مکرم درزی

مکرم درزی ایک دور دراز گاﺅں میں رہتا تھا ۔وہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا اور سلائی کی تربیت اس نے شہر کے مشاق درزی ماسٹر نور سے حاصل کی تھی ۔مکرم درزی ایک با ضمیر ،بے ضرر ،با حوصلہ اور با وقار انسان تھا ۔اس کا گاﺅں جو دریائے چناب کے کنارے پر واقع تھا ،ایک نزدیک قصبے کھورواہ سے تین میل کے فاصلے پر تھا ۔اس نے گاﺅں کی لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کا ماہر بنا دیااور یہ بچیاںنہ صرف اپنے لباس کی سلائی کے قابل تھیں بل کہ وہ دوسری عورتوں اور بچوں کا لباس سی کر اچھی خاصی رقم جمع کر لیتیں اور اس طرح گھر کی آمدنی میں اضافہ کر کے ماں باپ کا ہاٹھ بٹاتیں ۔مکر م درزی روزانہ صبح کی نماز با جماعت پڑھ کر اپنی سلائی مشین اپنے سر پر اٹھا کر نواحی قصبے کھوروا کا رخ کرتا اور بازار میں ایک کلاتھ مر چنٹ کی بڑی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر سارا دن کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتا ۔ اس کے پاس ایک ہی سلائی مشین تھی اور دوسری سلائی مشین کی خریداری کی اس میں سکت ہی نہ تھی ۔ شام کو مشین اس لیے گھر لاتا تھا کہ وہ رات کو بھی اپنے گھر میں سلائی کے کام میں مصروف رہتا تھا۔ قصبے کی اس سب سے بڑی دکان کے تھڑے پر بیٹھنے کی اجازت سرمایہ دار سیٹھ کی کئی شرائط سے جڑی ہوئی تھی ۔موہن کلاتھ ہاﺅس کے مالک سیٹھ موہن داس نے اس غریب درزی کو جن کاموں کا ذمہ دار بنا رکھا تھا ان میں دکان کے سامنے جھاڑو دینا ،چھڑکاﺅ کرنا، دن کے دس بجے سیٹھ کے گھر سبزی اور پھل وغیر پہنچانا اور وہاں سے دوپہر کو کھانے کا ٹفن دکان پر لانا۔مکرم درزی یہ سب خدمات بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتا ۔صبح سے شام تک وہ اپنے کام میں مصروف رہتا ۔دکان سے کپڑوں کی خریداری کے لیے آنے والے مرداورعورتیں اس کے کام کی نفاست کو پسند کرتے تھے۔ وہ کپڑوں کی سلائی اور فٹنگ پر خاص توجہ دیتا۔میرے ساتھ مکرم درزی کاایک تعلق سا بن گیا تھا ۔میں اس کے کام اور دیانت داری سے متاثر تھا۔جو بھی اس سے کپڑے سلواتا وہ اس کے ناپ کے مطابق کٹائی اس کی موجودگی میں کرتااور جو کپڑا بچ جاتا وہ مالک کو اسی وقت واپس کر دیتا ۔موہن داس اسے سبزی اور پھلوں کے لیے جو رقم دیتاوہ اس کا پائی پائی کا حساب سیٹھ کو لکھ کر دیتا ۔سیٹھ موہن داس اور اس کے گھر کے تمام افراد مکرم کی دیانت ،شرافت اور خوش اخلاقی کے معترف تھے ۔

