دہشت میں کرناٹک یا دہشت پر ناٹک؟

+شیموگہ:(مدثر احمد):۔پچھلے دنوں بنگلور میں ہونے والے دھماکے نے ریاست کے مسلمانوں کا سکھ چین چھین لیا اور کرناٹک کے مسلمانوں کے امن و چین کو تحس نحس کردیاہے۔ بھلے ہی اس دھماکے سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہواہے لیکن اس کے پیچھے جو شیطانی دماغ ہیں وہ مسلمانوں کو پھر شک کے دائرے میں کھڑا کیا ہے خاص طور پر بھٹکلی مسلمانوں کو مزید مضطرب کردیاہے۔ یہ ایک دھماکہ ایک بار پھر سے اپنے پیچھے درجنوں سوال چھوڑ گیاہے اور ایک بار پھر ہندوستانی میڈیا میں دوڑ لگ گئی ہے کہ ان کی ذمہ داری بغیر کسی ثبوت ، بغیر کسی بنیاد کے انڈین مجاہدین نامی تصوراتی تنظیم کے سرپر منڈھ دی جائے۔ مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا جائے اور مختلف معاملات کو لیکر اس دھماکے کو ایک انتقامی کارروائی قرار دیا جائے ۔ بھاجپا کا راگ :دھماکوں پر ایک بار پھر گھٹیا سیاست شرو ع ہوگئی ہے ۔ بھاجپا کے چھوٹے سے لیکر بڑے لیڈرنے مسلمانوں کو اسکا ذمہ دار ٹہرانا شروع کردیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بھاجپا کے لیڈر سمجھتے ہیں ہندوستانی مسلمانوں کو ظلم کا شکار بنایا جائے۔ انہیں مسلسل شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جائیانہیں حق و انصاف سے محروم رکھاجائے توملک میں دہشت گردی کم ہوجائیگی۔دھماکے رک جائینگے ۔ بی جے پی کے مقامی لیڈرنے گوند نائک نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان دھماکوں کے پیچھے مجلس اصلاح وتنظیم کا ہاتھ ہے اور وہ بھٹکلی نوجوانوں کو ورغلا رہی ہے ۔ دراصل کرناٹک کے شر پسند عناصر صرف اس بات پر اپنا زہر اگل رہے ہیں کہ اسی تنظیم نے پچھلے دنوں اپنی صد سالہ تقریب کے دوران متعدد نامی گرامی شخصیات اور سیاستدان جن میں وزیراعلیٰ سے لے کر قائد قوم اسدالدین اویسی نے شرکت تھی اور بھٹکلیوں کی تعریف و تائید میں آواز بلند کی تھی۔سچائی یہ ہے کہ دہشت گردی کے فروغ کے لئے بھاجپا کی یہ پالیسی ، یہ سوچ اور ذہنیت ذمہ دارہیں ۔جو مسلمانوں کو ہر قیمت پر دوسرے یاتیسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتے ہیں۔ میڈیا کی دہشت گردی:بنگلور دھماکے سے میڈیا کو بھی ایک بار بھی ہوائی تیر چلانے کا موقع ملا، لمبی کہانیاں گڑھنے کا موقع ملا گیا۔مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور اپنی ٹی آر پی بڑھانے کا موقع مل گیا ۔اب میڈیا خصوصاًٹی وی چینل کئی دنوں سے خیالی کہانیاں بنا کر عوام کو الجھا رہے ہیں اور آتنک وادیوں نے ملک کو اتنا دہشت گردانہیں کیا جتنا کہ الیکٹرانک میڈیا نے دہشت و خوف کا ماحول بنایا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ گھنٹوں تک دہشت گردی پر بات کرنے والے کنڑا میڈیا کے کئی صحافیوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ بھٹکل کی تنظیم کا کیا نصب العین ہے اور وہ مسلمانوں کی کس طرح سے نمائندگی کرنا چاہتی ہے۔صرف بھٹکل کی تنظیم کی بات نہیں بلکہ ہر اس مسلم تنظیم کی بات کی جائے جو مسلمانوں کی قیادت کرنا چاہا رہی ہے،بھلے ہی وہ جماعت اسلامی ہو یا پاپولر فرنٹ آف انڈیا،اگر یہ تنظیمیں اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنے کیلئے میڈیا کو مدعو کرتے ہیں تو میڈیا کا جواب یہ ہوتاہے کہ اوپن اسٹیج پروگرام نشر نہیں کرتے یہ ان کے ضابطے میں نہیں اگر یہی کام وشو ہندو پریشد،آر ایس ایس اور بجرنگ دل کرتے ہیں تو ان کی نیوز بریکنگ نیوز میں تبدیل ہوجاتی ہے۔بغیر کسی بنیاد یا کسی تحقیق کے تمام تر الزام مسلم تنظیموں کے سر منڈدو اور پورے ملک کو دہشت زدہ کرنے کا ٹھیکہ الیکٹرانک میڈیا ہے۔