مودی کے مطالبات اور حکمرانوں کی ذمہ داریاں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بھارت میں پاکستان دشمنی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے والے بی جے پی لیڈر نریندر مودی اپنے نئے سیاسی سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔وہ اپنے باپ کے ہمراہ ایک ٹی سٹال پر چائے بیچتے رہے ‘پھر نوجوانی میں ہی ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہوئے اور مسلم کش فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان کے ماتھے پر کئی بدنما داغ ہیں۔ احمد آباد گجرات میں ان کی حکومت آنے کے تین ماہ بعد قتل و خون کی ہولی کھیلی گئی اور معصوم بچوں،عورتوں و بزرگوں سمیت تین ہزارسے مسلمانوں کو ظلم و ستم کی اندوہناک داستانیں رقم کرتے ہوئے خون میں نہلا دیا گیا۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد، مالیگاؤں، عشرت جہاں فرضی جھڑپ،اجمیر شریف ، مظفر نگر اور حال ہی میں میرٹھ اور اترپردیش کے مختلف شہروں و علاقوں میں ہونے والے فسادات میں نریندر مودی اور بی جے پی و آر ایس ایس کی قیادت ملوث رہی ہے۔ وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہوئے تو بعض دانشوروں اور سیاستدانوں کا خیال تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی اسلام و پاکستان دشمنی میں کمی آجائے گی۔ مسلم لیگ (ن) سمیت پاکستان کی بعض سیاسی تنظیموں کی جانب سے کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیاگیا۔ مودی کی دعوت پر جب وزیر اعظم نے بھار ت جانے کا اعلان کیا تو بعض مذہبی و سیاسی تنظیموں نے ان کے اس دورہ کی مخالفت کی اور کہا کہ اگر بنگلہ دیش کی بھارت نواز وزیراعظم اپنے اسپیکر اسمبلی کو بھیج سکتی ہے تو آپ بھی کسی نمائندے کو بھیج دیں بذات خود وہاں نہ جائیں‘ آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیاجائے گا مگر وہ نہیں مانے ۔ بعد ازاں جب انہوں نے دورہ بھارت کا باقاعدہ اعلان کر دیا تو انہیں کہا گیا کہ آپ نے اگر ضرور جاناہے تو جائیں لیکن مسئلہ کشمیر ، پاکستانی دریاؤں پر متنازعہ ڈیموں کی تعمیراور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی بات کریں مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نریندر مودی نواز شریف ملاقات کے بعد دنیابھر میں یہ تاثر ابھرا کہ پاکستانی وزیرا عظم کو وہاں بلایا نہیں بلکہ طلب کیا گیا اور پھر ان کے ہاتھ میں دہشت گردی ختم کرنے، ممبئی حملوں کے مبینہ ملزمان کے خلاف سخت کاروائی کرنے اور مبینہ ملزمان کے وائس سیمپلز مہیا کرنے جیسے پانچ مطالبات پیش کئے اور ان کے ہاتھ میں ایک چارج شیٹ تھما دی گئی مگر افسوس کہ پاکستانی وزیر اعظم کی زبان سے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بات کرنا تو دور کی بات انہوں نے شہ رگ کشمیر سے آئے حریت پسند کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا کہ کہیں مودی ان سے ناراض نہ ہو جائیں۔بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم سے ون آن ون ملاقات کے بعد جس طرح یکدم ان کی باڈی لینگویج تبدیل ہوئی اور میڈیا سے چند منٹ کی گفتگو کے بعد وہ بغیر کسی سوال کا جواب دیے وہاں سے رخصت ہو گئے اس سے سب کچھ صاف واضح ہو گیا اور کوئی بات چھپی نہیں رہی۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ دورہ بھارت کے بعد سے اگرچہ وزیر اعظم خود بھی پریشان ہیں مگر ان کے ارد گرد موجود امن کی آشا پروان چڑھانے والے لوگ انہیں اب بھی یہی مشورے دے رہے ہیں کہ بھارت سے آلو پیاز کی تجارت اور دوستی لگائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ نواز شریف کی جانب سے دورہ بھارت کے دوران کہا گیا کہ ہم پاک بھارت تعلقات کو1999ء کی سطح پر لے جائیں گے اور وہیں سے بات شروع کریں گے جہاں سے یہ سلسلہ ختم ہوا تھا مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ واجپائی جب پاکستان آئے اور اعلان لاہور ہوا تو وہ اس وقت کشمیر کو متنازعہ خطہ تسلیم کرتے تھے۔ کنٹرول لائن پر کوئی باڑنہیں تھی، پختہ مورچے وبنکر نہیں بنائے گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر جنگی بنیادوں پر ڈیم تعمیر نہیں کئے جارہے تھے مگر آج تو صورتحال ہی سرے سے مختلف ہے۔ بھارت کشمیرکو متنازعہ تسلیم کرنے کی بجائے اسے نہ صرف اپنے وجود کا حصہ قرار دیتا ہے بلکہ دفعہ تین سو ستر جس کا تنازعہ بہت زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے ‘ اس آئینی دفعہ کومنسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ آپ اگر واقعی 99ء کی سطح پر تعلقات لیجاناچاہتے ہیں تو پھر کنٹرول لائن پر سے باڑ، پختہ بنکرو مورچے ختم اور متنازعہ ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ بند کروائیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر لیاقت نہرو معاہدے کے تحت بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ ایک تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ 1948ء میں جب مجاہدین سری نگر تک پہنچ چکے تھے تو نہرو خود اس مسئلہ کو سلامتی کونسل میں لیکر گئے اور کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا؟ وہ خود بار بار اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد کشمیری الحاق پاکستان کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں آخر آپ یہ مسئلہ اپنی زبان پر لاتے ہوئے کیوں شرماتے ہیں؟آپ تو خود بھی کشمیری ہیں‘مظلوم کشمیری مسلمان آپ سے بہت زیادہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے مظالم کا شکار ہیں تو بھارتی یونیورسٹیوں میں ان کے بیٹوں کو پاکستان کے خلاف نعرے نہ لگانے پر بے دخل کر دیا جاتا ہے۔وہ تو اپنی جان، مال، عزت و آبرو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان کیلئے ہر لمحہ نچھاور کرنے کیلئے تیار نظرآتے ہیں۔ پاکستان کی محبت ان کے خون میں دوڑتی ہے۔سید علی گیلانی ، سیدہ آسیہ اندرابی اور دیگر کشمیری لیڈرلاکھوں بھارتی فوج کی موجودگی میں یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ اسلام کے رشتہ سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘ تو کیاہمیں ان کے اس نعرہ اور جذبات کی لاج نہیں رکھنی چاہیے ۔آپ کی حکومت آنے پر انہوں نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا تھامگر آج یہ ساری صورتحال دیکھ کروہ بہت زیادہ مایوس اور پریشان ہیں۔ آپ کے دورہ بھارت کے دوران جس طرح کشمیر کے مسئلہ کا ذکر تک نہیں کیا گیا ان کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی اور اعتماد مجروح ہوا ہے۔قوموں کا مورال بلند رہے تو وہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑی رہتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ آپ کے دورہ سے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو یہ بے جانہ ہوگا۔ بہرحال ہم آپ کی نیت پر شک نہیں کرتے۔آپ یقینا معاملات کو سلجھانا چاہتے ہوں گے مگر بھارت سرکار کا ماضی اور مودی کے دہشت گردانہ کردار کو بھی سامنے رکھیں۔ابھی مودی کی حکومت بنے چنددن ہوئے ہیں کہ ان کے مطالبات میں شدت بڑھتی جارہی ہے ۔ تین دن کی سیکرٹری خارجہ بھی کہتی ہے کہ بموں کی آوازوں کے درمیان پاکستان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔یہ لب و لہجہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ آپ کی دوستی کے جواب میں آنے والے دنوں میں بلوچستان ،سندھ، خیبر پی کے اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی آگ مزید بھڑکائیں گے۔امریکہ مکمل طور پر بھارت کی پشت پر ہے۔ افغانستان میں اسے بھرپور کردار دینے اور پاکستان میں پراکسی وار کیلئے بھارتی فوجوں کو افغانستان میں لاکر بٹھایا جارہا ہے۔ نواز شریف مشرق و مغرب سے پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دیں۔ مودی سے صاف طورپر بات کی جائے کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے کوئی تجارت نہیں ہو گی۔ ممبئی حملوں کے حوالہ سے پاکستان کی عدالتیں واضح طور پر قرار دے چکی ہیں کہ پاکستان کا کوئی ادارہ یا یہاں کی کوئی مذہبی جماعت اس میں ملوث نہیں ہے۔مگر افسوس کہ جب بھی ان حملوں کا ذکر آتا ہے تو حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ قوم سوال کرتی ہے کہ وہ بھارت سے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، بلوچستان میں دہشت گردی اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ممبئی حملوں کے مبینہ ملزمان کو فی الفور رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ مسئلہ کشمیر، پانیوں کا رخ موڑنے، بابری مسجد اور مظلوم بھارتی و کشمیری مسلمانوں کا مسئلہ اٹھائیں اورایک بار پھر 1998ء والا جذبہ پیدا کریں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ قو م کی امنگوں کے برعکس پالیسیاں ترتیب دینے سے پاکستان کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 126800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.