سیاسی جوڑ توڑ ۔۔۔لوٹا پالیٹیکس

 حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ علم حاصل کرو اس سے تمہارے پہچان ہو گی اور جو علم حاصل کیا ہے اس پر عمل کرو اس اس سے تم علم والے ہو جاؤ گے کیونکہ تمہارے بعد ایسا زمانہ آئے گا جس میں حق کے دس حصوں میں سے نو کا انکار کر دیا جائے گا اور اس زمانے میں صرف وہ نجات پا سکے گا جو گمنام اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے والا ہو گا یہی لو گ ہدایت کے امام اور علم کے چراغ ہوں گے یہ لوگ جلد باز ،بری با ت پھیلانے والے اور باتونی نہیں ہونگے ۔

قارئین اسے تدریجی عمل کی وجہ سے ہونے والی تبدیلی کہیے یا اسے کچھ اور نام دے لیجئے اخلاقی تقاضے کچھ بھی ہوں ہمارے عمل بدلتے جار ہے ہیں ایک وقت ایسا تھا کہ جب کسی بھی محلے کے بزرگ کے سامنے پورے محلے کے بچے کوئی بھی غیر اخلاقی حرکت کرتے ہوئے احتیاط کرتے تھے کہ چچا میاں گزر رہے ہیں ان کے سامنے کوئی گستاخی نہیں ہونی چاہیے ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب پاکستان اور آزادکشمیر میں رشوت لینا ایک گالی کے مترادف تھا اور کرپشن یا بدمعاشی کرنا بالکل ایسے ہی تھا جیسے انسان اپنی شامت کو آواز دے دے ۔ایسے گھرانوں میں لوگ رشتے دینا بھی پسند نہیں کرتے تھے جو اخلاقی معیار پر پورے نہیں اترتے تھے اگر ہم تھوڑا سا گہرائی میں اتریں اور اس بات کا مطالعہ کریں کہ آخر اعلیٰ اخلاقیات کی وجہ کیا تھی اور موجودہ دور میں گرتے ہوئے معیار کی وجوہات کیا ہیں تو بڑے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں یہ ہر دور کی مڈل کلاس تھی کہ جو ان اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پاسداری بھی کرتی تھی اور ان کی نگہداشت اور نشوو نما میں اپنا خون جگر خرچ کرتی تھی یہ مڈل کلاس طبقہ پروفیسرز ،وکلاء ،لکھاریوں ،تاجروں اور اسی جیسے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھتا تھا جو رزق حلال پر یقین رکھتے تھے ۔1980کی دہائی میں امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کے ’’ اسلامی دور حکومت ‘‘ میں بہت تبدیلیاں آئیں اور وطن عزیز کو کلاشنکوف ،ہیروئن ،چرس،بدمعاشی ،شراب ،رسہ گیرمافیا،مذہبی علاقائی اور لسانی عصبیت سمیت بہت سے ایسے تحفے ملے کہ جنہوں نے اخلاقی قدروں کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا اسی دور حکومت میں ’’ امریکہ کے ڈالرز ‘‘ کے ذریعے تشکیل دیئے گئے جہادی لشکروں نے ایک طرف تو افغانستان میں روس کو شکست دی تو دوسری طرف پاکستان کی بنیادوں میں بارود بھر دیا ۔پاکستان او رآزادکشمیر کے تمام دانشور لوگ اس حوالے سے لکھتے رہتے ہیں اور لکھتے رہے ہیں ہمارا آج کا موضوع اسی بیک گراؤنڈ پر مشتمل ہے عظیم دانشور قدرت اﷲ شہاب اپنی تصنیف شہاب نامہ میں ایک تاریخی سیاسی واقعہ لکھتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کے ابتدائی دنوں میں راتوں رات حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی تھیں اور کس طرح نعوذ بااﷲ قرآن پاک کی عملاً توہین کرتے ہوئے ہمارے سیاسی لیڈرز قرآن پاک پرحلف اٹھا کر اسے توڑ دیتے تھے زیادہ دور مت جائیے میثاق جمہوریت کے نتیجے میں صدر پاکستان بننے والے آصف علی زرداری کھپے والی سرکار کے ان بیانات کو یاد کر لیجئے کہ جب میاں محمد نواز شریف نے انہیں ان کے وعدے یاد دلائے تو انہوں نے پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے ’’ تاریخی مسکراہٹ ‘‘ کے ساتھ یہ جملے کہے کہ ہمارے وعدے کوئی قرآن و حدیث تو ہیں نہیں کہ انہیں پورا کیا جائے تو گویا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طوائف الملوکی کی اصطلاع سیاست میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے لیکن اس کے معنیٰ کتنے گندے او ربھیانک ہیں ہمارا قلم اور کالم اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اس کی تشریح کر سکیں ۔

