اب ہنسی علاج غم بھی نہیں رہی

لیجیئے صاحب ، اب ہنسی علاج غم بھی نہیں رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہنسنا اور دل کھول کر ہنسنا کبھی کبھی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ طب کی دنیا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہنسی کے نام نہاد فوائد سب پر یکساں نہیں ہو سکتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ محققین نے مریضوں میں ہنسی کے فوائد کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ ہنسنے کو ایک بہترین دوا سمجھنے والوں کو اس بات سے حیرانی ہو سکتی ہے کہ ہنسنا سو فیصد فائدہ مند نہیں ہے بلکہ اچانک ہنسی کا دورہ صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس سے دل پھٹ سکتا ہے یا دمے کا دورہ اور بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے۔

برٹش میڈیکل جرنل کے کرسمس کی اشاعت کے خاص ایڈیشن میں ہنسنے کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینے کے حوالے سے ایک سائنسی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔سائنسدانوں کو 1946 سے رواں برس تک مریضوں پر کیے جانے والے ایک تجربے سے پتا چلا ہے کہ اچانک قہقہوں کی وجہ سے نرخرا یا دل پھٹ سکتا ہے جبکہ دوران قہقہ تیزی سے سانس لینے سے دمے کا دورہ پڑ سکتا ہے اس کے علاوہ دیگر نقصانات میں ہرنیا، درد شقیقہ کا بڑھنا یا جبڑے کی ہڈی بھی اتر سکتی ہے۔تاہم برمنگھم اور آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ درجنوں تحقیقی مطالعوں میں ماہرین کی جانب سے ہنسی کو ایک اچھی دوا کے طور پر تجویز کیا گیا ہے جس سیقلبی اور نفسیاتی تناؤ کی کیفیت میں آرام آتا ہے۔ ہنستے رہنے سے بلڈ پریشر کم رہتا ہے اور دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔مسخروں کے ہمراہ کیے جانے والے اس تجربے سے ثابت ہوا کہ مسخروں کی وجہ سے مریضوں کے پھپھڑوں کے افعال میں بہتری آئی اسی طرح دن بھر کی حقیقی ہنسی 200 کیلوریز جلانے کے کام آئی اسی طرح ذیا بیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر بھی کم ہوئی۔انھوں نے مزید کہا کہ اچانک سے ہنستے رہنا اور بے قابو قہقہوں کے باعث پیٹ پر دباؤ پیدا ہوتا ہے جس سے آنتوں کی نقل وحرکت بڑھ سکتی ہے۔محققین نے کہا کہ ان کا جائزہ اس نظریہ کو چیلنج کرتا ہے کہ ہنسنا ایک مکمل طور پر فائدہ مند نسخہ ہے تاہم کسی بھی شکل کے مزاح کا فائدہ نقصان سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہنسنا دل کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی ہنسی مذاق نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے نتیجے میں کہا کہ ’’ہنسنا خالصتاً فائدہ مند نہیں ہے لیکن ہنسی کے فوائد عام طور پر فرض کر لیے جاتے ہیں جن کا حقیقی طور پر مظاہرہ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے نقصانات فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اگرچہ تحقیق کے نتیجے میں ہنسنے کے فوائد اور نقصانات کی درجہ بندی پیش کی گئی ہے پھر بھی کچھ لوگ اس کے فوائد کو نظر انداز کرنے کی غلطی کر سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہنسی کے نقصانات کو مسترد کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن بہت سے لوگ تو کہتے ہیں کہ ذہنی پریشانی یا دباؤ ہو تو شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر بھرپور طریقے سے مسکرائیں یہ فوری ریلیف کا بہترین نسخہ ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی تناؤ کے شکار افراد کو باقاعدہ ورزش، چہل قدمی، تیراکی، سائیکلنگ اور دیگر جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہئے۔