ماحولیاتی دہشتگردی کی کھلی چھٹی کیوں؟

ماحولیات کے حوالے سے گلوبل وارننگ جاری ہوچکی ہے اور پاکستان(بشمول ریاست جموں کشمیر)اس حوالے سے ان چندایک ممالک مین شامل ہے جو مبدترین ماحولیاتی مسائل کاشکارہے۔ہرسال پاکستان میں ہزاروں افراد ماحول کے مضمراثرات کی بناء پر جانحق ہوجاتے ہیں۔ماحول کے منفی اثرات ہماری زندگی کوگرہن لگاہے ہیں لیکن ستم بالائے ستم ہمیں اس کی کوئی پرواہ تک نہیں ہے۔ماحول میں پانی ہوا،صحت وصفائی اوربہت کچھ شامل ہے تاہم آج ہم صرف ایک پہلوکی طرف توجہ مبذول کراناچاہتے ہیں۔چندروزقبل ہمارے ایک دوست عثمانی صاحب نے پٹہکہ سے فون کرکے بتایاہے کہ تحصیل نصیرآبادمیں چندروزقبل متعددمقامات پر جنگل میں آگ لگائی گئی تھی جس کے دھویں نے پورے علاقے میں طرح طرح کے امراض میں اضافہ کردیاہے اس آلودگی سے باالخصوص معمرافراددمہ،کھانسی سمیت سانس اورجلد کے امراض میں مبتلاء ہوئے ہیں اور بچے اور خواتین کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامناہے۔عثمانی صاحب کی شکائت سوفیصددرست ہے۔پٹہکہ ہی نہیں آزادکشمیربھرمیں بیسوں مقامات پر جنگل کو آگ لگانے کاسلسلہ عرصہ درازسے جاری ہے ۔رواں سیزن کے دوران دارالحکومت مظفرآباد اوردیگراضلاع میں جنگلات کو بے دردی سے قتل کیاجارہاہے اور انتہائی بے رحمی سے جنگلی حیات کو زندہ جلایاجارہاہے۔ ہمارے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہے کہ ہر سال موسم خزاں کے دوران جبکہ محکمہ جنگلات اورمنصوبہ انصرام اراضی کے تحت لاکھوں پودے لگائے جاچکے ہوتے ہیں ،نامعلوم افرادباقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے تحت جنگل میں آگ لگادیتے ہیں اس سے ایک تووہ نومولود پودے جل جاتے ہیں اورپروان نہیں چڑھتے تو دوسری جانب جڑی بوٹیاں ،گھاس اور جنگل کا ایک بڑاحصہ نوتوڑکرنے کرکے قبضہ مافیاکے تسلط میں لایاجاتاہے۔جنگل میں آتشزدگی سے پھیلنے والی فضائی آلودگی سے انسانی آبادی تومتاثرہوتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ جو حشرجنگلی حیات کامقدربنتاہے ،آج ہی رات کو دیکھ لیں کئی مقامات پر جنگل میں شعلے اور دھواں اٹھتاہوانظرآجائے گا۔الامان والحفیظ،چرند،پرند،درندجو کبھی ریاست کاحسن ہوتے تھے،آج یقیناًایسے ہی اقدامات کی بناء پر ناپیدونایاب ہورہے ہیں۔ آزادی کے بعد ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگلات آزادکشمیرکے کل رقبے کا47فیصدسے زائدتھے مگربدقسمتی اور محکمہ جنگلات کی نااہلی وغفلت کے باعث اب محض تقریباً9.5فیصد رہ گئے ہیں۔آزادکشمیرحکومت نے ایسے ہی نقصانات سے بچاؤ اورجنگلات کے فروغ و تحفظ کے لئے عالمی بینک کے تعاون سے ایک منصوبہ شروع کیاتھاجس کو منصوبہ انصرام اراضی کانام دیاگیاتھا۔اس منصوبے کے تحت امیدہورہی ہے کہ جنگلات کو ممکنہ حدتک پروان چڑھاکر ان کاتحفظ کیاجاسکے لیکن ہمیں ایک معلوم ہواہے کہ بعض قوتیں اس منصوبے کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں اور جنگلات کی اس آخری امیدکی کرن کو بھی جنگل مین لگی آگ کی ہی نذرکردیناچاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ہمیں منصوبہ انصرام اراضی کے حوالے سے ایک مکتوب موصول ہواہے جواس کالم کا حصہ بنایاجارہاہے تاکہ عوام الناس اور ارباب اختیارکو باورکرایاجاسکے کہ منصوبہ انصرام اراضی کیاہے اور اس کے مقاصدکیاہیں ۔