“ کیا (پی آئی اے) کی نجکاری سے پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف ایک خوش آئند سفر ہے؟”

ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ حکومت کے تحت چلنے والے کاروباری اداروں کے بے پناہ نقصانات کے باعث ایسے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہو چکی ہے۔ اگر نجکاری کا عمل نہ کیا گیا تو بیمار سرکاری ادارے معیشت کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

پی آئی اے کی نجکاری پر بعض حلقوں کی جانب سے اس پرکہیں بھرپور مخالفت بھی کی جارہی ہے تو کہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سرکار ایسے نقصان زدہ اداروں سے فورا ہاتھ اُٹھائے جو سوائے نقصان کے کچھ بھی فائدہ دے نہیں سکتے جبکہ اکثریت ماہرین معاشیات کا یہی خیال ہے کہ سرکار کے تحت چلنے والے کاروباری اداروں کے بے پناہ نقصانات کے باعث اب ایسے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہو چکی ہے۔ اور اب بھی اگر نجکاری کا عمل نہ کیا گیا تو بیمار سرکاری ادارے معیشت کا مزید بھٹہ بھی بیٹھاسکتے ہیں۔

پاکستان میں پی آئی اے کی بج کاری کا آغاز سابق نگراں دورِ حکومت میں ہی اس پر کام شروع ہوگیا تھا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں سابق نگراں وفاقی وزیر فواد احمد فواد کا کہنا تھا کہ سرکاری ایئر لائن روزانہ 50 کروڑ سے زائد روپے کا خسارہ کر رہی ہے اور جبکہ گزشتہ ایک سال میں اس ایئرلائن کا خسارہ 97.5 ارب روپے سے تجاویز کرگیا تھا۔ اب تک اس کا مجموعی خسارہ (اکتوبر 2023 میں) 713 ارب تک جا پہنچا تھا۔

آئے دن اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں یہ ہی سننے اور دیکھنے کو مل رہا تھا کے پی آئی اے کے مالی حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ اسے اپنے طیارے چلانے کے لیے ایندھن کے پیسے بھی ادا نہیں ہو پا رہے تھے اور کوئی بھی مالیاتی ادارہ اسے قرض فراہم کرنے یا ایندھن قرض پر دینے کو تیار نہیں تھا۔

نئی حکومت کے آنے سے پہلے نگراں وفاقی حکومت نے فروری میں پی آئی اے کی نجکاری کی منظوری دی تھی جس کے نتیجے میں پی آئی اے کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

اس کے تحت پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے نام سے ایک نئی کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور گزشتہ ہفتے اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی نامزد کر دیے گئے ہیں۔ پی آئی اے کے ذمے 825 ارب روپوں کے قرضوں میں سے 650 ارب کے قرضوں کی ادائیگی اب ہولڈنگ کمپنی کے ذمے ہو گی۔

اس عمل کے بعد مورخہ 27 مارچ کو نو تشکیل شدہ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کی پہلی بورڈ میٹنگ کا انعقاد ہوا جس سے کمپنی کے آپریشن کی باضابطہ شروعات کا آغاز کردیا تھا . اپنے پہلے ہی اجلاس کی شروعات میں پی آئی اے کی ہولڈنگ کمپنی میں پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق اسکیم آف ارینجمنٹ کی منظوری بھی دی گئی جس کی منظوری وفاقی کابینہ اور قومی ایئر لائن کا بورڈ پہلے ہی دے چکا ہے۔

پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے ذمے 650 ارب روپوں میں سے 268 ارب روپے ( یہ غور کرنے کی بات ہے ) کے کمرشل قرضے عوامی قرضوں میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح اب یہ قرضے واپس کرنا پی آئی اے کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمے داری بن گئی ہے۔

جبکہ بینکوں سے کیے گئے ایک معاہدے کے تحت حکومت کو یہ قرضے اب 10 سال کی مدت میں واپس کرنے ہیں جن پر شرح سود 12 فی صد ہو گی۔

ڈیل کے تحت اگر حکومت تین سال کے اندر پی آئی اے کی نجکاری کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو کمرشل بینکوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اس معاہدے کو دوبارہ کھولیں اور سود کی شرح مروجہ حکومتی قرضے کی شرح کے برابر مانگیں۔

