دہشت گردوں کے حالیہ حملے اور نئی لہر

گزشتہ ڈیڑھ مہینے میں ملک کے مختلف شہروں میں 16دہشت گرد ی کے واقعات رونما ہوئے جس میں تقر یباً130افراد شہید اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد بننے والی قومی ایکشن پلان پر عمل شروع ہونے کے بعد ملک میں دہشتگردوں کے حملے میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ دہشتگرد گروپوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ہمارے لوگوں کو بھانسیاں دینے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ حملے اس کا ردعمل ہے ۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ان حالیہ حملوں کے پیچھے دوسرے گروپ بھی کار فرما ہے جو ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی شروع کر نا چاہتے ہیں۔شکار پور میں امام بارگاہ پر حملہ ہو یا پشاور حیات آباد میں امامیہ مسجد پر حملہ اور دو دن پہلے راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر واقع امام پارگاہ پر حملہ ہو ۔ ان حملوں سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ حملے شیعہ سنی لڑائی ہے لیکن عوام نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے اس پلان کو ناکام بنا دیا بلکہ ان حملوں نے پورے ملک کو اکٹھا کر دیا ہے۔ پاک فوج کے تر جمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے مطابق یہ حملے قوم کو تقسیم کر نے کی کوشش ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ بم دھماکے دراصل اسلام کی خو بصورت اقدار ،امن اور ہم آہنگی پر حملے ہے ۔

ملک میں دہشت گردوں کے خلاف روز بروز گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے ۔اب تک قومی ایکشن پلان کے تحت 16ہزار سے زائد سرچ آپر یشنز کیے جا چکے ہیں جس میں 12ہزار سے زائد لو گوں کو ان آپر یشنز میں گر فتار کیا جا چکاہے جن میں 140کے دہشت گردوں سے رابطے تھے ۔ قومی ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں مز ید آپر یشنز بھی ہو رہے ہیں ۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ لڑائی کو روکنے کے لیے ملک بھر میں 60تنظمیوں پر پابندی بھی لگائی گئی ہے جبکہ ایک تنظیم کو نگرانی میں رکھا گیا ہے لیکن دوسری جانب دہشت گرد کارروائیوں میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور دہشتگرد اپنے اہداف میں کامیا ب بھی ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ دہشتگرد کیسے اتنی آسانی سے حملے کر تے ہیں ۔ ان دہشتگر د گروپوں کو کہاں سے سپورٹ مل رہی ہے اور کیا دہشتگر د گروپوں کو بیرونی سپورٹ بھی حاصل ہے ؟ ان تمام سوالوں کے جواب بھی حکومتی اداروں کو دینا چاہیے اور ان حملوں آورں کو بے نقاب ہو نے کی بھی ضرورت ہے ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قومی ایکشن پلان پر عمل کرانے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف صوبائی حکومتوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور ہدایت دی ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمدکو تیز کیا جائے ۔وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کو ئٹہ میں ایپکس کمیٹی سے خطاب کر تے ہو ئے کہا کہ فتنہ گری کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، دہشت گردی کے خلاف ہمارا اعلان جنگ ہے ۔وز یر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ایکشن پلان پر عمل کے لیے و فاقی حکومت اور فوج صوبوں کو مکمل تعاون فراہم کر ے گی۔ بعد ازاں وزیر اعظم نے انسداد دہشت گردی فورس کی پاسنگ آوٹ پریڈ سے خطاب میں کہا کہ ہمیں ہمت ، صبر اور برداشت سے دہشت گردی کا مقابلہ کر نا ہے ۔ یہ جنگ ہمیں ہر حال میں جینی ہو گی۔

تجز یہ کاروں کے مطابق ملک میں حالیہ دہشت گر د حملے دہشت گردوں کے خلاف آپر یشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان کا نتیجہ ہے ۔برایگیڈائر(ر)سعد محمد نے بتایا کہ دہشت گردی ملک میں دس بارہ سال سے ہو رہی ہے لیکن جو حالیہ دہشت گردی میں تیزی د یکھنے کو مل رہی ہے یہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا نتیجہ ہے اب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دہشت گردوں کو کسی بھی صورت نہیں چھوڑ ا جائے گا۔ انہوں نے مز ید بتا یا کہ اب حکومت اور سکیورٹی اداروں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف بلاتفر یق کارراوئی کی جارہی ہے لیکن حکومتی اداروں کو بارڈر کے اس پار دہشت گردوں کو روکنے کے لیے افغانستان کے ساتھ معاملات حل کر نے ہوں گے ۔ افغانستان سے جو دہشت گر د کارروائی کر تے ہیں ان کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ بلاتفر یق کارروائی کی جائے لیکن دہشت گردوں کی نیٹ ورک کو ختم کر نے کے لیے انٹیلی جنس سسٹم پر بھی توجہ دینا ہو گا تاکہ حملہ آورں کو حملوں سے پہلے روک جا ئے دوسری اہم چیز یہ کر نی ہو گی کہ پو لیس نفری میں اضافہ کر نا ہو گا ۔پورے ملک میں پو لیس نفر ی کی کمی ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف سب سے متاثرہ ہو نے والے صوبہ خیبر پختونخوا میں پو لیس نفر ی انتہائی کم ہے جس کی تعداد بڑ ھانے کے لیے و فاقی حکومت کو صوبائی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کی ضرورت ہے ۔ خیبر پختونخوا میں پو لیس پر بہت زیادہ بوجھ ہے ۔ صرف پشاور کی آبادی 70لاکھ ہے جس کے لیے پو لیس نفر ی تقر یباً6ہزار ہے ۔ پو لیس کے استعداد کار بڑھانے اوران پر بوجھ کم کرنے کے لیے پولیس نفری میں فوری طور پر اضافہ کر نا چاہیے ۔ خیبر پختونخوا پو لیس کی تنخواہ ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بھی بہت کم ہے جس میں اضافہ کر نے کی بھی ضرورت ہیں ۔یہ بھی بہت ضروری ہے کہ دہشت گردی کے نام پر صرف برائے نام خانہ پوری نہ کی جائے بلکہ مکمل شواہد کے بعد کارروائی کر نی چاہیے ۔ بہت سے ایسی خبر یں مو جود ہے کہ دہشت گردی کے نام پر لوگ کو اٹھا یا جاتا ہے اور بعدازاں ان کو رہا کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام میں اداروں کے خلاف نفرت پیدا ہو تی ہے جس کو بھی ختم کر نے کی ضرورت ہے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 204318 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More