مکتوب کے مطابق’’ آزاد جموں و کشمیر کی تاریخ تقریباً65سال پر مشتمل ہے۔جبکہ آزاد کشمیر کو سر سبز بنانے اور آزاد کشمیر کے لوگوں بالخصوص خواتین کے مسائل کو کم کرنے والے محکمہ جنگلات کے زیر انتظام انصرام اراضی پروگرام آزاد کشمیر کا عرصہ خدمت 32سال ہے ۔اس پراجیکٹ نے 1982 ء میں آزاد کشمیر کے اس وقت کے 03 اضلاع مظفرآباد،باغ اور پونچھ میں اپنا کام شروع کیا ۔ ہر پانچ یا چار سال بعد عوامی ضرورت اور پراجیکٹ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پراجیکٹ /منصوبہ کی توسیع عمل میں لائی جاتی رہی ۔ اس منصوبہ کی اہمیت سے تو ہر کوئی واقف تھا لیکن اس کے مستقبل کو مکمل طور پر محفوظ کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہو ا ۔ یوں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ منصوبہ کے حجم کو کبھی کم ،کبھی زیادہ کیا جاتا رہا ۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP)کے تعاون سے چلنے والے اس منصوبہ نے عوام میں سب سے پہلے شجرپروری اور شجرکاری کی اہمیت اجاگر کی اور اس طرح منصوبہ 1990-91 ء میں خواتین جو کہ کل آباد ی کا تقریباًہر جگہ نصف ہیں، کو بھی شامل کیا گیا اور شجرکاری کو پرائیویٹ زمینوں پر محفوظ بنانے کے لیے خواتین کا کردار بہتر بنایا گیا ۔ منصوبہ میں خواتین ونگ (سوشل آرگنائرز) کا قیام عمل میں لایا گیا جن کی مد د سے دیہی خواتین کو اکٹھا کیا گیا اور ان کو سب سے پہلے گھروں میں چھوٹی سطح پر جنگلی پودوں کی نرسریز اگانے اور پھر محکمہ کو فروخت کرنے کی ترغیب دی گئی ۔ اس منصوبہ نے جلد ہی عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کر لی ۔ آہستہ آہستہ آزاد کشمیر کے پانچ اضلاع میں تقریباً62 یونین کونسلز میں خواتین کی تنظیم سازی کا عمل مکمل کرتے ہوئے خواتین کو مختلف پیکیجز ،ٹریننگز اور قدرتی ماحول کو محفوظ بناتے ہوئے مختلف طریقوں سے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی ترغیب اس پراجیکٹ کا مطمح نظر رہا ۔ اس پراجیکٹ میں کام کرنے والے ملازمین نے لوگوں کو جنگل سے درخت کاٹ کے لانے کے بجائے گھروں میں ہی بالن اور گھریلو ضرورت کے لیے پرائیویٹ شجرکاری کے زریعے درخت تیار کرنے کا شعور دیا ۔ جس میں بے حد کامیابی کے ساتھ ساتھ جنگل کاٹنے کے عمل میں خاطر خواہ کمی آئی ۔ اور آبادی کا وہ دباؤ جو جنگل کی طرف تھا اور قومی خزانہ کو سالانہ کروڑوں کا نقصان ہوتا تھا ۔ اس پر قابو پانے کے لیے بہترین کردار ادا کیا ۔ یوں اس پراجیکٹ نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے بھی گراں قدر خدمات سر انجام دیں ۔ آنے والے جون 2014 ء میں منصوبہ مربوط انصرام اراضی پروگرام در آزاد کشمیر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ اس طرح 32 سال بعد اس منصوبہ کی گراں قدر خدمات کو صلہ یہ ہو گا کہ اس کے ملازم دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں گے ۔ اور خواتین کی وہ تنظیمیں جو کہ اس وقت اس پروگرام کے زیر انتظام چل رہی ہیں جن کے پاس کروڑوں کی بچت بینکوں میں موجود ہے اپنا وجود برقرار رکھنے میں نا کام ہوں گی ۔ اس کے علاو ہ آزاد کشمیر میں پانچوں اضلاع میں ایسے پہاڑ جو کہ 1990 تک سنگلاخ اور ننگے تھے آج سر سبز ان ملازمین کی وجہ سے ہیں کل تک اپنے حسن کو برقرار رکھنے میں نا کام ہوں گے ۔