حالیہ رواں ہفتے میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ نے تاریخ میں پہلی بار 67 ہزار کا بینچ مارک عبور کیا اور اسٹاک مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا خیال یہ ہی ہے کہ اس کی بنیادی وجہ پی آئی اے کی نجکاری کی خبریں گردش میں تھیں۔

اب جبکہ پی آئی اے کے شیئرز کا حجم جو کئی عرصہ سے اپنی پوزیشن گرا رہا تھا اب بڑھ کر تین کروڑ 91 لاکھ سے تجاوز کر گیا ہے جب کہ اس کے فی شیئر کی قیمت مارچ میں 10 روپے 80 پیسے سے بڑھ کر 31 روپے 54 پیسے تک جا پہنچی ہے۔

کچھ معاشی ماہرین کی رائے میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) پی آئی اے اور دیگر حکومتی کاروباری اداروں کی نجکاری کے ذریعے اصلاحات کے نفاذ کے اپنے عزم پر ثابت قدم رہی جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھی جارہی ہے اور اب کئی سرمایہ کاروں کا اعتماد اب اس حکومت پر بڑا ہے مگر لوگ اب بھی غوغاغوں کی کیفیت میں ہے.

دیکھا جائے تو اب اس تیز رفتار سسٹم میں حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، کیونکہ جس طرح پاکستان کے سرکاری اداروں میں وہی 1960 والی دھائی کی سست رفتاری سے کام کیا جائیگا تو آپ دنیا کا کیا آپ اپنے ملک کی لوکل مارکیٹ میں بھی مقابلہ نہیں کرسکتے. اب پی آئی اے کی نجکاری پر کام شروع ہو چکا ہے اور اس میں تیزی سے پیش رفت پر کام جاری ہے۔

لگتا یہ ہی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے نئے پروگرام پر جانے سے قبل نجکاری کا عمل کو پایہ تکمیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ فنڈ سے بہتر سے بہتر ڈیل حاصل کی جا سکے۔

دیر آمد درست آمد اب حکومت کے زہن کے گوشے میں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ معیشت کو ناقابل برداشت نقصان پہنچانے والے خسارے میں جانے والے اداروں کو سرکاری تحویل میں رکھنے کی اب کوئی گنجائش نہیں۔

اس احساس نے ہی اسٹاک مارکیٹ کو بہتر اشارے بھیجے ہیں لیکن اب اس عمل کو جتنی جلد از جلد عملی جامہ پہنانا چاہیے۔

وزارتِ خزانہ کی جانب سے جنوری میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سرکاری کمرشل اداروں نے مالی سال 2021 اور 2022 کے دوران مجموعی طور پر 1395 ارب روپے کا نقصان کیا۔ یہ رقم ملک میں وفاقی حکومت کی جانب سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حجم سے دگنی بتائی جاتی ہے۔

جبکہ پاکستان کے میں نجکاری کے مخالفین کا مؤقف اس سے مختلف ہے۔ خاص طور پر پی آئی اے کی نجکاری کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ادارے کو اس حال تک پہنچانے میں ملازمین سے زیادہ مختلف حکومتی نااہلیوں، بدانتظامی اور ایک ایسے منظم گروہ کا مفاد کارفرما رہا ہے جو منافع بخش اداروں کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ( کہنا تو انکا بھی حق بجانب ہے) مگر اب جس طرح مُلک کی معشیت اور سرکار کے حالت ہیں ان اداروں پر مزید سر کھپائی کرنا کہ یہ ٹھیک ہوجائینگیےتو ایسا ناممکنات میں سے ہے. یہاں کوئی کام ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی قانون پر عمل درآمد کراسکتا ہے . جب سرکاری اداروں میں سیاست کا عمل دخل بڑھ جائے اور ہم جیسے مُلکوں میں وہاں پھر معاملات ٹھیک نہیں بگاڑ کی طرف ہی جاتے ہیں اس سے پہلے یہ مزید بگاڑ کی طرف جایں اور واپسی کا کوئی سفر نہ رہے انکا نجکاری کا فیصلہ ہی صیح ہے.

نجکاری کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کئی سرکاری اداروں میں ڈالا جانے والا مزید پیسہ ضائع ہی ہوا۔ ان سرکاری اداروں کو منافع بخش بننے اور ٹیکس دہندگان کے پیسے بچانے کے لیے انہیں نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کے حوالے کرنا چاہیے تاکہ حکومت کا بجٹ خسارہ کم ہو سکے جو اس بار پھر سات فی صد سے زائد رہنے کی توقع ہے۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.