آنکھیں خواب بنتی ہیں تحریر محمد وسیم بلوچ

ایک عام آدمی اور اس کے خوابوں پر مبنی ایک مختصر کہانی

آنکھیں خواب بنتی ہیں

نصیر احمد تم ابھی تک گھر نہیں گئے باقی سارے مزدور کب سے جا چکے ہیں ؟

ٹھیکدار نے پسینے سے شرابور نصیر احمد کو کام میں مگن دیکھ کر مخاطب کیا جو ابھی تک وقت ختم ہونے کے باوجود کام کر رہا تھا۔ نصیر احمد تمام مزدوروں میں سب سے زیادہ محنتی اور ایماندار تھا اس نے آج تک ٹھیکدار کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹھیکدار بھی اسے اس کی محنت اور کام سے لگن کی وجہ سے پسند کرتا تھا۔

نہیں صاحب جی وہ بس تھوڑا سا کام رہتا تھا تو سوچا نمٹا کر جاتا ہوں۔
نصیر احمد نے پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا تو ٹھیکدار مسکرایا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا نصیر اپنا کام کبھی ادھورا چھوڑ کر نہیں جاتا۔

اچھا ٹھیک ہے اور یہ رکھ لو عید آنے والی ہے تو میری طرف سے تمہاری لیے عیدی ہے اپنے لیے نیا سوٹ خرید لینا اور بچوں کےلیے کچھ کھانے کو لے جانا۔

ٹھیکدار نے مسکراتے ہوئے پانچ ہزار کا ایک نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو اس نے حیرت سے ٹھیکدار کی طرف دیکھا۔

بہت شکریہ صاحب جی۔

اس نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے نوٹ پکڑ لیا اس وقت اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک نمودار ہوئی تھی جیسے کوئی بیش قیمتی خرانہ مل گیا ہو۔ اور یہ نوٹ اس کےلیے واقعی کسی خرانے سے کم نہیں تھا کام نمٹانے کے بعد اس نے بائیک نکالی اور مارکیٹ پہنچ گیا۔ تاکہ اپنے لیے نیا سوٹ خرید سکے۔

ذکیہ کتنی خوش ہوگی اس کےلیے ایک سوٹ لے جاتا ہوں۔ عرصے سے اس بیچاری کو نیا سوٹ لے کر نہیں دیا۔

وہ بازار میں داخل ہوتے ہوئے سوچ رہا تھا اچانک اس کی نظر بچوں کی کھلونوں والی دکان پر پڑی جہاں بچوں کےلیے کئی کھلونے اور سائیکلیں بھی پڑی تھی۔

بابا سجاد انکل نے اپنے بیٹے کو سائیکل لے کر دی ہے لیکن آپ ہمیشہ بہانے بناتے ہیں مجھے کچھ لے کر نہیں دیتے۔ مجھے نہیں پتہ اس عید پر مجھے بھی چھوٹی سائیکل چاہیے۔

اس کے سات سالہ احمد کا کہا جملہ اس کے کانوں سے ٹکرایا تو کپڑے کی دکان کی طرف بڑھتے اس کے قدم رک گئے تھے اس نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر کھلونوں والی دکان میں گھس گیا۔ کیونکہ اس کی نظر میں اس کے کپڑوں سے زیادہ ضروری اپنے بیٹے کا خواب خریدنا تھا وہ اپنے بیٹے کا خواب خریدنے کےلیے دکان میں داخل ہوگیا۔

بھائی صاحب یہ سائیکل کتنے کی ہے ؟

اس نے ایک سائیکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکاندار سے پوچھا۔

یہ تین ہزار کی ہے۔
دکاندار نے قیمت بتائی تو اس کا منہ لٹکا گیا۔

کچھ رعایت مل سکتی ہے ؟
اس نے امید بھری نظروں سے دکاندار کی طرف دیکھا جس پر اس نے گھور کر اسے دیکھا۔

دیکھیں بھائی صاحب اگر لینی ہے تو دو سو کم کر لوں گا اس سے زیادہ نہیں۔
دکاندار نے روکھا سا جواب دیا۔

