کے بعد بھی جتنا دل چاہے پڑھتے رہنا ۔۔۔

شاہ جی بولے تو وہ خاموش ہوگیا ۔۔ ویسے بھی ان کے یہاں جلد شادی کا رواج تھا ۔۔۔ اس لئے چپ ہورہا ۔۔۔ لیکن اتنی جلدی شادی ہو جائگی یہ سوچا بھی نہ تھا ۔۔۔ وہ اکلوتا ایک ہی بیٹا تھا شاہ جی کا لیکن وہ شام جس دن اس کا نکاح تھا مختصر لوگ ہی نظر آرہے تھے ۔۔ جمال شاہ بھی پہنچ گئے تھے ۔۔ ان کی آنکھوں میں نا جانے کیوں آنسوں تھے وہ سمجھ نہ پایا  نکاح کے پیپرز پر دستخط بھی بڑی بے دلی کئے تھے  اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ نکاح خواں نے کس کا نام لیا ہے ۔۔۔ اور کس کی بیٹی اس کی منکوحہ زبردستی بنا دی گئی ہے ۔ وہ باپ کو خوش کرنا چاہتا تھا اس لئے کوئی سوال کئے بغیر خاموشی سے سر جھکا کر دستخط کر دئے تھے
.....................

اس کے کمرے کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔۔۔ گلاب اور موتئے سے سجا کمرا مہک رہا تھا ۔۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو بیڈ پر بیٹھے اس سرخی مائل کپڑوں میں لپٹے وجود نے اپنے آپ کو اور سمیٹ لیا تھا ۔۔۔ وہ جھجکتا ہوا بیڈ کے قریب پہنچ کر رک گیا 

اسلامُ علیکم ۔ دیکھئے آپ مجھے غلط مت سمجھئے گا  میں کوئی رومینٹک شخص نہیں ہوں  میں جانتا ہوں آپ کے کچھ خواب اور ارمانات ہونگے ۔ میرے بھی کچھ خواب ہیں جنہیں میں پورا کرنا چاہتا ہوں  تعلیم سے بڑھ کر میرے نزدیک کسی اور چیز کی اہمیت نہیں ہے ۔۔۔ اس لئے شائد میں آپ کو وہ توجہ نہ دے پاؤں جو ایک بیوی ہونے کی حیثیت سے آپ کاحق ہے ۔۔۔ اس کے لئے میں ابھی سے آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔۔۔

وہ لہذا بھر کو رکا ۔ اور ایک نظر اس گھٹری نما وجود پر ڈالی ۔ پھر گویا ہوا ۔

میں نے یہ شادی اپنے والدین کی خوشی کی خاطر کی ہے ۔۔۔ ورنہ میں اس شادی کے فی الحال حق میں نہیں تھا ۔

جس طرح آپ نے والدین کے کہنے پر بے حالت مجبوری مجھ ناچیز سے نکاح کیا ہے  اسی طرح میں نے بھی اپنے ابو جی کے کہنے پر یہ نکاح کیا ہے صلاح الدین ۔۔

وہ جو واش روم جانے کے لئے پلٹ گیا تھا اس خوبصورت آواز پر چونک کر پلٹ کر دیکھا تو وہ شاہانہ انداز میں سر اٹھائے اسے ہی دیکھ رہی تھی  بڑی بڑی بادامی کالی سیاہ آنکھیں جن میں نمی تیر رہی تھی ۔۔ وہ اتنی حسین تھی کہ تھوڑی دیر کے لئے وہ بس اسے دیکھتا ہی رہا ۔ کچھ بول نہ پایا ۔۔۔اچانک ذہن کی اسکرین پر اس چھوٹی سی بچی کا سراپا لہرایا تو وہ چونک اٹھا  جس بچی کو وہ آج تک بھلا نہ پایا تھا  وہ وہی تھی جمال شاہ کی بیٹی فاطمہ
۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 215354 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More