یہ کہاوت تو آپ نے اکثر سنی ہوگی کہ ہنسی علاج غم ہے۔ اب جدید سائنسی تحقیق سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ خوش رہنے اور زیادہ ہنسنے سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہنستا ہوا چہرہ نہ صرف دیکھنے والوں کو اچھا لگتا ہے بلکہ ہنسی آپ کو کئی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔امریکی ریاست ورجینیا کے شہر رچمنڈ میں ایک ایسا کلب موجود ہے جس میں داخل ہونے والا اپنی ہنسی قابو میں نہیں رکھ سکتا اور قہقے لگا کر ہنسنے لگتا ہے کیونکہ اس کلب میں ممبر شپ کی شرط ہنسنا اور قہقہے لگانا ہے۔اس کلب میں ہنسی کو سٹریس تھراپی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سے افراد اس کلب کے ممبر ہیں جو وہاں پر دل کھول کر ہنستے ہیں اورہنسی کے ذریعے اپنے ذہنی اور دماغی تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہنسی جہاں غم کا علاج سمجھی جا تی ہے وہیں یہ بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔سائنسدانو ں کی نئی تحقیق کے مطا بق انسانی جسم میں کورٹی سول اور ایپین فرائن ہارمون ذہنی کھچاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ ان کا لیول صرف ایک قہقے سے گر جاتا ہے اور انسان اپنے جسم میں ایک نئی طاقت محسوس کرتا ہے جو اسے پریشانیوں سے نکلنے اور اچھی اور بھر پور زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارے گاؤں دیہاتوں میں بھانڈوں کی جگتیں ہوتی ہیں۔ جو دلہا دلہن اور ان کے بھائی بندوں سے لے کر کسی کو بھی نہیں چھوڑتے۔ بھانڈ ایک ایک کو چن چن کر جگت لگاتے رہے اور سب ہنستے رہتے ہیں۔اب بھی پنجاب کے کئی دیہات میں بھانڈوں اور میراثی ایک ادارہ کی طرح کام کرتے ہیں، ان کے ذمہ ایک کام ہے اور وہ وہی کرتے ہے۔ وہی ان کی روزی روٹی ہے۔ صوبہ سرحد میں اگر شادی بیاہ میں کوئی ہنسنے ہنسانے والا آ بھی جاتا ہے تو وہ ادھر ادھر کا مذاق تو کرتا ہے محفل میں بیٹھے خانوں پر کوئی جگت نہیں لگاتا۔کیا ہنسنا اتنی بری چیز ہے۔ کیا وہ خود پر ہنس بھی نہیں سکتے۔ اگر خود پر ہنسیں گے نہیں یا ہنسی برداشت نہیں کریں گے تو اپنی گھٹن کیسے کم ہو گی۔کہتے ہیں کہ قہقہہ دو انسانوں کے درمیان سب سے کم فاصلہ ہوتا ہے۔ اگر ایک دوسرے پر اور ان کے ساتھ، ہنسیں گے نہیں تو فاصلہ کیسے کم ہو گا۔ اور اگر فاصلہ نہیں کم ہو گا تو قربتیں کیسے بڑھیں گی۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر ہنسنے کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے تو کریڈٹ پر ہنس لیں۔ اس کی بات مان لیں، یقین کیجیئے کچھ نقصان نہیں بلکہ الٹا افاقہ ہو گا۔ تنے رہنے سے دماغی مسائل ہی بڑھتے ہیں۔ میری بات پر یقین نہیں تو ان کی طرف دیکھیئے جو تنے رہتے ہیں۔