عامل کامِل اَبُو شامِل قسط ۔۱۹ (خَلِش )

گُذشتہ(۱۸)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔
یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ حالات سے تنگ آکر کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت دِلی لگاؤ پیدا ہُوجاتا ہے۔جُو دھیرے دھیرے مُحبت میں تبدئل ہُوجاتا ہے۔

حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار ایک مَجذوب(بابا صابر) اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔ تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔
افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔ لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ افلاطُوں جسکی کُنیت ابو شامل ہے۔ اُسے بتاتا ہے ۔ کہ وُہ ایک جِن زادہ ہے۔ اُور ایک عامِل اُسکے پیچھے پڑا ہے کیونکہ وُہ کافی طاقتور جن ہے۔ افلاطُون پیشکش کرتا ہے کہ اگر کامل علی اُس عامل سے بچانے میں اِسکی مدد کرے تُو،، افلاطُون دُوست بن کر دُنیا کی ہر شئے کو اسکے قدموں میں لاکر ڈال سکتا ہے۔ کامل علی افلاطون کی پیشکش قبول کرلیتا ہے۔ دُونوں جہلم جلباب سے مُلاقات کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ جلباب سے مُلاقات کے بعد ابو شامل کراچی پُہنچ کر کامل علی کو تنہا نرگس کے فیلٹ تک پُہنچا کر غائب ہُوجاتا ہے۔ نرگس کامل علی کو سمجھاتی ہے کہ وُہ واپس لُوٹ جائے۔ کیونکہ وُہ اپنی سابقہ زندگی کو بُھلانے کی کُوشش کررہی ہے

پچھلی قسط سے یاداشت
یار پہلے تُو میں معذرت چاہتا ہُوں کہ ،، میں بنا بتائے نرگس کے گھر میں داخل ہُوگیا تھا۔ ابو شامل نے کامل کے سامنے ظاہر ہوکر شرمندگی کا اِظہار کرتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔۔۔ دراصل میں خُوش ہی اسقدر ذیادہ تھا۔ کہ مجھے اِس بات کا بالکل بھی خیال نہیں رَہا۔۔۔ اُور جہاں تک نرگس کی بے رُخی کی بات ہے۔۔۔۔ تو میرے یار۔۔۔ انسان ہُوں یا جِن سبھی کے جذبات ہُوتے ہیں۔ اُور مجھے تُو پہلے ہی نرگس سے اِس رِی ایکشن کی توقع تھی۔۔۔ لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے ۔ کہ بازی تُمہارے ہاتھوں سے بالکل نِکل چُکی ہے۔ ۔۔ بلکہ جسطرح پانی کی ایک ایک بُوند گرنے سے پہاڑ میں رستہ بن جاتا ہے۔۔۔ بس ہم بھی اِسی طرح دھیرے دھیرے نرگس کے دِل میں راستہ بنا لیں گے۔ اب چاہے پہلے دروازہ کُھلے یا کھڑکی ۔۔۔۔ہَوا آنے جانے کا رستہ تُو بن ہی جائے گا۔۔۔ ابو شامل نے مُسکرا کراپنے مخصوص انداز میں کامل کو آنکھ مارتے ہُوئے کہا۔۔۔۔

یار تُمہاری باتوں سے مجھے بُہت حُوصلہ مِلا ہے۔ وگرنہ نرگس نے تُو میری تمام خوشیوں کے چراغوں کو ہی پُھونک ڈالا تھا۔۔۔ ویسے تُم خُوش کس بات پر تھے۔۔۔؟ یہ تُم نے ابھی تک نہیں بتایا۔۔۔ کامل علی نے جوابی آنکھ مارتے ہوئے مُسکرانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔ بتا تا ہُوں یار۔۔۔ آج تو میں جہلم فتح کرکے آیا ہُوں۔لیکن پہلے گھر تُو پُہنچ جائیں۔ پھر ساری کہانی سُناتا ہُوں۔ ابو شامل نے فاتحانہ انداز میں اپنے ہاتھ بُلند کرتے ہُوئے کہا۔

