پنجاب حکومت کے حفاظتی اقدامات

 سانحہ پشاورکے بعدوفاقی حکومت نے اہم تنصیبات اور عوام الناس کی حفاطت کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ ان غیر معمولی حالات میں صوبوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیاہے۔حکومت کوئی بھی ہوعوام کے جان ومال کی حفاظت اس کی پہلی ترجیح ہواکرتی ہے۔اس کے لیے حکومت مختلف اقدامات کرتی ہے۔ یہ اقدامات حالات کی نوعیت کودیکھ کرکیے جاتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں سیکیورٹی کے اقدامات کویقینی بنانے اوردہشت گردی کے خطرے کے پیش نظراہم اورحساس تنصیبات کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات کی ہیں۔اور صوبے میں حساس تنصیبات کے تحفظ کاآرڈی نینس 2015ء لاگوکردیا ہے۔جس کے تحت ہرضلع میں سیکیورٹی ایڈوائزری کمیٹی اپنی حدود میں حساس تنصیبات کاتعین اورسہ ماہی بنیادوں پران کامعائنہ یقینی بنائے گی۔اوران مقامات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے گی۔اورحساس تنصیبات میں عبادت گاہوں ، سرکاری دفاتر،این جی اوز،غیرملکی پراجیکٹس، ہسپتال، بنک،مالیاتی ادارے،کمپنیوں کے دفاتر،صنعتی یونٹ،تعلیمی ادارے،پبلک پارک،پرائیویٹ کلینک،شادی ہال ،پٹرول پمپ،سی این جی اسٹیشنز،ہوٹل ، تفریح گاہیں،کمرشل مارکیٹیں اورپبلک ٹرانسپورٹ کے اڈے شامل ہوں گے۔اگرکوئی شخص حساس تنصیبات کے تحفظ کے آرڈی نینس کی خلاف ورزی کرے گایااس حوالے سے حکومت کی ہدایات پرعملدرآمدمیں ناکام رہے گاتواسے چھ ماہ تک قیداورپچا س ہزارسے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتاہے۔اہم تنصیبات اور عوام الناس کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں انتظامیہ، پولیس، پٹرولنگ پولیس، ریسکیو15،کوئیک ریسپانس فورس، خفیہ ادارے اوردیگر ادارے کام کررہے ہیں۔اس آرڈی نینس میں یہ واضح نہیں ہے کہ ان حساس تنصیبات کی حفاظت کون کرے گا۔کیا مطلوبہ حفاظتی اقدامات متعلقہ افسران کرنے کے ذمہ دارہوں گے ۔ عبادت گاہوں کی حفاظت کے انتظامات مہتمم کرے گا، امام مسجد یاخطیب کرے گا۔ یا کوئی اور کرے گا۔مہتم کرے گا وہ تو اب ہرمسجدمیں نہیں ہیں۔ امام مسجدکرے گا توایسی مساجد بھی ہیں جن کے امام مسجدوں کونہ توتنخواہ دی جاتی ہے اورنہ ہی ان کاکوئی اختیارہوتاہے وہ تونمازوں کے اوقات بھی اپنی مرضی سے مقرر نہیں کرسکتے۔ان حالات میں وہ مسجد کی حفاظت کے انتظامات کیسے کرے گا۔ہسپتال میں حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری میڈیکل سپریٹنڈنٹ کی ہوگی یاڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرکی۔پراجیکٹس چاہے ملکی ہوں یاغیرملکی ان پرکام ٹھیکے پر ہوتا ہے۔اس کی حفاظت ٹھیکیدارکرے گایاکوئی اور۔بینک مالیاتی ادارے، کمپنیاں، تعلیمی اداروں کی حفاظت کے اقدامات ہیڈماسٹرکرے گایاکوئی اورافسر کرے گا۔این جی اوز، مالیاتی ادارے، بنک،کمپنیاں، صنعتی یونٹ،شادی ہال ، پرائیویٹ کلینک،پٹرول پمپ، سی این جی اسٹیشن،ہوٹل کمرشل مارکیٹیں،اورپبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان یہ انتظامات خودکرسکتے ہیں۔ مسافر گاڑیوں پر پہلے ہی سیکیورٹی گارڈ کام کررہے ہیں۔دکانداروں نے سیکیورٹی گارڈ کھڑے کررکھے ہیں۔ نجی سطح پر حفاظتی اقدامات پہلے سے ہی کیے جارہے ہیں۔حساس تنصیبات کے تحفظ کے آرڈی نینس کی خلاف ورزی کرنے والے کوسزادینا توسمجھ میں آتا ہے ۔ اور جو اس سلسلہ میں ناکام رہے اسے سزادینا مناسب نہیں۔ ناکام رہنے والے کوسزادینے سے پہلے وجوہات کا تعین کیا جائے گایا نہیں۔ کیا اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ جو حفاظتی انتظامات کرنے میں ناکام رہا ہے اس کا ذمہ داروہ خود ہے یا کوئی اور۔سرکاری ، پرائیویٹ دفاتر ، اداروں، جلسوں اوردیگر حساس مقامات پر داخل ہوتے وقت تلاشی لی جاتی ہے۔بعض ایسے مقامات بھی ہیں جہاں مکمل تلاشی نہیں لی جاسکتی۔ جیسے کہ سبزی اور فروٹ اورغلہ منڈیاں ہیں۔جہاں بوریوں میں سبزیاں ، فروٹ اورغلہ آتا ہے۔ ان میں چھپاکراگرکوئی اﷲ نہ کرے بم لے آئے تو اس کا سراغ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔مسافر اورمال بردارٹرانسپورٹ گاڑیوں کے نیچے کوئی شرپسند اﷲ نہ کرے تباہ کن اسلحہ فٹ کرجائے تو اس کا پتہ کیسے چلایاجائے گا۔ گاڑیوں کے نیچے سے بم برآمدبھی ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی چیک کرنے کے جوآلات ہیں وہ لوہے کی نشاندہی کرتے ہیں بارودکی نہیں۔ اورٹرانسپورٹ گاڑیاں توہوتی ہی لوہے کی ہیں وہاں یہ آلات کیسے نشاندہی کرسکتے ہیں۔رکشے بھی سیکیورٹی رسک ہیں۔ اس کی سیٹوں کے نیچے ایک نہیں سوبم رکھے جاسکتے ہیں۔ اس طرف ابھی تک کسی نے توجہ نہیں کی۔مسافر اورمال بردارٹرانسپورٹ گاڑیوں میں شیشے اس طرح نصب کرائے جائیں کہ گاڑیوں کا نیچے والا حصہ صاف نظرآئے۔ ایسا ممکن نہ ہوتوہر سٹاپ پر نیچے والا حصہ چیک کیا جائے۔پنجاب حکومت نے پراپرٹی ڈیلرز، اورمالکان رہائشگاہوں کی ذمہ داریوں کے لیے کرایہ داری آرڈی نینس 2015ء بھی لاگوکردیاہے۔جس کے تحت ہونے والی قانونی اصلاحات میں پراپرٹی ڈیلرز، مالکان وکرایہ دارانہ پریہ لازم ہوگاوہ کسی بھی رہائش گاہ کوکرایہ پردینے کے اڑتالیس گھنٹے کے اندر،پولیس کوکرایہ دارن کے مکمل کوائف فراہم کریں گے۔اسی طرح ہوٹل مالکان، منیجرز،کسی بھی مہمان کوکمرہ دینے کے تین گھنٹوں کے اندرپولیس کومتعلقہ مہمان کے مکمل کوائف فراہم کریں گے۔کسی بھی ہاسٹل میں طلبہ اورسٹاف کے علاوہ کوئی بھی شخص منیجر سے تحریری پیشگی اجازت کے بغیر کام نہیں کرسکے گا۔ہاسٹل کے منیجرپرلازم ہوگاکہ وہ متعلقہ شخص کے کوائف ہاسٹل میں داخل ہونے کے تین گھنٹے اندر پولیس کوفراہم کرے گا۔مالکان، پراپرٹی ڈیلرزیامنیجرزیہ یقینی بنائیں گے کہ مہمان یا کرایہ دارکے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈیاپاسپورٹ ہو۔جس کی نقل فوری طورپرپولیس کوفراہم کی جائے گی۔یہ بھی یقینی بنایاجائے گا کہ کرایہ داریامہمان کے پاس کسی بھی قسم کا دھماکہ خیز مواداور سلحہ نہ ہو۔لائسنس یافتہ اسلحہ کی صورت میں منیجزاسلحہکااندراج کرکے پولیس کو مطلع کرے گا۔ان ہدایات کی خلاف ورزی کی صورت میں چھ ماہ تک قیداوردس ہزارسے ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزاہوسکتی ہے۔ایسی ہدایات توپہلے ہی جاری کی جاچکی ہیں کہ کسی کومکان کرایہ پردینے اورہوٹل کاکمرہ کرایہ پردینے کے بعد کرایہ داریامہمان کے کوائف پولیس کو دیے جائیں۔ ہوٹل مالکان اورمنیجرز تومہمانوں کا ڈیٹا رکھتے ہیں۔ مکان کرایہ پردینے کے لیے کوئی کمپنی یا ادارہ موجودنہیں ہے۔ یہ مالکان کی صوابدیدپرہوتاہے کہ وہ اپنا مکان جس کوچاہیں کرایہ پردیں اور جس کوچاہیں نہ دیں۔ اس سلسلہ میں سزائیں مقرر کرنے سے خوف پیدا ہوگااور بہت کم مکان مالکان کرایہ داروں کے کوائف جمع کرائیں گے۔اکثر پہلے کی طرح لاپرواہی سے ہی کام لیں گے۔پہلے بھی بارباریہ تاکیدکی جاتی رہی ہے مگر کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔کرایہ داروں کے کوائف رکھنے کے لیے حکومت پنجاب ہر شہر اور قصبہ میں دفاتر قائم کرے۔ یہ دفاتر محکمہ ریونیو، محکمہ بلڈنگ یاتحصیل کونسل کے زیراہتمام کام کریں۔ایسے ہوٹل جوکمرے کرایہ پر دیتے ہی ان کی اورجومکان مالکان اپنے مکان کرایہ پردیتے ہیں ان کی اوردکانیں کرایہ پردینے والوں کی رجسٹریشن کرکے ان کولائسنس جاری کیے جائیں۔ جس کامکان یادکان کرایہ پرخالی ہو وہ بھی اس دفتر میں مکان ، دکان کی تفصیل کے ساتھ اندراج کرائے اور جس کو مکان یادکان کرایہ پر درکارہووہ بھی اسی دفتر سے رابطہ کرے۔یہ دفتر کرایہ دارکے کوائف لے کر اور اس بارے نادراسے تصدیق کرکے خصوصی پاس جاری کرکے متعلقہ مالک مکان یادمالک دکان کے پاس جہاں اسے مکان یادکان درکارہوبھیج دے۔ مالک مکان، دکان یاہوٹل کامالک وہ پاس اپنے پاس رکھ کر اس شخص کومکان، دکان یاکمرہ کرایہ پردے دے۔ اس سے حکومت کے پاس شہر میں باہر سے آنے والے افراد کا ڈیٹا موجود رہے گا۔جو کرایہ کا مکان چھوڑکرجائے وہ بھی اسی دفترمیں بتاکرجائے کہ ہم جارہے ہیں۔مالک مکان بھی رپورٹ کرے کہ اس کامکان خالی ہوگیا ہے۔ ازخود مکان ، دکان اورکمرہ کرایہ پردینے پرسخت پابندی لگائی جائے۔ یہ دفتر ہر شہر، قصبہ کے درمیان قائم کیاجائے تاکہ کرایہ داروں کومشکلات کاسامنانہ کرناپڑے۔ہوٹل مالکان یامنیجرزکمرے کرایہ پردیتے ہیں۔ ان کے لیے ایک فارم بنایاجائے وہ جس کوبھی کمرہ کرایہ پردیں اس کی تفصیل اس فارم پردرج کریں ۔اس کا ایک پرت ہوٹل کے پاس رہے ایک پرت کرایہ دارکے پاس ہو ۔اور روزانہ حکومت کاایک ملازم ہوٹلوں سے یہ فارم اکٹھے کرے ایک فارم اس کودیاجائے۔ دفترسے پاس بنوائے بغیر مکان، دکان، کمرہ کرایہ پرلینے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔وزیزاعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی زیرصدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس امن وامان کی مجموعی صورتحال اورسیکیورٹی انتظامات کاجائزہ لیاگیا۔شہبازشریف نے درست کہا ہے کہ موجودہ غیر معمولی صورتحال غیرمعمولی اقدامات کی متقاضی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب بھرمیں تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی انتظامات کوفول پروف بنایاجارہا ہے۔تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی انتظامات پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔انہوں نے متعلقہ حکام کوہدایت کی کہ سرکاری ،نجی، سکولوں،کالجوں اوریونیورسٹیوں میں وضع کردہ سیکیورٹی پلان کے تحت انتظامات ہونے چاہییں۔اورسیکیورٹی انتظامات کی روزانہ کی بنیادپرمانیٹرنگ یقینی بنائی جائے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی وزراء اگلے دس روزکے دوران اپنے متعلقہ اضلاع میں رہیں گے۔