بچپن کی شادی نے مکرم کی زندگی کو متعدد مسائل کی بھینٹ چڑھا دیا۔اس کی سات بچیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ایک بڑے کنبے کاواحدکفیل ہونے کی وجہ سے مکرم معیشت کے افکار میں بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا ۔چالیس سال کی عمر میں وہ ستر برس کا بوڑھا دکھائی دیتا تھا ۔مکرم کی پہلی بچی پیدا ہوئی تو اس وقت مکرم کی عمر سولہ سال تھی ۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے بارہ سال کے عرصے میں اس کی سات بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ بیٹا سب سے چھوٹا تھااور سب کی آنکھ کا تارا تھا ۔مکرم جو کچھ کماتا وہ اس کی اولاد کے لباس ،غذا اور دیگر ضروریات پر خرچ ہو جاتا۔تقدیرکے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں ۔مکرم کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔بیٹے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی اہلیہ پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور وہ مستقل طور پرچلنے پھرنے سے معذورہو گئی ۔مفلسی میں آٹا گیلا ہونا کی مثل ان پر صادق آتی ہے ۔مکرم کی تمام جمع پونجی اپنی اہلیہ کے علاج پر خرچ ہو گئی مگر وہ چارپائی پر ایسے گری کے پھر زمین پر چلنا اسے نصیب نہ ہو سکا ۔سیٹھ موہن داس نے بھی اس کی امداد کی مگر اس کی اہلیہ ٹھیک نہ ہو سکی ۔مکرم کے گھر کے در و دیوار پر حسرت ،یاس ،مجبوری ،محرومی ،افلاس اور بیماری کے سائے روز بہ روز گمبھیر ہوتے چلے گئے ۔ان آلام کے باعث یوں محسوس ہوتا ہے کہ چاروں جانب جان لیوا اداسی بال کھولے گریہ و زاری میں مصروف ہے ۔

وقت گزرتا رہا اور ساتھ ہی مسائل بھی بڑھتے چلے گئے ۔مسائل کے ساتھ ساتھ بچوں کی عمر بھی بڑھنے لگی ۔مکرم کی بیٹیا ں اب جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکی تھیں ۔جہاں دو وقت کی روٹی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہو وہاں تعلیم اور دیگر مسائل پر توجہ کیسے دی جا سکتی ہے ؟مکرم کی سات بیٹیاں صرف دینی تعلیم ،خانہ داری اور سلا ئی کڑھائی ہی کو اپنی متاع حیات سمجھتی تھیں ۔یہ بچیاں بڑی صابر اور شاکر تھیں ۔انھوں نے اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔مکرم نے دن رات ایک کر کے ان بچیوں کے جہیز کا انتظام کیا۔ اس کام میں سیٹھ موہن داس کی دست گیری بہت کام آئی ۔ اس نے مناسب رشتے تلاش کر کے ان کے ہاتھ پیلے کرنے میں عافیت سمجھی ۔ اس کی بیٹیوں کے لیے مناسب رشتوں کی تلاش میں علاقے کے معززین اور پورے شہر کے لوگوں نے بھر پور تعاون کیا ۔اب مکرم قدرے مطمئن دکھائی دیتا تھا ۔

میرے والد صاحب فریضہ حج ادا کرنے کے لیے ارض مقدس روانہ ہونے لگے تو مکرم بھی انھیں ملنے کے لیے آیااوردیر تک بیٹھا رہا ۔وہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتاتا رہا اور اپنے مصائب کے حل کے لیے دعا کی استدعا کی ۔رخصت ہوتے وقت والد صاحب نے اسے گلے لگا لیا اور کہا:
”مکرم ! اگر ارض مقدس سے تم کوئی چیز منگوانا چاہو تو بے جھجھک کہہ دو ۔میں وہ ضرور لاﺅں گا ۔“

یہ سن کر مکرم زار و قطار رونے لگااور اس کی ہچکیاں نکلنے لگیں ۔والد صاحب نے اس پیار کیااور اس کی ڈھارس بندھائی ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ روتے ہوئے کہنے لگا :
”میرے لیے تو آپ مدینے ،مکے ،طائف ،غار حرا،غار ثور اورجنت البقیع کی مٹی لیتے آنا۔یہ مٹی میری آنکھ کا سرمہ بنے گی اور قبر میں بھی یہی مٹی میرے ساتھ جائے گی۔“