اَب مَزید پڑھیئے۔۔۔
ابو شامل اپنی حرکت سے باز نہیں آیا تھا۔ لیکن کامل علی بھی گُذشتہ تجربات کی رُوشنی میں ابو شامل کے جھٹکے دیئے جانے کیلئے ذہنی طُور پر تیار تھا۔ اِسلئے جُونہی ابو شامل نے کامل کو انتقالِ مُقام کیلئے جھٹکا دِیا۔ کامل علی فوراً ہی اِس جھٹکے سے سنبھل گیا۔ لیکن افلاطُون اپنا کام دِکھا چُکا تھا۔ وُہ دُونوں اپنے گھر پُہنچ چُکے تھے۔ کامل علی نے ایک مرتبہ پھر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہُوئے ابو شامل سے استدعا کی۔۔۔ بھائی میرے مقام تبدیل کرنے کا کوئی آسان طریقہ ایجاد کرلے۔۔۔ ورنہ کِسی دِن یہ نہ ہُو کہ مقام تو بدل جائے اُور میری کمر ٹُوٹ جائے۔۔۔۔

ابو شامل نے مسکرا کر کامل علی کی طرف دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔ جِس دِن میرِ کاروان آپ ہُونگے۔۔۔ وہی دِن اِس تکلیف کا آخری دِن ثابت ہُوگا جنابِ عالی۔۔۔۔۔

پتہ نہیں یار وُہ دِن کب آئے گا۔۔۔ کامل علی نے اُداسی سے مُنہ بسورتے ہُوئے کہا۔۔۔ مجھے چُھوڑو اُور اپنی سُناؤ ۔ اُور مجھے بتاؤ کہ،، جہلم میں ایسا کونسا معاملہ پیش آگیا۔ جسکی وجہ سے جناب کے چہرے سے خُوشی کے آثار ہی نہیں جارہے۔۔۔۔؟

بس یار کیا بتاؤں۔۔۔ بس اتنا سمجھ لُو کہ اب جلباب کی پریشانی کے دِن ختم ہُونے کو ہیں۔۔۔ ابو شامل نے چہکتے ہُوئے کہا۔۔۔

مگر ہُوا کیا ذرا تفصیل سے بتاؤ نا۔ کامل علی نے بھرپُوراشتیاق سے ابو شامل کو دیکھتے ہُوئے بستر سنبھال لیا۔

بس یار پہلے تو زمان سے مُلاقات کرلی۔ اُور اُس سے کچھ ڈاکومنٹس وصول کرلئے۔ اُس بیچارے کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ کہ میں واقعی اُسے قرض دِلوانے میں دلچسپی رکھتا ہُوں۔ اُور صِرف اُس سے مُلاقات کیلئے جہلم چلا آیا ہُوں۔ اُسے ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ میں اُسکا دِل خوش کرنے کیلئے قرض کی کہانی بنا رَہا ہُوں۔ حالانکہ اُس نے یہ بات اپنی زُبان سے نہیں کہی تھی۔ وُہ تو میں نے اُسکا ذہن پڑھ لیا۔ تو مجھے معلوم ہُوا کہ اُس بیچارے کے ذہن میں کیسی کھچڑی پک رہی ہے۔ اب پرسوں جب رقم اُسکے ہاتھوں میں آئے گی تُو نجانے بیچارے کا خُوشی سے کیا حال ہُوگا۔

