ہم نے سیکھا نہیں صداقت کو بغاوت لکھنا

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو لگتا ہے کہ حکومت اور فوج دہشت گردی کے خلاف متحد ہی نہیں مستعد بھی ہیں مگر میڈیا اپنا کردار نہیں نبھا رہا ،اسی لیے انھوں نے میڈیا سے درخواست کی ہے کہ ’’ہتھ ہولا رکھو ‘‘ اور میڈیا ہاؤسزکم ازم دو سال کے لیے اپنی ریٹنگ کو بھول جائیں ۔ کہا تو انھوں نے بہت نپے تلے انداز میں ہے کیونکہ وہ بھی واقف ہیں کہ آج کل چینلز پر اکثر ٹاک شوز میں ذومعنی باتیں کرنے والے موجود ہیں اور وہ سادہ سی بات کو بھی ایسے ایسے معنی پہناتے ہیں کہ عقل بھی شرما جاتی ہے ۔مگر قابل غور بات یہ ہے کہ کیا ہمارے آج کے کالم نگار اور دانشور حضرات ،ظفر علی خا ن ،حسرت موہانی اور چراغ حسن حسرت جیسے جری اور حق لکھنے والے ہیں ،میاں صاحب شاید بھول گئے کہ موجودہ دور میں سچ لکھنا اور بولنا ناپید ہو چکا ہے چند لوگ رہ گئے ہیں جو حرف صداقت لکھتے ہیں اورحکومتوں پر بغیر خوف و خطر کے اور بغیر لگی لپٹی رکھے تنقید کرتے ہیں ان کو ہم دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں اولاً ایسے خر دماغ ہیں جنھیں نام و نمود سے کچھ نہیں لینا انھیں وطن سے محبت کا بخار چڑھا ہوا ہے ۔دوئم ایسے دانشور جن کی تنقید حق بات پر مبنی ہو یا نہ ہو ان کا مدعا مخالف نظریات رکھنے والے حکمران پر حرف گیری کرنا ہوتا ہے اورممدوح حکمران کے ہر عمل کو سراہنا ہے ۔درحقیقت وہ بھی کسی نہ کسی منصب کے متمنی ہوتے ہیں جب اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں نام ہی کافی ہوتا ہے تو ان کے خیالات کچھ یوں ہو جاتے ہیں
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا
اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا
بندے کو خدا کیا لکھنا

جناب عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں کہ کالم نویس کی ذمہ داری یہ ہے کہ ’’وہ جو کچھ لکھے خدا اور ضمیر کو گواہ بنا کر لکھے ‘ہم لوگوں میں یہ خرابی ہے کہ ہم اپنے کرپٹ کالم نویس کو اس دیانت دار کالم نگار پر ترجیح دیتے ہیں جو ہم سے اختلاف رکھتا ہے ‘‘تو اس سے ثابت ہے کہ جو مظلوموں کا ساتھی نہیں وہ کالم نگار ہی نہیں ہے ۔ اوریہاں سبھی اپنے اپنے مفادات کے غلام ہیں،اس لیے چند شبنم کی بوندیں سیلاب کیونکر لاسکیں گی کیونکہ میڈیا ہاؤسز کی جانبداری اور غیر جانبداری کی نمایاں مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں ،یہ ڈرامہ دھرنوں میں سر عام دیکھا گیا اور جو غیر جانبدار کہلاتے ہیں وہ بھی کیسے اند ر اور باہر کا کھیل کھیلتے رہے اور معافیاں مانگ کر سر نگوں ہو تے رہے یہ ساری صورتحال مذحکہ خیزی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اوربلاشبہ اس حقیقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ (ن) لیگ نے جس قدر تنقید کا سامنا کیا ایسا تو زرداری حکومت کو بھی نصیب نہ ہوا تھا مگر بلا کا حوصلہ ،درگزر اور معاملہ فہمی میاں صاحب نے پائی ہے کہ ان کے ارادوں ،نام نہاد منصوبوں اور طرزحکمرانی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جو جہاں تھا جیسا تھا وہیں پرہے ۔اگر کچھ بدلا ہے تو اتناکہ جو کل تک اپنے بیانات کو گولوں کی طرح داغتے تھے وہ آج عاجز و ملنسار بن رہے ہیں ۔اور اسی انکساری میں اب انھوں نے ایک عاجزانہ درخواست کی ہے اور اگر اس کو قابل اعتنا نہ گردانا گیا تو ان کے دل کو ٹھیس لگے گی ۔اس لیے ہمارے لکھاری اسی مد میں کالمز لکھ رہے ہیں اور ان سے ڈھکے چھپے الفاظ میں پوچھ رہے ہیں کہ ہم کیسے لکھیں کہ گلوں کا موسم آگیا ہے اور ہر رستہ گلزار ہے جبکہ ہر رستہ بے گناہوں کے لہو سے لالہ زار ہے ۔اب کہ سرسوں کھیتوں میں نہیں کھلی بلکہ اس کی زردی چہروں پر اتر آئی ہے ،اب دیس کے پنچھی بھی نہیں گنگناتے کہ فضا میں بارود اور دھواں پھیلا ہے ،رات کی خاموشی میں سسکیوں اور آہوں کی سرگوشیاں شامل ہو چکی ہیں ،ہر دل ماتم کدہ ہے اور ہر آنکھ نم
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