قارئین آج کل آزادکشمیر میں بھی ایک سیاسی طوفان آیا ہوا ہے سابق وزیراعظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے تین سال سے زائد عرصے کے دوران چوہدری عبدالمجید کی موجودہ حکومت کی کرپشن کے حوالے سے سنگین ترین الزامات عائد کرنا جاری رکھے برطانیہ میں موجود ان کے دست راست لارڈ نذیر احمد نے پہلے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو چوہدری عبدالمجید کی کرپشن کے دستاویزی ثبوت فراہم کیا اور میڈیا رپورٹس ہی کے مطابق بار بار یہ بات دہرائی گئی کہ جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل ،ایم ڈی اے سکینڈل ،ہائیڈرل پاور پراجیکٹ سکینڈل ،میرپور خالق آباد روڈ سکینڈل سمیت دیگر درجنوں معاملات میں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی اور کک بیکس کا بڑا حصہ زرداری ہاؤس اور محترمہ فریال تالپور وصول کرتے رہے ان تمام الزامات کی شنوائی جب سابق صدر پاکستان زرداری کے دربار میں نہ ہوئی تو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور لارڈ نذیر احمد نے موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے رابطہ کر کے یہ تمام تحریری دستاویزی ثبوت انہیں فراہم کیے اور لارڈ نذیر احمد نے راقم ہی کے کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی اور ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93کے مقبول ترین پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصارسی میں براہ راست گفتگو کرتے ہوئے انتہائی دکھی انداز میں بتایا کہ اپنے سیکرٹری فواد بن فواد کی موجودگی میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان دستاویزی ثبوتوں کے ملنے کے بعد چوہدری عبدالمجید کی حکومت سے سختی سے باز پرس کرینگے لیکن الٹا انہوں نے انہیں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنا شروع کر دی یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی راستہ باقی نہ رہا اور ہمیں عمران خان کا ساتھ دینا پر مجبور کر دیا گیا اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے تحریک انصا ف میں شمولیت اختیار کر لی اور شمولیت کے فوراً بعد انہیں آزادکشمیر تحریک انصاف کا صدر منتخب کر لیا گیا ۔گزشتہ دس دنوں سے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ،وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ،سابق وزیراعظم و صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان اور دیگر تمام سیاسی قائدین ’’ ہاٹ لائن ‘‘ پر رابطے میں آچکے ہیں اور صبح شام بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے میرپور سے استعفیٰ کے بعد دوبارہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے خلاف مشترکہ امیدوار لانچ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کسی کو کوئی غرض نہیں کہ اس کا سیاسی قبلہ کیا تھا کسی کوکوئی شرم نہیں کہ اس کے بنیادی نظریات دوسری پارٹی سے کتنے مختلف ہیں نظریہ ضرورت اور اپنے اپنے مفادا ت کو تحفظ دینے کے لیے تمام اخلاقی قدروں کو بائے پاس کرتے ہوئے یہ تمام سیاسی قائدین وہ فیصلے کرنے جا رہے ہیں کہ جنہیں اخلاقیات کی ڈکشنری میں کوئی جگہ نہیں دی جا سکتی یہاں بقول چچا غالب کہتے چلیں۔
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صحبت ِ رنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل ؟
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے
اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے
غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے
چاہیے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