زمان سے فارغ ہُونے کے بعد میں راشد صاحب کی مِزاج پُرسی کیلئے چلا گیا تھا۔۔۔ وُہ موصوف اپنی نئی نویلی بیگم صاحبہ کا پاؤں دبا رہے تھے۔ نجانے اُس کمبخت طوائف زادی نے اُسے کیا گُھول کر پِلادیا ہے۔ جو وُہ اُسکی اسقدر سیوا کررہا تھا۔ وُہ کوئی شریف عورت تو ہے نہیں جو گھر میں ٹِک کر رہے۔ اُس نے راشد سے شادی صرف اِس شرط پر کی تھی۔ کہ وُہ اُسے کسی بھی معاملے میں رُوکے ٹوکے گا نہیں۔ اسطرح باہر اُسکا بزنس بھی چلتا رہے گا ۔ اُور شادی شُدہ ہُونے کی وجہ سے اُس پر مُحلہ والوں کو شک بھی نہیں گُزرے گا۔ کمبخت کا نام تو ملیخہ ہے۔ لیکن ہے سراپا گندگی کی پُوٹ۔ ویسے یار ایک بات ہے ۔ اتنی حسین و نازک ہُونے کے باوجودکمبخت اپنے چہرے پر ایسی معصومیت طاری رکھتی ہے۔ جِیسے کوئی عابدہ زاہدہ ہُو۔ جِسے دیکھ کر بڑے سے بڑا نظر شناس بھی دُھوکہ کھا جائے۔

لیکن میں نے بھی کمبخت کو آج ایسا پھنسایا ہے کہ،، کئی برس تک جیل کی ہُوا کھاتی رہے گی۔۔۔ آج رات اُسکا چار پانچ امیر زادوں کیساتھ پروگرام طے تھا۔ میں نے بس اتنا کیا کہ جس گھر میں ملیحہ آئی ہُوئی تھی۔ اُس گھر میں ہُونے والی تمام گُفتگو کو اتنے والیوم سے باہر پیش کردیا۔ کہ تمام مُحلہ میں اُنکی شرمناک آوازیں صاف سُنائی دے رہی تھیں۔۔۔ مُحلہ والے یہی سمجھے کہ شائد اندر غلطی سے کوئی مائیک کُھلا رِہ گیا ہے۔ جسکی وجہ سے اتنی گھناؤنی آوازیں مکان کے باہر بُلند ہُورہی ہیں۔۔۔۔۔ بس پھر کیا تھا محلے کے چند من چلے نوجوان اُس مکان میں داخل ہُوگئے۔ اندر رقصِ ابلیس جاری تھا۔پہلے تو محلہ والوں نے اُن سبھی پر خُوب ہاتھ صاف کئے اُور اُسکے بعد اُسی حالت میں پُولیس کو طلب کرلیا گیا۔۔۔ اُنہی نوجوانوں میں علاقے کی ایک سیاسی شخصیت کے حریف کا بیٹا بھی شامل تھا۔۔۔ اُنہوں نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہُوئے اُن سب کی پکی ایف آئی آر درج کروادی۔

دوسری طرف میں خیرخواہ بن کر راشد کے پاس پُہنچ گیا۔ اُور اُسے میں نے تمام حقیت سُنا کر ڈراتے ہُوئے بتایا کہ عنقریب پُولیس ملیحہ کے مکان پر چھاپا مارنے والی ہے۔ کیونکہ پُولیس کے خیال میں اِس تمام دھندے میں ملیحہ کا شوھر بھی ملوث ہے۔۔۔ لیکن اُس کمبخت پر ملیحہ کا عشق بُھوت کی طرح سوار تھا۔ اسلئے اُس نے بجائے وہاں سے خُود بھاگنے کے مجھے ہی لعن طعن کرنا شروع کردِیا۔

تو کیا تُمہاری تمام محنت رائیگاں چلی گئی۔ کامل علی نے افسوس کرتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔

نہیں یار اتنی کچی گُولیاں میں نے بھی نہیں کھیلیں۔۔ ابو شامل حسبِ سابق اپنی داہنی آنکھ دباتے ہُوئے مُسکرایا۔ میں تھوڑی دیر بعد ایک ایس ایچ اُو کے رُوپ میں اُسکے گھر کےسامنے پُہنچ گیا۔ ۔۔ پُولیس سائرن کی آواز سے سُوتے ہُوئے لوگ بھی جاگ اُٹھے تھے۔۔۔۔ ابوشامِل نے قہقہہ مارتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔۔۔ شُور شرابے کی آواز سُن کر راشد نے بالکونی سے جب مجھے دیکھا تو انجان بن کر وہاں چلا آیا۔ میں نے جب بڑے رعب سے وہاں موجود چند لڑکوں کو مُخاطب کرتے ہُوئے چلا کر پُوچھا کہ یہاں کوئی دھندہ کرنے والی عورت رہتی ہے۔۔۔ تو سب سے پہلے وہاں سے کھسکنے والا وہی راشد ہی تھا۔ ۔۔۔

