خلائی جہاز میں کاؤ بوائز

دنیا بہت تیزی سے بدلتی جا رہی ہے اور اس تیز بدلتی دنیا کے آپ سنگین مسائل ہیں کہ جن کی پاداش میں ہی زیر نظر مضمون رقم کیا جا رہا ہے۔ لیکن مذکورہ ’سنگین مسائل‘ کی چھان پٹک کرنے اور ان کے اسباب و سد باب جانچنے سے پہلے مضمون کے عنوان پر کچھ سطریں لکھ دینا ناگزیر ہے۔

خلائی جہاز میں کاؤ بوائز بظاہر تو یہ عنوان کسی ہالی ووڈ فلم کا ٹائٹل محسوس ہوتا ہے لیکن دراصل یہ کرۂ ارض پر ہم انسانوں کے رہن سہن، اصراف اور طرز ِزندگی کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہم انسان اس کرۂ ارض پر ( جس کے وسائل محدود ہیں ) کے بے دریغانہ استعمال بلکہ انہیں نچوڑنے میں مصروف ِعمل ہیں۔ ماحولیات اور ارضیات کی جدید تحقیقات نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ زمین کے وسائل، جنہیں ہم لامحدود اور کبھی نہ ختم ہونے والا سمجھتے ہیں دراصل تیزی سے سکڑ رہے ہیں جبکہ انسانی آبادی و اصراف کی دن بدن بڑھتی شرح سے ہی زمین کے وسائل میں تیز کمی آ رہی ہے اور وہ وقت دور نظر نہیں آتا کہ جب زمین اپنے وسائل سے کلی طور پر خالی ہو جائے گی اور ہم انسانوں کے لیے یہ سیارہ جوا یک ”وشال سورج“ کے گرد گھوم رہا ہے، محض ایک وسیع بنجر میدان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گا۔

البتہ، کچھ حلقوں کی جانب سے یہ طرز ِفکر اپنایا جاتا ہے کہ دنیا کے وسائل لا محدود ہیں مثلاً زمین اس قدر بڑی ہے کہ بڑھتی آبادی کی بھوک پیاس کو بجھانے کے لیے کافی ہے اور دنیا کی وسیع و عریض زرخیز زمینوں پر کھیتی باڑی کر کے اناج وافر مقدار میں اگایا جاسکتا۔ جس سے آئندہ کئی صدیوں تک فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن شاید یہ حضرات اس سوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ کیا اصراف اور ماحولیاتی تبدیلی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظریہ دنیا آنے والی صدیوں یا دہائیوں میں اناج اگانے کے قابل بھی ہوگی یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ”آئیں بائیں شائیں“ میں گول کر دیا جاتا ہے۔

الغرض، تاریخ ِانسانی کے گزشتہ و دیرینہ ابواب میں انسانی آبادی اور اشرافیہ کا اصراف اس قدر نہ بڑھا تھا کہ جس سے کرۂ ارض کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہو لیکن اکیسویں صدی میں انسانوں کی بڑھتی آبادی اور اشرافیہ کے کبھی نہ ختم ہونے والے اصراف سے زمین پر بوجھ اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ زمین کا اسے سنبھال پانا ناممکن ہے۔ انسانیت کی کل آبادی تقریباً 8 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے ساتھ ہی ساتھ اصراف کا بھی یہ عالم ہے کہ آج محض ایک عام کروڑ پتی اتنا صَرف (خرچ، ضیاع) کرتا ہے جتنا کبھی مصر کے فراعنہ و عراق کے نمائردہ نے نہ کیے ہوں گے ۔

یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہمیں برباد کرتی جا رہی ہے جبکہ ہم اس کا حل تلاش کرنے کے بجائے، اُسے مزید بڑھاوا دینے میں مشغول ہیں۔ گلیشیرز پگھل رہے ہیں اور ان کے پگھلنے سے سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ مجموعی طور پر دنیا میں گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے جو ناصرف جزوقتی مسائل کو سامنے لاکھڑا کر سکتی ہے بلکہ کسی عظیم تباہی و بربادی کا بھی پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کاربن کے اضافی اخراج کی وجہ سے بھی ”اوزون“ شدید متاثر ہو رہی ہے اور اُس شدید گرمی اور خطرناک و جان لیوا تابکاری کو بھی کرۂ ارض میں داخل ہونے کی اجازت دے رہی ہے جو ناصرف انسانی زندگی بلکہ کل حیات کے لئے تباہ کن ہو سکتی ہے اور ماحولیاتی تباہی کا بھی سبب بن سکتی ہے، بلکہ بن بھی رہی ہے۔

دبئی میں عالمی کلائمٹ سمٹ 2023 سے قبل شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی دنیا کی معیشت کو اربوں کا نقصان پہنچا رہی ہے اور ترقی پذیر ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔ یہ رپورٹ امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی نے شائع کی۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایسی موسمیاتی تبدیلیاں جن کی وجہ انسان ہیں یا جو ”ہیومن کاز“ کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں۔ ان کے اثرات نے گزشتہ سال ( 2022 میں ) عالمی اقتصادی پیداوار میں 6.3 فیصد کمی پیدا کی ہے۔


یہ اندازہ دنیا کی تمام آبادی کو ملحوظ رکھتے ہوئے لگایا گیا۔ یہ اعداد و شمار موسمیاتی تبدیلی کے دونوں براہ راست نتائج یعنی زراعت اور مینوفیکچرنگ میں رکاوٹ اور زیادہ گرمی سے پیداوار میں کمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیز عالمی تجارت اور سرمایہ کاری پر پڑنے والے اثرات کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے۔ ڈیلاویئر یونیورسٹی کی اس اسٹڈی کے مرکزی مصنف جیمز رائزنگ کا کہنا تھا ”موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کو کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس کا زیادہ تر بوجھ غریب ممالک پر پڑا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ معلومات ان چیلنجوں کو واضح کر سکتی ہیں، جن کا سامنا بہت سے ممالک کو پہلے سے ہی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔“

