توانائی کے منصوبوں میں تاخیر

توانائی کے بحران میں آنے والی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے2006 میں اس وقت کی حکومت کے منصوبہ بندی ڈویژن نے گیس کی بڑھتی ہوئی طلب اور رسد کو متوازن رکھنے کے لئے ایک ارب کیوبک فیٹ ایل این جی کی درآمد کی تجویز دی تھی جو تین سالوں میں بڑھا کر ڈیڑھ ارب کیوبک فیٹ تک بڑھانے کا پروگرام تھا اس وقت ڈالر کی قیمت 56روپے کے برابر تھی ایل این جی کے ذریعے بنائی جانے والی بجلی کی کاسٹ8روپے یونٹ ہونا تھی جس کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے میں استعمال ہونے والے فرنس آئل کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں روپے بچائے جاسکتے تھے لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اس میں حکومتی کوتاہی بھی ہوسکتی ہے لیکن ایک مخصوص لابی نے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے پچھلے سات سالوں میں30ارب ڈالر کا زرمبادلہ فرنس آئل کی درآمد پر لگوا دیا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی بوجھ پڑا اور دباو کی وجہ سے روپے کی قیمت میں کمی ہوتی گئی اور توانائی کا بحران اس شدت تک پہنچ گیا ہے کہ ہماری قومی سلامتی بھی داو پر لگ چکی ہے۔اس منصوبے کو تعطل کا شکار کرکے پاور کمپنیوں،بینکوں اور تیل سپلائی کرنے والوں نے خوب پیسے کمائے جبکہ ہماری حکومتیں گردشی قرضوں کی ادائیگیاں کرتی رہیں بدقسمتی سے اس منصوبے کی تاخیر میں عدالتیں بھی شامل ہیں 2009میں ایل این جی کا ٹینڈر جاری کیا گیا تو یہ معاملہ عدالت میں چیلنج کردیا گیا جو دوسال زیر سماعت رہا اس میں کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹہرایا گیا بلکہ اس معاملے کو مزید شفاف بنانے کا حکم جاری ہوا ان دوسالوں کی تاخیر میں ملکی زر مبادلہ کے ضیاع کے ذمہ دار کون ہیں اس بات کا تعین کون کرے گا سارے کام اگر عدالتوں نے کرنے ہیں تو باقی اداروں کو ختم کردینا چاہیے جب دوبارہ ایل این جی کے ٹینڈر جاری ہوئے تو اسے پھر عدالت میں چیلنج کردیا گیا جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں میں پاکستانی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا یہاں تک کہ ہمارے توانائی کے منصوبوں میں غیر ملکی سر مایہ کار کمپنیاں سرمایہ کاری سے بالکل انکاری ہوگئیں اس سارے معاملے کے بعد حکومت نے تین ملکی و غیرملکی کمپنیوں کو ایل این جی کا درآمدی کوٹہ یکساں طور پر دے دیا جن میں ایک ترک کمپنی گلوبل انرجی،پاکستان گیس پورٹ اور اینگرو شامل تھیں جب دو کمپنیوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری کے معاھدے کر لئے تو سوئی سدرن اور سوئی ناردن نے ترسیل کے لئے کوئی بندوبست نہیں کیا جس پر یہ منصوبہ دوبارہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل کر لیا جاتا تو سی این جی سیکٹر بحران کا شکار نہ ہوتا اور نہ ہی توانائی کا بحران اس حد تک جاتا کہ سی این جی اسیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں اور ہفتے میں چار پانچ دن سی این جی اسیشن بند کرنے پڑتے تو جناب عدالتیں اگر واقعی چاہتی ہیں کہ اس ملک سے توانائی کے بحران کا خاتمہ ہو اور رکا ہوا انڈسٹریز کا پہیہ چل پڑے تو توانائی کے منصوبوں کالا باغ ڈیم ،بھاشا ڈیم ،نیلم جہلم پراجیکٹ ،نندی پور پراجیکٹ،ایل این جی کی درآمد میں تاخیر کرنے والوں کی نشاندھی کرکے انہیں عبرت کا نشان بنادے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ ہوکرسکے ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
Ch Abdul Razzaq
About the Author: Ch Abdul Razzaq Read More Articles by Ch Abdul Razzaq: 27 Articles with 19537 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.