راشد صاحب وہاں سے سیدھے اپنے گھر پُہنچ چُکے ہیں۔ اُور مجھے قوی اُمید ہے کہ وُہ اب بندے کا پتر بن جائے گا۔۔۔ اُور اگر اَب بھی وُہ نہ سُدھرا تو سمجھ لو پھر اُسکی خیر نہیں ہے۔۔۔ یار ہمارے ہُوتے ہُوئے بھی اگر ہماری بِہن دکھوں بھری زندگی گُزارے تو ہم جیسے بھائیوں کی زندگی پر لعنت ہے۔ ابو شامل گفتگو کرتے ہُوئے جذباتی ہُوگیا تھا۔

چل یار یہ تُو بڑا اچھا کام ہُوگیا۔ بس دُعا کیساتھ تھوڑی کوشش کر کہ نرگس بھی مان جائے کیونکہ میری زندگی اُس کے بِنا ادھوری ہے۔ حالانکہ اب وُہ شادی شُدہ زندگی گُزار رہی ہے۔لیکن میں جانتا ہُوں کہ وُہ خوش نہیں ہے وَہاں۔۔۔۔ کامل علی جو ابھی کُچھ ہی لمحے قبل ابو شامل کی گفتگو سُن کر مُسکرا رَہا تھا۔ نرگس کا تذکرہ کرتے ہُوئے ایک مرتبہ پھر اُداس ہُوگیا۔

یار ایک تو مجھے تیری سمجھ نہیں آتی۔۔۔ تیری تو بس وُہ مِثال ہے کہ،، پَل میں تُولہ اُور پل میں ماشہ۔۔۔ کبھی پارے کی طرح چڑھتا ہے ۔ اُور تھوڑی ہی دیر میں جھاگ کی مانند بیٹھ جاتا ہے۔۔۔ حالانکہ میں نے پہلے ہی سمجھایا تھا کہ اگر اُسکی محبت کو پانا ہے ۔۔۔ تو آنچ کو بُہت ہُولا رکھنا پڑے گا۔ ذرا سی تیزی سے ساری ہنڈیا کا ستیا ناس ہُوجائے گا۔۔۔ وُہ کوئی مصری کی ڈلی نہیں ہے۔ جو مِنٹوں میں حل ہُوجائے گی۔ ایک شادی شُدہ بال بچے والی سیانی مائی ہے۔۔۔ اُسے پھر سے بسانے میں کُچھ وقت تُو لگے گا۔۔۔ اُور میں یہ کام بھی صرف اسلئے کرونگا کہ وُہ اُس جگہ پر واقعی خوش نہیں ہے۔ اگر اُسکا شوھر اُسکے ساتھ ذرا سا بھی مُخلص ہُوتا۔ تو میں کسی کے بسے بسائے گھر کو کبھی بھی پھر سے اُجاڑنے کی بات تُو کجا سُوچنے کی بھی حماقت نہیں کرتا۔ کیونکہ یار جب عورت کا گھر ایک مرتبہ بِگڑ جاتا ہے نا۔ تب وُہ پھر کبھی نہیں بستا۔۔۔ چاہے وُہ جھونپڑی سے محل میں منتقل ہُوجائے وُہ ایک مرتبہ بِکھر کر پھر نہیں سِمٹتی۔۔۔ ابو شامل نے فلسفیانہ انداز میں کامل کو سمجھایا۔