کہا خوب کہا کسی نے کہ ’وہ میرے خواب پر ہنستی رہتی ہے اور میں اس کی ہنسی کے خواب دیکھتا رہتا ہوں‘سال انیس سو پچانوے میں انڈیا کے ایک ڈاکٹر مدن کتاریا نے ہنسی کا عالمی کلب قائم کیا تھا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ہنسنے سے انسانی صحت کا دفاعی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ آج انڈیا بھر میں اس کے سینکڑوں ارکان ہیں۔ ویتنام کے لوگوں نے لافٹر یوگا کو معمول کا حصہ بنا لیا ہے۔ہنوئی میں شہری صبح سویرے پارک کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ قہقے لگا کر یوگا کی مشق کرتے ہیں۔یوگا میں نوجوانوں کے ساتھ معمر افراد بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
 

image


آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی ذہن ایک مقناطیس (Magnet )کیطرح سے کام کرتا ہے اور ہر وہ شئے اپنی طرف کھینچتا ہے جس کے بارے میں انسان سوچ رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ خوشی کے مواقع پر انسان کو ہر طرف خوشی نظر آتی ہے حتی کہ شور بھی موسیقی کی طرح معلوم ہوتا ہے ،محبت کے عالم میں زندگی کے معاملات انتہائی خوبصورت اور رنگین نظر آتے ہیں جبکہ غم و پریشانی کے عالم میں دنیا بھر میں کرب اور تکلیف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ در اصل اسی قانون کے مطابق ہے کہ انسانی ذہن جس سوچ و فکر میں مگن ہے وہ اپنے اردگرد اسی طرح کے حالات و واقعات اکٹھا کرتا جارہا ہے ۔انگریزی ادب کے مشہو ر ادیب سیموئل جانسن نے اپنی مشہور انگریزی ڈکشنری (1755)کا انتساب لارڈ چیسٹر فیلڈ کے نام کیا ،مگر Chesterfieldنے کوئی ایک لفظ بھی Samuel Johnson سے شکریہ کا نہیں کہا۔ اس پر شکایتاً جانسن نے کہا کہ ’’ وہ مسکرایا تک نہیں۔ جواباً چیسٹر فیلڈ کا کہنا تھا کہ ہنسنا جذبات کی گراوٹ ظاہر کرتا ہے۔وہ مسکراہٹ اور قہقہہ لگانے یا زور سے ہنسنے میں فرق کرتا ہے اور زور سے ہنسنا اس کے نزدیک تہذیب کے خلاف ہے، لیکن عصر حاضر میں نفسیات دانوں نے قہقہہ لگانے یا زور زور سے ہنسنے کو جذبات کے اظہار اور اندر کی گھٹن کے اخراج کے لئے ضروری قرار دیا ہے، اسی لئے موجود زمانے میں ایسے بہت سے کلب یاجماعتیں ہیں جہاں لوگ ایک جگہ جمع ہو کر زور زور سے ہنستے ہیں، جس سے ان کی طبیعت ہلکی ہو جاتی ہے۔ ہنسنے اور مسکرانے کے حوالے سے جو روایات ہیں ،وہ بڑی اہم ہیں کہ کسی شخص کی کمزوری پرنہیں ہنسنا چاہیے۔ بے ہودہ مذاق پر ہنسنا بھی اچھی روایت نہیں رہی۔ کسی کے انتقال پر یا عبادت گاہ میں بے جا ہنسنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود ہنسنا مسکرانا انسان کی بنیادی ضرورت رہا ہے۔ اسلام میں تو مسکرانا اور مسکراہٹیں بانٹنا کا رِخیر ہے۔ مسکراہٹ کے بہترین نمونے ہمیں یونان کے مجسموں میں ملتے ہیں ،جن میں عورتیں اور مرد مسکراتے نظر آتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ کبھی غمگین ہے ،کبھی شرارتی۔مسکراہٹ کی وجہ سے ہی مونا لیزا کی تصویر مشہور ہو گئی۔

مسکراہٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ سترہویں صدی کے انگلستان میں عورتیں ایسامالک یا خاوند چنتی تھیں ،جس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔مسکراتا ہو چہرا بلاشبہ دلکش ہوتا ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ مسکراہٹ سے شخصیت میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔ مسکراہٹ کی اہمیت کے پیش نظر ہی انگس ٹرومبل نے اس موضوع پر…… اے بریف ہسٹری آف سمائل کے عنوان سے لائق مطالعہ کتاب لکھ دی تھی۔ مصنف کا خیال ہے کہ جب بھی کوئی شخص مسکراتا ہے تو اس کے ذریعے نہ صرف اس کے جذبات کی عکاسی چہرے سے ہوتی ہے، بلکہ اسے اپنے جسم کو بھی کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ اس عادت اور طور طریق کو شائستگی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ انگس ٹرومبل کا خیال ہے کہ مسکراہٹ چاہے اچانک ہو یا بناوٹی ، شستہ ہویا شہوت سے بھری ہوئی ؟ یہ دماغ میں کسی کیمیائی رد عمل کے طور پر پیدا ہوتی ہے۔ مسکراہٹ کے ذریعے ہم خاموشی سے کوئی نہ کوئی پیغام دوسروں کو دیتے ہیں……مسکراہٹ ایسی زبان ہے، جسے بچے بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں، مسکراہٹ کا نہ کوئی جغرافیہ ہے، نہ مسلک، بلکہ یہ آفاقی لباس ہے، جسے زیب ِتن کر کے کوئی بھی اچھا کہلا سکتا ہے، لیکن اسے بد نصیبی کے سوا کیا کہیے کہ جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا، سرمایہ دارانہ و صنعتی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی انسان بھی مشین اور روبوٹ بننے لگا۔ محنت محبت پر غالب آگئی، پیار کی جگہ بیوپار اور جذبات کی جگہ مہارت نے لے لی،چنانچہ انیسویں صدی میں ادب آداب پر یورپ میں جو کچھ لکھا گیا، اس میں ملازمین کے لئے خاص ہدایات تھیں کہ مالک اور ملازم اور باس اور نوکر کے درمیان فاصلہ ضروری ہے۔ تب یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا ملازموں کے ساتھ مسکرا کر بات کرنی چاہیے؟ اس بارے میں بیورو کر یٹک’نہیں ‘‘ بھی تھی، مگر کچھ کا خیال تھا کہ مسکراکر بات نہ بھی کریں تو آپ کا شکریہ ، مہربانی ضرور کہنا چاہیے۔

مزدوری اور ملازمت کی دلدل نے انسانوں سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔ اسی پس منظر میں 1963ء میں مشہور کمرشل آر ٹسٹ ہاروے بال (Harvey Ball) نے ایک مسکراتا ہوا چہرہ بنا یا جو مقبول عام ہوا، اس نے بناوٹی زندگی گزارنے والوں کو یاد کروایا کہ انسان مسکرا بھی سکتا ہے ، یہ مسکراتی تصویر دنیا بھر میں گڈ چئیر اور گڈ ول کی علامت بن گئی۔ مسکراہٹ کی مقبولیت نے اس کی افادیت کا راز بھی افشا کرنا شروع کر دیا اور ہاروے بال نے ہی سوچا کہ ہمیں ہر سال کم از کم ایک دن مسکراہٹ اور مہر بانی کے لئے وقف کرنا چاہیے۔ آہستہ آہستہ کچھ لوگ اس کے حامی ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر سال اکتوبر کا پہلا جمعہ مسکراہٹوں کا دن ہو گا۔ اسی تصور کے ساتھ پہلا ’’ورلڈ سمائل ڈ ے‘‘ 1999ء میں منایا گیا۔ 2001 میں ہاروے بال انتقال کر گیا تو اس کے چاہنے والوں نے اس کے نام سے ایک فاونڈیشن بنائی ، اب اس فاونڈیشن کے زیرِ اہتمام ہر سال اکتوبر کے پہلے جمعہ کو مسکراہٹ کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔آج کل ہم اتنے مشینی ہو گئے ہیں کہ مسکرانا بھول چکے ہیں۔
 

image