مکرم کی باتیں سن کر میں اور میرے والد صاحب اپنے آنسو ضبط نہ کر سکے اور والد صاحب کاگریہ گلو گیر ہو گیا ۔انھوں نے مکرم کی باتیں بڑی توجہ سے سنیں ۔میں سوچنے لگا کہ یہ شخص کس قدر مثبت سوچ رکھتا ہے ۔کاش ہم اپنی سوچ کو اسی انداز میں بدل سکیں ۔والد صاحب نے مکرم سے کہا :
”تمھاری اس خواہش کا مجھے بہت احترام ہے ۔میں ارض مقدس سے ان مقامات کی مقدس مٹی ضرور حاصل کروں گا جہاں پر حضور ﷺ نے قدم مبارک رکھے۔کوئی اور چیز جو تمھیں درکار ہے وہ بھی بتاﺅَ۔میری کوشش ہو گی کہ تمھاری دلی تمنا کو پوری کرنے کی کوشش کروں ۔“

”ہاں ایک تمنا دل میں ضرور ہے “مکرم نے کہا ”میرے لیے کفن کاایک ٹکڑا خریدنا ۔اسے آب زم زم سے دھوکر حرم پاک اور روضہ اقدس سے مس کر کے لانا۔میرے لیے سفر آخرت میں کام آئے گا ۔“

والد صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ مکرم کی ان خواہشات کی تکمیل کی سعی کریں گے ۔مکرم مطمئن ہو گیا اور دعا دے کر چلا گیا۔اس کے بعد وہ مجھے اکثر ملتا رہااور مجھ سے میرے والد صاحب اور دوسرے حاجی صاحبان کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ایک مرتبہ تو اس نے میرے ٹیلی فوں پر والد صاحب سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی جو میں نے پوری کر دی ۔اس وقت اس کی حالت دیدنی تھی ،وہ بہت خوش تھا ،کہنے لگا :
” میری آواز ارض مقدس تک جا پہنچی ہے اور وہاں کی فضا سے مجھے آواز سنائی دے رہی ہے ۔میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں ۔تمھارے احسان کے سامنے میری گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔آپ لوگوں سے مل کر تو زندگی سے پیا ر ہوجاتا ہے ۔“

والدصاحب فریضہ ءحج کی ادائیگی کے بعدگھر پہنچے تو مکر م بھی پھولوں کے ہار لیے ہمارے گھر آیا ۔والد صاحب نے اس کے مطلوبہ تبرکات اس کے حوالے کیے ۔اس موقع پر اس نے کہا:
”میں نے اب مرنے کی سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔آپ میرے لیے دعا کریں ۔ آلام روزگار کے مہیب بگولوں نے میری امیدوں کے سب دئیے ایک ایک کر کے گل کر دئیے ہیں ۔اب میں بھی کوئی دن کا مہمان ہو ۔میں اب چراغ سحر ہوں نا معلوم کس وقت اجل کے ہاتھوں زندگی کی یہ شمع بجھ جائے ۔تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے رفو کرنا قطعی نا ممکن ہے ۔“

اس کا چہرہ پیلا ہورہا تھا اور اس کے ہاتھوں اور جسم پر رعشہ طاری تھا ۔آخر وہ ایک انسان تھا ۔مسموم حالات اور مصائب کی گردش مدام نے اسے یاس وہراس میں مبتلا کر دیا تھا۔ہجوم یاس میں وہ اس قدر گھبرا گیا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ اس کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ہے ۔وہ دنیا کے ستم حرف حرف کہناچاہتا تھا مگر یہاں تو ہر شخص اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے ۔اس شہر نا پرساں میں ایک غریب اور بے بس محنت کش کی چشم تر پر نگاہ التفات ڈالنے کی فرصت کس کو ہے ؟مکرم کی زندگی تو کسی مفلس کی قبا کے مانند تھی جس میں درد کے اس قدر پیوند لگ چکے تھے کہ اس کی شکل ہی بد ل چکی تھی ۔