قارئین یہاں ہم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی منشی گیری کا فریضہ انجام نہیں دے رہے بلکہ عقلی بنیادوں پر کچھ باتیں کر رہے ہیں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے چھٹی مرتبہ اپنی پارٹی تبدیل کی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غدار ہیں یا وفادار ہیں ہم اس پر تبصرہ نہیں کرتے لیکن حالیہ ماحول میں جس طریقے سے کرپشن کے خلاف لارڈ نذیر احمد نے بات کی اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بار بار دستاویزی ثبوت پیش کرتے رہے آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جار ہی ہے رہی بات بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوششوں کی تو اس سے کوئی دیوانہ ہی انکا رکر سکتا ہے کہ ان کا قد کاٹھ کتنا اونچا ہے یہاں ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ عمران خان کا سونامی تحریک انصاف کی شکل میں آزادکشمیر میں آچکا ہے او رمیرپور کا ضمنی الیکشن اس کا پہلا ’’ لٹمس ٹیسٹ ‘‘ ہو گا ۔اگر اس ٹیسٹ میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری فتح یاب ہو گئے جو دکھائی دے رہا ہے تو یوں سمجھیے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے خطرے کا بگل بج چکا ہے یہاں اشارتاً کہتے چلیے کہ قومی سلامتی کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کو انتہائی سخت الفاظ میں ’’ شٹ اپ کال ‘‘ دے چکے ہیں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل شجاع پاشا کا ’’ محبوب پودا ‘‘ ہے ۔آزادکشمیر میں بھی قومی سلامتی کے ادارے موجود ہیں اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ان کی کتابوں میں کلین چٹ لے چکے ہیں اسی بات کے اند ربہت سے اشارے موجود ہیں ۔اس وقت ’’ فی الحال‘‘ مسلم کانفرنس کے عوامی ایم ایل اے چوہدری اشرف ،پیپلزپارٹی کے بے ٹکٹ امیدوار اعجاز رضا مسلم لیگ ن کے ارشد محمود غازی اور چوہدری سعید سمیت دس کے قریب امیدواران ایل اے تھری میرپور ضمنی انتخابات کے لیے اپنے اپنے کاغذا ت نامزدگی جمع کروا چکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوامی ایم ایل اے اور ’’ فی الحال ‘‘ مسلم کانفرنس کے مرکزی رہنما چوہدری محمد اشرف پر وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے بہت زبردست اور پر کشش قسم کی آفرز موجود ہیں اور اسی طرح ان کی اپنی جماعت مسلم کانفرنس کے قائدین بھی سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کی سرکردگی میں ان کا گھیراؤ کیے ہوئے ہیں مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ ن سے پیپلزپارٹی آزادکشمیر بہت قریبی رابطے میں ہے کہ کس طرح بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو ہرانے کے لیے چوہدری اشرف کو مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے سامنے لایا جائے اور اس کی شکل کیا ہونی چاہیے ۔چند گھنٹوں میں فیصلہ ہونے والا ہے دیکھتے ہیں اخلاقی تقاضے فتح حاصل کرتے ہیں یا مفادات کی سیاست ایک مرتبہ پھر جیت جاتی ہے ۔آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا
’’ بحری جہاز میں سفر کرنے کے دوران تین آدمی سمندر میں گر پڑے مگر ان میں سے صرف ایک کے بال گیلے ہوئے بتاؤکیسے ‘‘
دوست حیران ہو کر کہنے لگا
’’ یہ کیسے ممکن ہے ‘‘
پہلے دوست نے جواب دیا
’’ اس لیے کے دو آدمی گنجے تھے ‘‘

قارئین ہم نے بچپن میں یہ محاورہ سنا تھا کہ ’’ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ‘‘ لیکن آج یہ محاورہ سمجھ آرہا ہے کہ بے ادب اور بدمعاش سیاسی اٹھائی گیروں کے درمیان سیاست ایک طوائف کی شکل اختیار کر چکی ہے اور تماش بینوں میں شاید عوام سمیت ہم بھی شامل ہو چکے ہیں اﷲ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336291 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More