جی ہاں ! مسکراہٹ کا سبق دوسروں کو یاد کروانا اور مسکراہٹیں بانٹنا ایسا کار خیر ہے، جس کا اجر دونوں جہانوں میں ملتا ہے۔اٹلی کے رہائشی اپنی انوکھی مزاح کی حس کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس دفعہ کے میلے میں سیاست دانوں کا طرز زندگی اور سماجی مسائل کو پپٹس کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔ سبزآنکھوں اوردْم کے بغیر کالی بلی کا پپٹ اس میلے کی خصوصی علامت تھی۔ شہر کے سابق میئر نے پریڈ کے دوران ایک ماڈل بلی کی دم کو کاٹا جس کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ معاشی مسائل کو اس طرح کاٹ کر ختم کیا جاسکتا ہے۔ میلے کے شرکا کا کہنا تھا کہ اگر آپ میں مزاح کی حس ہے تو زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے ، مسکرانا اور قہقہے لگانا ہمیں مشکلات اور مسائل سے دور رکھتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میلے کے انعقاد سے ملک میں ٹورازم کو فروغ ملتا ہے۔ واضح رہے کہ اس میلے کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ اداکارہ بشری انصاری ہنسنے ہنسانے کی قائل ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ پاکستانی عوام مشکلات کا شکار ہے انکو تفر یح اور ہنسی مذاق کے مواقعے فراہم کرنا بھی صدقہ جاریہ ہے ۔ بشری انصاری کا کہنا ہے کہ میں نے زیادہ تر کامیڈی رول ادا کئے ہیں جو کہ بہت مشکل ہوتے ہیں، کیونکہ کامیڈی میں لوگوں کو ہنسانا اور ان کو ذہنی تفریح فراہم کرنا مقصد ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مجھے کامیڈی اداکاری کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، مگر میں نے کامیڈی کے علاوہ بھی ایسے سنجیدہ کردار ادا کئے ہیں جنہوں نے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھی لائے مگر مجھے رونے کی بجائے ہنستے ہوئے چہرے اچھے لگتے ہیں۔دوسری جانب ڈاکٹروں نے ہنسی کو درد کا خاتمہ کرنے والی گولی ( پین کلر) سے تشبیہہ دی ہے، ہنسنے کا عمل آپریشن کے زخم کو جلد مندمل کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

مذاق یا مزاح میڈیکل کٹ کا لازمی حصہ ہے، ہنسنے ہنسانے سے مریضوں میں اْمید ، مسرت اور شادمانی کے مثبت جذبات پروان چڑھتے ہیں۔تجربات سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ہنسنے کا عمل انسان کی صحت پر بہت خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہنسنے سے انسان میں بھی زندگی کی نئی روح دوڑ جاتی ہے۔ بیشتر ممالک کے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو باقاعدہ مریضوں سے ہنسی مذاق کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ، یہاں تک کہ آپریشن تھیٹر میں لے جاتے ہوئے مریضوں کو بھی خوش رکھنے اور ہنسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔امریکہ کے بعض اسپتالوں میں 24 گھنٹے کی نشریات پر مشتمل ایسے ٹی وی چینل کھولے گئے ہیں جو صرف اسپتال کی حد تک محدود ہیں اور ان میں مزاحیہ ڈرامے، فلمیں لطائف اور مزاحیہ خاکے گانے اور اس طرح کی دوسری چیزیں دکھائی جاتی ہیں۔ بعض اسپتالوں میں جوکرزکرداروں کو مدعو کیا جاتا ہے جو اپنی حرکات وسکنات سے مریضوں کو ہنساتے ہیں۔ ایسے ٹی وی چینلز کو ہیمور ہیپلس ہیلنگ کا نام دیا گیا ہے۔بعض اسپتالوں میں اس چینل کے علاوہ ہیومرتھراپسٹس کو باقاعدہ ایک شعبہ کی شکل دی گئی ہے جو ہیومر ایسوسی ایشن کے نام سے اسپتال میں مختلف وارڈ میں گھوم پھر کر مریضوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ان لوگوں کے پاس پلاسٹک کی مرغیاں پانی والا پستول اور اسی قسم کی دیگر اشیا ہوتی ہیں جن کو وہ ہنسنے ہنسانے کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ اسپتالوں کے علاوہ گھروں میں بھی ہنسنے کے رجحان کو ترقی دی جارہی ہے۔