اورسیکیورٹی انتظامات کی نگرانی کریں گے۔وزیراعلیٰ نے انسپکٹرجنرل پولیس اورسیکرٹری داخلہ کوبھی تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی انتظامات کی چیکنگ کے لیے خودفیلڈمیں جاکرجائزہ لینے ہدایت کی۔وزیراعلیٰ نے مقررہ مدت تک سیکیورٹی انتظامات نہ کرنے والے تعلیمی اداروں کے بارے میں کہا کہ انہیں وارننگ دی جائے کہ اورجلدسے جلد سیکیورٹی انتظامات مکمل کرنے کے حوالے سے انہیں پابندبنایاجائے۔شہبازشریف نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لیے این سی سی کی تربیت دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جائے۔کیونکہ موجودہ حالات میں این سی سی کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔اجلاس میں وزیراعلیٰ کا کہناتھاکہ پاکستان کواس وقت اتحاد، اتفاق، امن،ہم آہنگی، رواداری اوربرداشت کی ضرورت ہے۔ان مسلمہ اصولوں اورسنہری ضابطوں کی ضرورت صرف آج نہیں ہردورمیں رہی ہے اوررہے گی۔سیرت مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم میں بھی یہی درس ہی ملتاہے۔ان کاکہناتھا کہ میں سمجھتاہوں کہ تعلیمی اداروں خصوصاًسکولوں میں اسلام کے ان سنہری اصولوں کے حوالے سے خصوصی لیکچرزاورسیمینارزکااہتمام ہوناچاہیے۔لہٰذاجس طرح ڈینگی کے خلاف جنگ کے دوران ڈینگی کے مرض اوراحتیاطی تدابیرکوسلیبس کاحصہ بنایاگیا تھا۔چیف منسٹرکی یہ بہت اچھی خواہش ہے۔ حکومت خود اوراس کے ممبران اسمبلی ان اصولوں پرعمل کرناشروع کردیں تو عوام بھی ایساہی کرنے لگ جائیں گے۔جہاں تک بدمعاشوں کی بات ہے وہ نہ تواسلام کومانتے ہیں اورنہ ہی ان سنہری اصولوں کو۔وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کوہدایت کی کہ صوبے میں اشتعال انگیزتقاریر،مذہبی منافرت پرمبنی لٹریچرکی اشاعت وتقسیم ،لاؤڈسپیکرکے غیرقانونی استعمال اوروال چاکنگ روکنے کے لیے بلاامتیازایکشن جاری رکھاجائے۔اوراشتعال انگیزتقاریرپرمبنی سی ڈیز فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ایسے عناصرکی دکانیں سیل کرکے قانون کے تحت ایکشن لیاجائے۔انہوں نے مزیدہدایت کی کہ صوبے میں بغیرنمبرپلیٹ اورسیاہ شیشے والی گاڑیون کے خلاف بلا امتیازکارروائی کی جائے۔سب ہدایات درست ہیں لاؤڈ سپیکرکے استعمال کے حوالے سے نظرثانی کی جائے۔ لاؤڈسپیکرپر صرف تقریرکرنے اورنعرے بازی پرپابندی ہونی چاہیے۔ تلاوت، نعت، دعا، درودوسلام کی اجازت ہونی چاہیے کہ ان سے نہ تواشتعال پھیلتاہے اورنہ ہی ان کافرقہ واریت یادہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔ اورنہیں توجمعہ کے دن جمعہ کی نمازکے لیے اس کی اجازت دی جائے۔مساجدآبادمیں نمازیوں کی تعدادمیں اضافہ ہوجائے گاتوملک میں امن بھی قائم ہوجائے گا۔
پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں، عبادت گاہوں سمیت حساس تنصیبات کی حفاظت کے لیے جوحفاظتی اقدامات اورانتظامات کیے ہیں وہ حالات کا تقاضابھی ہیں اور ضرورت بھی۔عوام کوبھی چاہیے کہ وہ بھی حکومتی ہدایات پرعمل کرکے اپنی ، قوم کی اورملک کی حفاظت کریں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302393 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.