اچھا ٹھیک ہے دے دیں۔

اس نے کچھ لمحے سوچتے ہوئے کہا اور جیب سے پانچ ہزار کا اکلوتا نوٹ نکال کر دکاندار کی طرف بڑھایا جس کو اس نے فوری اچک لیا اور اٹھائیس سو کاٹ کر بقایا واپس کر دئیے نصیر کے تصور میں احمد کا مسکراتا چہرہ گھوم گیا وہ اپنی سائیکل کو دیکھ کر کس قدر خوش اور پرجوش تھا اس چیز نے اس کی ساری تھکن دور کر دی تھی کیونکہ اس نے اپنے سوٹ کے پیسوں سے بیٹے کا ایک خواب خرید لیا تھا جس پر اسے کوئی پچھتاوا نہیں تھا کہ اس کا لخت جگر تو خوش ہوگا۔ وہ خوشی خوشی سائیکل لے کر دکان سے باہر نکلا اور پھر ایک کپڑے کی دکان پر نظر پڑی۔

نصیر کبھی اپنے لیے بھی نیا سوٹ خرید لیا کرو ہمیشہ ہماری فکر کرتے ہو اس بار عید پر میرے لیے نہیں اپنے لیے کپڑے لے کر آنا۔ دیکھو تمہارے کپڑے کتنے پرانے ہوگئے ہیں ہر بار دھو کر وہی پہن لیتے ہو۔

اس کی پیاری اور وفا شعار بیوی کا جملہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا تو اس نے کھڑے کھڑے ایک نظر اپنے کپڑوں پر ڈالی۔

اور ہاں اچھے سے جوتے بھی لے لینا۔

ایک بار پھر اس کی بیوی کی ہدایت یاد آئی تو وہ مسکرا دیا اور بے اختیار اس کی نظریں اپنے جوتوں پر گئی۔

اچھے بھلے تو ہیں ان کو کیا ہوا ہے بلاوجہ ہر وقت میری فکر کرتی رہتی۔ دھو کر پہن لوں گا تو بالکل نئے جیسے لگیں گے۔

نصیر احمد بڑبڑاتے ہوئے دکان کی طرف بڑھا اور اپنی بیوی کےلیے ایک سستا سا سوٹ خرید لیا۔ اور پھر فروٹ کی ایک ریڑھی سے بچوں کےلیے کچھ فروٹ خرید رہا تھا کہ اس کی نظر ساتھ ہی کھڑی ریڑھی پر پڑی جس پر بچوں کے کھیلنے کےلیے ایک منصوعی ڈاکٹر کٹ تھی۔

بابا مجھے ڈاکٹر کٹ چاہیے پلیز آپ اس عید پر میرے لیے ڈاکٹر کٹ لائیں گے ناں ؟
اس کی پانچ سالہ بیٹی اریب جس کو بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا جنون تھا کی التجا یاد آئی۔

ہاں میری گڑیا بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی اور ملک و قوم کا نام روشن کرے گی۔
اس نے مسکراتے ہوئے ننھی اریب کے سر پر ہاتھ رکھا اور کٹ دلانے کا وعدہ کیا۔

نصیر احمد آپ بھی حد کرتے ہیں ہم جیسے لوگوں کے بچے کہاں ڈاکٹر بنتے ہیں آپ بلاوجہ بچوں کو خواب دکھا رہے ہیں پتہ ہے ڈاکٹر بننے کےلیے کتنی بھاری فیس دینی پڑتی ہے۔

اس کی بیوی ذکیہ نے باپ بیٹی کے درمیان گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔

ارے پاگل خواب بڑے دیکھنے چاہیے خدا کے ہاں کسی چیز کی کمی تھوڑی ہے وہ جب نوازنے پر آئے تو امیر غریب تھوڑی دیکھتا ان شاءاللہ ہماری بیٹی بھی ڈاکٹر بنے گی۔

اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

صاحب جی آپ کو کچھ چاہیے ؟

ریڑھی والے لڑکے نے مسلسل اپنی طرف متوجہ پا کر پوچھا تو اس کی آواز سن کر وہ ایک بار پھر تصور کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں لوٹ آتا تھا۔