بعض دوست اپنا مخصوص گروپ بنالیتے ہیں اور پھر کسی پارک میں جاکردس یا بیس منٹ تک مسلسل ہنستے ہیں ایک عام آدمی کی نظر میں یہ حرکت قدرے عجیب سی بھی ہوسکتی ہے لیکن اس عمل سے گزرنے والے بہرحال ایک فائدہ مند عمل کررہے ہوتے ہیں۔امریکن ایسوسی ایشن فارتھراپیوٹک ہیومر بھی اس ضمن میں کافی کام کررہی ہے۔ ہنسنے ہنسانے اور خوشگوار مذاق کی خصوصیات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بچوں کی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بھی جوکرز کرداروں کی ٹیموں کو داخلے کی اجازت ہے جو وہاں پر داخل بچوں کو اپنی دلچسپ حرکات اور تماشوں سے محفوظ کرتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بچے ایک دن میں 400 مرتبہ جبکہ جو ان افراد 15 مرتبہ ہنستے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بچوں میں بڑوں کی نسبت چھوٹی موٹی بیماریاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ امریکی ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق ہنسنے سے بلڈ پریشر کے مریضوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچتا ہے اور اگر ان کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے تو اس میں کمی ہوجائے گی ، دباؤ میں بھی کمی آئے گی اور اعصاب کو سکون ملے گا ، پٹھوں پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے، سب سے اہم بات یہ کہ انسانی جسم کی قوتِ مدافعت میں اضافہ ہوگا۔ہنسی سے انسانی صحت پر اثر انداز ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں مختلف دوستوں کے دو الگ الگ گروپ بنائے گئے ایک گروپ کو مزاحیہ ویڈیو فلمیں کتابیں اور اسی طرح مزاحیہ گیت سنائے گئے جبکہ دوسرے گروپ کو ان چیزوں سے محروم رکھا گیا نتائج کے مطابق جن طلبہ کو مزاحیہ سامان مہیا کیا گیا تھا ان میں دباؤ کے آثار دیگر طلبہ کی نسبت بہت کم تھے ان کے کولیسٹرول کی سطح بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں بہتر اور متوازن تھی ان تمام دوستوں کا بلڈ پریشر تقریباً یکساں تھا جبکہ دوسرے گروپ میں بعض لڑکوں کا بلڈپریشر ایک دوسرے سے خاصا مختلف تھا۔ ماہرین نے ان طلبہ کی قوت مدافعت کو بھی دوسرے گروپ سے بہتر قرار دیا ان کے چہرے بھی دیگر طلبہ کی نسبت روشن اور تفکرات سے عاری تھے۔ڈاکٹروں کے مطابق سخت قسم کی بیماریوں کے دوران بھی ہنسنے کا عمل مریضوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے مریضوں کے لیے جو آپریشن کے بعد زخم کے مندمل ہونے کا انتظار کررہے ہوں ان پر ہنسی بہت مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ ان کے زخم جلد مندمل ہوجاتے ہیں۔ مریضوں کو ہنسنے ہنسانے کی غرض سے فلم تیار کرنے والے ایک شخص کو امریکن ایسوسی ایشن فارتھراپیوٹک ہیومر نے باقاعدہ ایوارڈ سے نوازا ہے۔

