جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ون ڈے میچ میں گرین شرٹس کے
نامور بلے باز ایک مرتبہ پھر دھوکہ دے گئے٬ تاہم نوجوان آل راؤنڈر انور علی
اور بلاول بھٹی مشکل صورتحال میں ٹیم کو سہار دے کر اسکور 218 تک پہنچانے
میں کامیاب رہے-
بلاول بھٹی نے 7 وکٹیں گرنے کے بعد رنز کی رفتار تیز رکھتے ہوئے 2 چھکوں
اور تین چوکوں کی مدد سے 25 گیندوں پر 39 رنز بنائے٬ جبکہ انور علی نے 55
گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 6 چوکے لگا کر 43 رنز کی ناقابل شکست اننگز
کھیلی-
|
|
آل راؤنڈر بلاول بھٹی نے ڈی کوک اور انور علی نے کیلس اور ڈیوڈ ملر جیسے
جارح مزاج بیٹسمینوں کو آؤٹ کر کے پاکستان کرکٹ میں اپنی دھاک بٹھا دی- ان
دونوں آل راؤنڈر نے اپنی صلاحیتوں سے کا لوہا منوا کر عبدالرزاق اور شعیب
ملک جیسے اسٹار کھلاڑیوں کی جگہ خطرے میں ڈال دی ہے-
انور علی کا بین الاقوامی کرکٹ کا سفر انتہائی کٹھن اور دشوار رہا- کئی
مواقع پر گھریلو ذمہ داریوں کے سبب انہیں کرکٹ سے کنارہ کشی کرنے پر غور
کرنا پڑا- تاہم وہ اپنی گھریلوں ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ کیریر کو
جاری رکھنے میں کامیاب رہے-
انور علی اپنے ماضی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوعمری میں میرے
والد صاحب اس دنیا سے کوچ کر گئے- اس کے بعد مجھے گھر کی کفالت کے لیے 8
گھنٹے کی دیہاڑی پر کام کرنا پڑا- یومیہ 200 روپے میں بمشکل گھر والوں کا
گزارا ہوتا تھا- ٹیپ ٹینس کرکٹ کھیلنے کے لیے والدہ سے 50 روپے طلب کرتا
تھا٬ لیکن وہ انکار کر دیا کرتی تھیں-
اس وقت ہم اورنگی کے ایک پسماندہ علاقے میں رہائش پذیر تھے- اسی دوران زون
6 انڈر 19 ٹرائلز میں مجھے 6 گیندیں کرنے کا موقع ملا- میری بالنگ دیکھ کر
مجھے روزانہ پریکٹس کے لیے طلب کیا گیا اور اس طرح مجھے ڈبل شفٹ کام کرنا
پڑا٬ جو میں نے مشکل وقت میں انجام دیا-
|
|
پھر خبر ملی کہ کوچ اعظم خان اور ظفر احمد مجھے 4600 روپے ماہانہ دینے پر
رضامند ہوگئے ہیں٬ جس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا اور اپنی
تمام توجہ کرکٹ پر مرکوز کر دی-
بھارت کے خلاف انڈر 19 ورلڈ کپ 2006 میں پانچ وکٹیں میرے کیریر کا ٹرننگ
پوائنٹ ثابت ہوئیں- اس کے بعد میری کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہا-
انور علی کا کہنا تھا کہ مدثر نذر نے مجھ سے کہا تھا کہ تم مستقبل میں اظہر
محمود اور عبدالرزاق کے جانشین بن سکتے ہو- ان الفاظ نے میرے اندر ایک نیا
جذبہ پیدا کردیا اور ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھا کر پاکستان کی
نمائندگی کا میرا خواب پورا ہوا-
میرے والد مجھے کرکٹ کھیلنے پر چھڑی سے پیٹا کرتے تھے- وہ کہتے تھے یہ کھیل
وقت کا ضیاع ہے- لیکن آج وہ ہوتے تو مجھ پر فخر کرتے-
(روزنامہ امت میں شائع ہونے والے بلال بلوچ کے مضمون
سے اخد کیے گئے پیراگراف) |