یہ بچوں والی ڈاکٹر کٹ کتنے کی ہے ؟
اس نے جھجھکتے ہوئے قیمت پوچھی۔

دو سو پچاس کی ہے۔

لڑکے نے جواب دیا تو وہ کچھ سوچنے لگا اور پھر جیب میں ہاتھ ڈالا تو آخر دو سو روپے بچے تھے اس کی آنکھیں بجھ گئی اور مایوسی سے ریڑھی والے لڑکے کی طرف دیکھا۔

میرے پاس تو یہی دو سو ہیں۔
اس نے خالی جیب دکھاتے ہوئے کہا۔

اچھا ٹھیک ہے یہی دے دیں۔

اس لڑکے نے کٹ اٹھا کر نصیر احمد کے ہاتھ میں رکھی اور دو سو روپے لے لیے۔

اب اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اس نے صرف پانچ ہزار میں اپنے بیوی، بچوں کے خواب خرید لیے تھے۔ اسے ذرا سا بھی ملال نہیں تھا کہ اس عید پر بھی وہ اپنے لیے نیا سوٹ نہیں خرید سکا۔

ذکیہ کو بول دوں گا سوٹ خرید کر درزی کو دے دیا ہے اسے پتہ چلا کہ اپنے لیے سوٹ نہیں لیا تو کلاس لگ جائے گی۔
وہ بائیک چلاتے ہوئے دل ہی دل میں بیوی کو قائل کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔

بچوں کی خوشی سے بڑھ کر بھی کچھ ہوتا ہے ہماری عید تو ان کو خوش دیکھ کر ہی ہو جائے گی۔
اس نے بیوی کو دلیل دینے کےلیے پھر سے سوچا اس کے بچوں کے خواب بائیک کے ساتھ لٹکے ہوئے تھا اور وہ مطمئن تھا۔

بابا آپ کتنے اچھے ہیں۔
اس کے یقین دلانے پر اریب کا گال پر بوسہ دینا یاد آیا تو وہ خوشی سے نہال ہوگیا اس کے لب مسکرا اٹھے تھے لیکن یہ خوشی اور یہ مسکراہٹ چند لمحوں کی مہمان ثابت ہوئی تھی کیونکہ شاید اسی دوران اس کا دھیان بھٹکا اور وہ سامنے سے آنے والی گاڑی کو نہ دیکھ سکا اور اس کی بائیک تیزی سے سامنے سے آنے والی گاڑی سے جا ٹکرائی۔ اور وہ اپنے بچوں کے خوابوں سمیت ہوا میں بلند ہوا اور پھر سر کے بل سڑک پر گرا تھا خون کی ایک لکیر روڈ پر بنتی چلی گئی اس نے بڑی مشکل سے گردن اٹھا کر دیکھا اس کے بچوں کے خواب سڑک پر بکھرے پڑے تھے اریب کی ڈاکٹر کٹ اس کے سامنے آن گری تھی ایک ٹکر نے سارے خواب لمحوں میں کچل کر رکھ دئیے تھے۔

اریب میری گڑیا۔
بمشکل زبان سے یہ جملہ ادا ہوا

بابا جانی ڈاکٹر تو فرشتے ہوتے ہیں میں لوگوں کےلیے فرشتہ بن جاوّں گی۔
اریب کی چہکتی ہوئی آواز اس کی سماعتوں میں گھلی۔ اس کی بیٹی کے فرشتہ بننے سے پہلے فرشتہ اس کے باپ کو لینے پہنچ گیا تھا خون کی لکیر لمبی ہوتی ہوگئی سڑک خون سے بھیگ گئی۔ وہ خواب بنتی آنکھیں دھیرے دھیرے سے بند ہونے لگی تھی لوگوں کا ہجوم بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ لوگوں کے چلانے اور دوڑنے کی آواز مدھم ہونے لگی تھی۔ سڑک پر کھلونے نہیں اس کے بچوں کے خواب تھے جو اس کے خون سے لتھڑے ہوئے بکھرے پڑے تھے۔ اور اب اسے کسی عید پر کپڑے لینے کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ اب اسے ایک مستقل لباس میسر آنے والا تھا۔

Muhammad Waseem Baloch
About the Author: Muhammad Waseem Baloch Read More Articles by Muhammad Waseem Baloch: 3 Articles with 3630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.