مریضوں کو خوش رکھنے اور انہیں ہنسی مذاق سے محفوظ رکھنے کا رواج ساڑھے چار سو قبل یونانیوں میں بھی موجود تھا قدیم یونانی تاریخ کے مطابق ایسے مریض جنہیں جراحت (آپریشن ) کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا ان کے لیے خاص طور پر ہیلنگ ہاؤسز قائم کیے گئے تھے انہیں آپریشن کے بعد لازمی ان ہاؤسز میں داخل ہونا پڑتا جہاں مسخرے اپنی حرکات و سکنات سے انہیں ہنساتے تھے۔آج ایسے کئی مراکز موجود ہیں جو انہی ہیلنگ ہاؤسز کی جدید شکل ہیں جہاں بیمار افراد کا ہنسی مذاق سے علاج کیا جاتا ہے ، یہاں ڈاکٹرز اور نرسیں باقاعدہ راؤنڈ کرتی ہیں ادویات کھلانے کے علاوہ مریضوں کو ہنسانا ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کی باقاعدہ ڈیوٹی میں شامل ہے اس سے مریضوں پر ادویات استعمال کرنے کے باعث جو دباؤ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اس سے نجات ملتی ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسیں مریضوں سے مختلف انداز میں مذاق کرتے ہیں اسی طرح کھلاڑیوں کو بھی تازہ دم رکھنے کے لیے بعض کو چز نے جوکرز وغیرہ کی مدد لینا شروع کردی ہے تاکہ میدان میں اْترنے سے قبل وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہوکر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ہندوستان کی تاریخ میں ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ مختلف بادشاہوں نے اپنے دربار میں ایسے لوگوں کا انتظام کررکھا تھا جو انہیں مختلف طریقوں سے ہنساتے تھے اور ان مسخروں کو بھاری انعام و اکرام سے بھی نوازا جاتا تھا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ امورِ سلطنت کی انجام دہی بادشاہوں کو ذہنی طور پر تھکادیتی تھی چنانچہ جب وہ مسخروں سے لطائف وغیرہ سنتے تو خود کو پرسکون اور تازہ.دم محسوس کرتے۔ہم آج بھی ملا دوپیازہ اور بیربل کے لطائف پر ہنستے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہنسنے کا عمل ان کا جسمانی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا اور اس سے ان کا اعتماد بڑھتا تھا۔امریکن ایسوسی ایشن فارتھراپیوٹک ہیومر کی ایک نرس کے مطابق ہمارا بیمار مریضوں کو ہنسانا یا ان سے ہنسی مذاق کرنے کا عمل ادویات کا نعم البدل نہیں ہے اور نہ یہ کوئی باقاعدہ علاج ہے ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ دس منٹ کی روزانہ ہنسی آپ کو کسی مرض سے چھٹکارا دلا دے گی تاہم اتنا ضرور ہے کہ مذاق یا مزاح میڈیکل کٹ کا ایک حصہ ہے ۔ہنسی سے مریضوں میں اْمید مسرت شادمانی اور مثبت جذبات پروان چڑھتے ہیں ان میں اپنی بیماریوں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے ان میں مایوسیوں کا خاتمہ ہوتا ہے وہ زندگی سے پیار کرنے لگے ہیں۔ مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ چھوٹے موٹے امراض کو دور کرنے میں ہمارے دفاعی نظام کا بہت عمل دخل ہے میڈیکل کے طلبہ اور عمر رسیدہ افراد کا دباؤ کے باعث دفاعی نظام کمزور پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں جلدی ٹھنڈ لگ سکتی ہے اس کے علاوہ ان میں غصہ چڑچڑاپن عدم تحفظ کا احساس اور دباؤ بڑھ سکتا ہے اور یہ تمام چیزیں دل کے امراض کا سبب بن سکتی ہیں اگر یہ لوگ مزاحیہ فلمیں اور اس قسم کی دیگر ہنسنے ہنسانے والی دیگر سرگرمیوں سے محفوظ ہوں تو ان میں قوت مدافعت بڑھ سکتی ہے اور انہیں کولیسٹرول (زندگی کے لیے ضروری ایک اہم ایڈرنیل کارٹیکل سیٹرائڈم ) کی سطح بھی متوازن رکھنے میں مدد ملے گی اور ایسے ہارمونز جو دباؤ کا باعث بنتے ہیں ان میں بھی کمی آئے گی۔