حال ہی میں دنیا بھر سیاحت کا عالمی دن اس عزم اور ارادے سے منایا گیا کہ اقوام عالم اپنے قدرتی وسائل اور قدرتی ماحول کی حفاظت اور ان کی بہتری کے لیے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کریں گی، لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ آزاد کشمیر میں ماحول دوست منصوبے /پروگرام کو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے ۔ اور حکام خواب خرگوش میں مبتلا ہیں اس منصوبے کا ایک اہم جز زمیندروں کی پرائیویٹ زمینوں میں اٹ بندی ،وٹ بندی پروٹیکشن والز اور لینڈ سلائیڈ سٹبلائیشن کے زریعے زمینوں کے کٹاؤ کو روکنا اور منگلا ڈیم کی عمر کو بڑھانا بھی تھا ۔ دارالحکومت مظفرآباد کے ارد گرد کے پہاڑ جو کہ 2005ء کے قیامت خیز زلزلہ کے باوجود سر سبز اور شاداب ہیں جن کا منہ بولتا ثبوت اپر رنجاٹہ اور اس کے گردونوح کے پہاڑ ہیں جو کہ منصوبہ مربوط انصرام اراضی پراجیکٹ کی کامیاب پلانٹیشن کی صورت میں موجود ہیں ۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس جنگل کو جو کہ عرصہ 20 سال میں تیار کیا گیا ٹمبر مافیا کہ رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اس طرح یہ اربوں کا جنگل دیکھتے ہی دیکھتے اس منصوبہ کی طرح ختم ہو جائے گا۔ ہم چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کے تہہ دل سے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے اس منصوبہ کی اہمیت اور خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملازمین کی نمائندہ تنظیم کے فورم سے دی گئی درخواست پر فوراًکارروائی کرتے ہوئے اس منصوبہ کا جائزہ لینے اور اس کو نارمل میزانیہ /مستقل کرنے کے لیے سیکرٹری مالیات کو مکتوب لکھا جنہوں نے کمال مہربانی سے سیکرٹری جنگلات کو تبصرے کے لیے مکتوب لکھا ۔جس پر ناظم اعلیٰ جنگلات نے کارروائی کرتے ہوئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس سلسلہ میں ہم وزیر اعظم آزاد کشمیر ، چیف سیکرٹری آزاد کشمیر ،وزیر خزانہ آزاد کشمیر،وزیر جنگلات ،سیکرٹری جنگلات اورسیکرٹری مالیات آزاد کشمیر سے بھر پور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قومی سطح کی اہمیت رکھنے والے پراجیکٹ کے ملازمین کو نارمل میزانیہ پر لاتے ہوئے اس منصوبہ کو آزاد کشمیر میں کام کرنے اور عوام کی خدمت کرنے کے لیے مناسب ماحول اور فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ عوام دوست اور ماحول دوست منصوبہ کے ثمرات سے آنے والی نسلیں بھی مستفید ہوں اور ملازمین کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے ۔ ‘‘

ہم ان سطورکے زریعے ارباب اختیارسے کہیں گے کہ وہ جنگلات میں آتشزدگی کافوری نوٹس لیں اورجنگلات کے تحفظ وبقاء اورمنصوبے کونارمل میزانیہ پر لانے کے لئے بلاتاخیراقدامات اٹھائیں تاکہ ملازمین میں ائی جانے والی بے چینی اور ماحولیاتی دہشتگردی دے عوام کو نجات مل سکے۔
Safeer Raza
About the Author: Safeer Raza Read More Articles by Safeer Raza: 44 Articles with 43244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.