اگر موسمیاتی تبدیلی میں ایک عام فرد کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کو مدنظر رکھا جائے تو 2022 ء میں عالمی جی ڈی پی کو موسمیاتی تبدیلی کے سبب 1.8 فیصد کا یا تقریباً 1.5 ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچا تھا۔ ان اعداد و شمار کے درمیان پایا جانے والا فرق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی غیر مساوی تقسیم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کم آمدنی والے ممالک اور زیادہ آبادی اور کم جی ڈی پی کے حامل خطوں میں خاص طور سے نظر آتے ہیں۔

سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کو آبادی کے لحاظ سے جی ڈی پی میں 8.3 فیصد کے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی افریقہ کے ممالک خاص طور پر متاثر ہوئے۔ ان خطوں کے ممالک کو بالترتیب اپنی جی ڈی پی کے 14.1 فیصد اور 11.2 فیصد کا نقصان ہوا۔ دوسری جانب کچھ ترقی یافتہ ممالک جن کا تعلق یورپ سے ہے، کم سردیوں یا سردی کی کم شدت والے موسم سرما کے سبب گزشتہ سال جی ڈی پی میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم مذکورہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس طرح کے فوائد عارضی ہو سکتے ہیں کیونکہ بہت گرم موسم گرما ہلکی سردی کے مثبت اثرات پر حاوی آ سکتا ہے۔

گزشتہ سال ( 2023 ) مصر میں ہونے والے سی او پی 27 کے مذاکرات میں تمام ممالک نے موسمیاتی آفات اور شدید موسم کے ”نقصان“ سے نمٹنے کے لیے کمزور ممالک کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ تیس نومبر سے دُبئی میں شروع ہونے والے عالمی ماحولیاتی سمٹ کے مذاکرات میں مرکزی اہمیت اسی موضوع کو حاصل رہی کہ اس فنڈ میں کون سا ملک کتنی رقم دینے پر آمادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک نے گزشتہ 30 سالوں میں سرمائے اور جی ڈی پی میں مجموعی طور پر 21 ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے، جو کہ ترقی پذیر دنیا کے 2023 ء کی کل جی ڈی پی کا نصف ہے۔

بہرحال، دنیا کے اقتصادی و سیاسی پس منظر کو سامنے رکھ کر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری پالیسیاں ماحول دوست تو کجا ماحول کی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ عالمی جمہوریتوں اور حکومتوں کا رہن سہن اور اس تباہی پر رد عمل بالکل کسی کاؤ بوائے جیسا ہے جو کسی کھلے میدان میں رہتا ہے جہاں زمینی وسائل کی بھرمار ہوتی ہے اور آبادی بھی کم ہی ہوتی ہے، اس لیے وسائل کا بے دریغانہ استعمال کسی پریشانی کا باعث نہیں ہوتا اور اس کے وہم گمان میں نہیں آتا کہ یہ وسائل ختم ہوسکتے ہیں اور میں بھوک، پیاس یا پھر کسی دوسری آفت سے مر بھی سکتا ہوں۔ دنیا بھر کی تمام حکومتوں کی ماحولیاتی پالیسی اسی ”کاؤ بوائے“ والے مفروضے کی بنیاد پر قائم ہے۔

جبکہ زمین کی حالت یہ ہے کہ یہ ایک خلائی جہاز ہے جس کے وسائل محدود ہیں اور جو خلاء کی وسعتوں میں اپنے محور کے گرد زیر گردش ہے۔ بجائے اس کے ہمیں اپنی پالیسیاں ایسی بنانی چاہیے کہ جیسے ہم کسی خلاء نورد کی طرح کسی خلائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں۔ بلکہ ہمارے سارے اقدامات اور نظریات ”کاؤ بوائے“ کی سوچ کے غماز ہوتے ہیں۔ اسی سوچ کے پیش نظر ہم اس دہانے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ترقی اور ٹیکنالوجی کے پہیے کو ماحول دوست پالیسیز کی جانب نہیں پھیرا گیا تو پھر ہم اپنی تباہی کو آپ دعوت دیں گے اور انسان اپنی معدومیت کے خود ذمہ دار ہوں گے ۔

ایک بات جو بیان کرنا ناگزیر ہے، وہ یہ ہے کہ کاؤ بوائے سوچ کے معمار دراصل ”کارپوریٹ مفاد“ کے حامی ہیں جن کا کاروبار ہی زمین کے وسائل کو نچوڑنے سے پھلتا پھلوتا ہے۔ اسی لیے وہ کیسے کسی ایسی پالیسی کو نافذ ہونے دے سکتے ہیں جو ان کے مفادات کے خلاف ہو؟ پوری دنیا پر بڑی بڑی کارپوریشنوں کی حکمرانی ہے جو حکومتی پالیسیوں کو اپنی من مرضی سے بدلواتی ہیں اور جمہوریتوں کو اپنے مطابق چلاتی ہیں۔ گویا یہ کارپوریشنز، عالمی مافیاز کے روپ میں کام کرتی ہیں اور یہی عالمی سرمایہ داریت، سامراج کی بدترین شکل ہے۔

Muhammad Raiyd Khan
About the Author: Muhammad Raiyd Khan Read More Articles by Muhammad Raiyd Khan: 4 Articles with 1865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.