ایک تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارا ذہن ہمارے دفاعی نظام سے باقاعدہ گفتگو کرتا ہے اسی طرح ہمارے اعصاب دفاعی نظام اور دیگر جسمانی اعضاء ایک کیمیکل کی مدد سے برقی اشاروں کی طرح ذہن تک اپنی بات پہنچاتے ہیں جب ہم ہنستے ہیں تو ہمارے اعصاب دماغ کو خوشگوار اور مسرت بھرے پیغام بھیجتے ہیں جس پر یقیناً دماغ کا جواب بھی خوشی اور مسرت کی صورت میں نکلتا ہے جس سے دفاعی نظام مضبوط ہوتا ہے ۔ یوں دباؤ اور دیگر چھوٹے موٹے امراض قوت مدافعت کے سامنے کمزور پڑجاتے ہیں۔بھارت میں اس وقت 150 سے زائد لافٹر کلب ( ہنسنے کے مراکز) قائم ہیں جبکہ اس کے علاوہ فرانس اور جرمنی وغیرہ میں بھی اس طرز کے مراکز کا رواج بہت بڑھ رہا ہے ، ان مراکز میں باقاعدہ ہنسنے کے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔جس میں شیر کی ہنسی، منہ بند ہنسی، کبوتر کی ہنسی وغیرہ ہنسنے کے عام طریقے ہیں۔ہنسنے کا عمل جسم کے مختلف اعضاکی بہترین ورزش بھی تصور کی جاتی ہے۔ یہ پھیپھڑے دل و دماغ اور دیگر اعصاب کے لیے بہت مفید ثابت ہوتی ہے ، اس سے آپ کی روح کو تازگی ملتی ہے بالخصوص سانس کے امراض کے لیے دس منٹ کی روزانہ ہنسی بہت مفید رہتی ہے اگر کسی پارک یا کھلی فضا میں یہ عمل کیا جائے تو زیادہ موثر ثابت ہوگا، آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ماہرین کی رائے میں ہنسی کے دوران آپ کے دماغ کادیگر پریشانیوں سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے، غیر ضروری سوچیں اور بے معنی تفکرات جو اکثر اوقات آدمی کو گھیر لیتے ہیں ان سے چھٹکارا ملتا ہے۔ بھارت میں لافٹر کلب کی بانی مس کیتریا کے بقول روزانہ صبح بیس منٹ کی ہنسی ایک ایسی چابی ہے جو آپ کے جسم میں خوشگوار اثرات بھر دیتی ہے اور آپ پورا دن چاق و چوبند اور خوش رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں آپ کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا لیکن اس کے عوض جسمانی اور روحانی طور پر آپ کوبہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے ۔ہر وقت خود پر سنجیدگی طاری رکھنا آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا ہنسنے کی بات پر دل کھولکرہنسنیے۔کیلی فورنیا میں سائنسدان باقاعدہ اس بات پر تحقیق کررہے ہیں کہ ہنسی کے ذریعے سر میں موجود رسولی کا کس طرح خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ روزانہ مسکرانا اور مسکراہٹیں بانٹا بھی ایک فن ہے۔ ولیم آرتھر وارڈ نے کہا تھا کہ…… مسکراہٹ مہربانی ، محبت اور انسانیت کی آفاقی زبان ہے۔ آج انسانوں کو اس کی اشد ضرورت ہے ہمیں یہ زبان بھول جانے والوں کو اسے دوبارہ یاد کروانا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386812 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More