تو قصہ مختصر کہ زرد صحافت اور آزادی ء صحافت کا جھگڑا پرانا ہے ۔حکمران اپنے مخالفوں اور نقادان پرزرد صحافت کا الزام دھرتے آئے ہیں اور صحافی جھوٹی اور بے سرو پا باتیں لکھنے اورذاتی زندگیاں اچھالنے کو آزادی صحافت کا نام دیتے رہے ہیں ۔اصل حقائق کو تو وہ بھی چھپا جاتے ہیں خبر کو’’گرم مصالحہ‘‘ لگاکر پیش کرنا صحافت کا بنیادی اصول بن چکا ہے اس پراڈکٹ کی طرح ‘جسے ایک حسین دوشیزہ درکار ہوتی ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ کو قابل نگاہ بنا سکے۔ تو اپنی اپنی جگہ پر دونوں برابر کے قصوروار ہیں ،دونوں کو اپنی اپنی حدود کا تعین نہیں ہے اس لیے بہتر یہ ہے حکومت کوئی ضابطہ طے کرے ،جس کی بنا پر آزادی ء صحافت کے تقاضے بھی پورے ہوں اور ریاستی رٹ کو بھی چیلنج نہ کیا جا سکے کیونکہ حق بات لکھنے اور سوچ پر بھی قدغن نہیں ہونی چاہیے اور سالہاسال سے صحافت ہی اپنی تنقید کے ذریعے حکومت کو اپنی کوتاہیوں سے آگاہ کر رہی ہے اور درست سمت متعین کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی چلی آرہی ہے ۔ویسے بھی یہ کیسی منافقت ہے کہ جب ایک لکھاری حکومت پر تنقید کرتا ہے تو حزب اختلاف اسے با ضمیر اور با اصول کہتے ہیں اور جب حزب اختلاف بر سراقتدارآتے ہیں تو یہی صحافی حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کا مجرم ٹھہرتا ہے ۔تو عرض یہ ہے کہ حقائق تلخ ہی اتنے ہیں کہ انھیں صحیح فکر سے جھٹلانا ممکن نہیں، دو سال ہونے کو ہیں مگر گڈ گورنس کے فقدان میں کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں مل رہی اور امن عامہ پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔ رائے عامہ کے مطابق موجودہ حکومت نے اپنے حلیفوں کی آزادی رائے کو سلب کرنے ،پرویز مشرف پر مقدمات چلانے ،میڈیا ٹرائل میں اپنے حریفوں کو چت کرنے اور میٹرو بس جیسے منصوبوں پر عوام کا پیسہ رائیگاں کرنے کے سوا فل وقت کچھ بھی نہیں کیا ہے تو ہم بھلا کیوں نہ لکھیں۔۔۔؟مگر حکومت کو چاہیئے کہ اس تنقید کو اپنے لیے مشعلِ راہ سمجھے کیونکہ ہم نے سیکھا نہیں صداقت کو بغاوت لکھنا۔
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو ظلمت نہ لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شاہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالب
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا
Ruqqaya Ghazal
About the Author: Ruqqaya Ghazal Read More Articles by Ruqqaya Ghazal: 50 Articles with 34041 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.