دہشت زدہ مسلمان:بنگلور میں ہونے والے معمولی دھماکے سے سب سے زیادہ دہشت زدہ بھٹکل کا مسلمان ہے ،جب بھی ملک کے کسی کونے میں بم دھماکے ہوتے ہیں تو پہلا ٹارگیٹ کے مسلمان ہی ہورہے ہیں،کبھی یہاں کے مسلمانوں کو انڈین مجاہدین سے جوڑا جارہا ہے تو کبھی ریاض بھٹکل کا رشتہ دار کہا جارہا ہے۔بھٹکل کا ہر نوجوان شک کے دائرے میں آرہا ہے،میڈیا اور حکومت کی اس لاپرواہی کی وجہ سے حالت یہاں تک ہے کہ اسکولوں میں پڑھنے والے بچے طعن و توہین کا نشانہ بن رہے ہیں،دفتروں میں کام کرنے والے مسلم نوجوان شک کانشانہ بن رہے ہیں۔ ماں باپ ہر لمحہ خوف زدہ ہیں کہ کب ان کا بیٹا بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے،بغیر کسی وارنٹ اور قانون کے اس کے گھر سے اٹھا لیا جائے اور اس کی زندگی ہمیشہ کیلئے جیل کی سلاخوں میں گذار دی جائے۔ان شیطانی دھماکوں کے پیچھے جو دماغ کام کررہے ہیں وہ ہندوستان کو دہشت زدہ کرنے میں نہیں البتہ مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے میں ضرور کامیاب ہورہے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے میں ضرور کامیابی مل رہی ہے۔کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟پولیس خاموش ہے،حکومت خاموش ہے مگر میڈیا دھماکے کے فوری بعد ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے اس دھماکے کو انڈین مجاہدین نے انجام دیا ہے۔اب میڈیا کے سامنے یہ بھی گناہ بن گیا ہے کہ کوئی پاکستانی لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا کہ وہ بھی اس بنیاد پر لڑکی کے آباء و اجداد کا تعلق کبھی ہندوستان سے تھا،اب بھٹکل کا نوجوان اپنے پاکستانی سسرال کو فون پر بات بھی نہیں کرسکتااگر وہ اپنے سسر سے بات کرتا ہے تو جیش محمد کے سرغنہ سے بات کرنے کاالزام لگایا جاتا ہے۔ انڈین مجاہدین آج کل ملک میں ہر مرض کی دوا بن چکی ہے حالانکہ دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس سے پہلے جو اجمیر،مالیگاؤں اور مکہ مسجد کے بم دھماکے ہوئے تھے اس میں پہلے انڈین مجاہدین کا ہاتھ بتایا گیا تھا ،بعدمیں تحقیقات سے پتہ چلا کہ اسے سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں نے انجام دیا ہے،جس میں کرنل پروہیت، سادھوی پرگیا سنگھ،پرساد سری کانت پروہیت،سوامی اسیما نند جیسے دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حالات اس قدر بد تر ہوگئی ہیں کہ میڈیا کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر جانچ ایجنسیاں ہر معاملے کو مسلم نوجوانوں کو جوڑ رہی ہے ،وہ اپنے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنا نہیں چاہتے،چند نوجوانوں کو پکڑ لو انہیں انڈین مجاہدین کا ایجنٹ قرار دو اور پولیس،حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کی تمام ذمہ داری ختم،کتنا آسان کھیل ہے۔دنیا کے کسی ملک میں پولیس اور میڈیا اتنی جلدی اتنی آسانی سے تحقیقات کرکے ملزمین تک نہیں پہنچتا جتنا ہمارے ملک میں پہنچا جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر انڈین مجاہدین ہیں کون اور ان کا لیڈر کون ہے؟ان کی سیاست کیا ہے؟ان کے نظریا کیا ہیں؟حکومت آج تک اس کی تہہ تک پہنچنے میں کیوں ناکام ہے؟ان کی پشت پر کون ہے ؟سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انڈین مجاہدین حقیقت ہے کہ یا فسانہ؟ہم یہ نہیں کہتے کہ ان دھماکوں کیلئے ہندو یا مسلم دہشت گرد ذمہ دار ہیں ،ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ان دھماکوں کیلئے انڈین مجاہدین یا آر ایس ایس ذمہ دار ہے،ان دھماکوں کیلئے پاکستان اور لشکر طبیہ کو بھی ذمہ دارنہیں ٹھہراتے،ہم تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ ان دھماکوں کی ایماندارنہ طریقے سے تحقیقات کی جائے اور اصل مجرموں کو کھلے دماغ سے ثبوتوں کی بناء پر گرفتار کیا جائے۔وہ دہشت گرد ہندو یا مسلمان یا کسی اور ذات کے ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.