یار مجھے آج سمجھ آگئی ہے۔ کہ جِس نے بھی تیرا نام افلاطُون رکھا ہُوگا۔۔۔۔ بُہت سُوچ سمجھ کر ہی رکھا ہُوگا۔۔۔ اُور وُہ بڑا نظر شناس بھی ہُوگا جو پُوت کے پاؤں پالنے میں دیکھ کر ہی سمجھ گیا ہُوگا۔ کہ ہمارے گھر کیا شئے پیدا ہُوئی ہے۔ کامل نے مذاق کرتے ہُوئے چادر اپنے سینے کی طرف کھینچ لی۔۔۔

اُوئے سُو کدھر رہا ہے۔۔۔ میں تیرے لئے ایسا زبردست تحفہ لایا ہُوں کہ دیکھتے ہی تیری آنکھوں سے نیند کوسوں دُور چلی جائے گا۔۔۔ ابو شامل نے اسکے بدن سے چادر کو جُدا کرتے ہُوئے کہا۔۔۔

کہاں ہے تُحفہ۔۔۔؟ میں نے تُو تمہارے ہاتھ میں کوئی تُحفہ نہیں دیکھا۔۔۔ کامل علی نے حیرت سے کمرے میں چاروں طرف نِگاہ دوڑاتے ہُوئے چادر کو دُوبارہ کھیچنے کی ناکام کوشش کی۔

بس یار پانچ منٹ اُور انتظار کرلے تُحفہ خُود سج دھج کر تیرے بستر تک آجائے گا۔۔۔ ابو شامل نے معنی خیز انداز میں مُسکراتے ہُوئے جواب دیا۔ ابو شامل کا جُملہ مکمل بھی نہیں ہُوپایا تھا۔کہ کسی نے نہایت دھیمے لہجے میں کامل کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ لکڑی پر پڑنے والی تھاپ کیساتھ چوڑیوں کی جھنکار یہ بتانے کیلئے کافی تھی۔ کہ دروازے پرکوئی آیا نہیں تھا۔۔۔ بلکہ کوئی آئی ہے۔۔۔

ابو شامل نے لپک کر دروازہ کھول دِیا۔۔۔ کامل نے آنے والی کو دیکھا تو بستر سے اچھل پڑا۔۔۔ کیونکہ آنے والی کوئی اُور نہیں تھی ۔ بلکہ نرگس اُسکے سامنے دُلہن کے رُوپ میں کھڑی مُسکرا رہی تھی۔۔۔۔

(جاری ہے)۔

آپ تمام محبت کرنے والوں کی خُواہش کے پیشِ نظر میں نے اپنے بلاگ پر پرائیویٹ گفتگو کرنے کیلئے چیٹ باکس کا انتظام کردیا ہے۔ آجکل عشاء کی نماز سے تادیر میں وہاں دستیاب ہُوں۔ مزید ٹائمنگ کا اعلان بھی جلد از جلد بلاگ پر کردیا جائے گا ۔ آپ میرے بلاگ پر تشریف لا کر مجھ سے براہِ راست رابطہ فرماسکتے ہیں۔
Plz visit my blog on blogspot.com
https://www.Ishratiqbalwarsi.blogspot.com
گفتگو کے ساتھ ساتھ آپ یہاں سے اُوراد وُ وظائف بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بُہت جلد قانونی مشورے بھی بالکل مفت حاصل کرسکیں گے۔

کچھ احباب میری تحریروں کیساتھ بُہت بُرا رَویہ اپنائے ہُوئے ہیں کہ میرے افسانوں کا نام بدل بدل کر اپنے نام سے مختلف فورمز پر پیش کررہے ہیں اُنکی خدمت میں عرض ہے کہ آپ اتنی مشقت فرمانے کے بجائے اُن تحریروں کی مجھ سے اجازت لے کر بھی اُنہیں وہاں پُوسٹ کرسکتے ہیں۔ میں بِلا جھجک آپ کو اِنہیں پوسٹ کرنے کی اجازت دے دُوں گا۔ تب اسطرح آپ کو سرقہ بازی کی نوبت ہی پیش نہیں آئے گی۔ اُور آپ اپنے ضمیر کے قیدی بھی نہیں بنیں گے۔ آپ ایک مرتبہ مجھے کہہ کر تُو دیکھیں۔۔۔

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1059428 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More