مکرم کا بیٹا نسیم بھی اب اس کے ساتھ مل کر سلائی کے کام میں لگ گیا۔ موہن داس کی دکان کے تھڑے پر تو مکرم ہی بیٹھتا جب کہ نسیم اب گھر میں رہ کر سلائی کے کام میں مصروف رہتا ۔نسیم بھی اپنے باپ کی طرح بہت محنتی اور صابر نو جوان تھا ۔ایک تبدیلی یہ ہو ئی کہ مکرم نے اب گاﺅں چھوڑ کر اسی قصبے میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مکرم کی فالج زدہ معذور اہلیہ کی دیکھ بھال کرنے والا اب کوئی نہیں تھا۔اس کی بیٹیاں تو کب کی اپنے گھروں کو سدھار چکی تھیں۔بیٹیاں بھی چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں ۔نہایت مختصر عرصے کے لیے اپنے والدین کے آنگن میں چہچہاتی ہیں اور اس کے بعد جب اپنا گھر بسا لیتی ہیں تو پھر اپنے نئے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ اس قدر گھل مل جاتی ہیں کہ بیتے دنوں کی یاد انھیں ایک خواب کے مانند محسوس ہوتی ہے ۔بچپن کے لمحات کبھی لوٹ کر نہیں آسکتے ،ان بیٹیوں کے لیے ان کی یادیں ہی ان کے لیے ایک سرمایہ ہوتاہے ۔سیرجہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔مکرم جب بھی اپنی بیٹیوں کو یاد کرتا اس کے منہ سے حرف دعا کے علاوہ کچھ نہ نکلتا ۔اس قصبے میں وہ ایک نیا مکین تھا۔اس نے محسوس کیا کہ جو بھی اس کٹھن مرحلے میں اس کے کام آیاوہی اس کا حقیقی مونس و غم خوار ہے ۔سب سے بڑھ کر اس کے دیرینہ کرم فرما موہن داس نے اس کی قدر افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔اس کی کوششوں سے مکرم کو ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر مل گیا ۔اب اس کی بیوی بھی چارپائی پر بیٹھ کر کپڑے سیتی اور اس طرح یہ تین افراد دن رات ایک کر کے محنت کرتے اور رزق حلال کماتے ۔

سیل زماں کے تھپیڑوں سے مکرم کو کبھی کوئی شکوہ نہ رہا ۔وہ دیانت داری سے یہ محسوس کرتا تھا کہ اس کی نا آسودگی اور معاشی تشنگی کاموج حوادث کی تند و تیز موجوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔یہ سب کچھ تو نوشتہءتقدیر ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی ۔مکرم نے اب اپنے بیٹے کی شادی کے انتظامات پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔اس کی دلی خواہش تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ اپنے گھر میں اپنی بہو لے آئے اور اس اداس ،خاموش اور سونے آنگن میں بہار آجائے ۔اس کی اپنی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس مسافرت میں اس کا پورا وجود کر چیوں میں بٹ گیا۔زندگی کے اس سفر میں طویل مسافت طے کرنے کے بعد اسے یو ںلگا کہ جیسے سفر کی دھول ہی اب اس کا پیرہن بن چکا ہے ۔اس کے بیٹے کی زندگی کی رنگینی و رعنائی بھی جیسی اس کی توقع تھی اس کہیں کم محسوس ہوتی تھی ۔ہر گھڑ ی اس کو یہ کھٹکا لگا رہتا کہ اس کے بیٹے کو کسی کمی کا احساس نہ ہو ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہر انسان زندگی کے سفر میں صدائے جرس کی جستجومیں آبلہ پا دیوانہ وار پھرتا ہے مگر اس کی تمام جد و جہد رائیگاں چلی جاتی ہے اور وہ سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور جب وہ خود کو بے بسی کے عالم میں سکوت کے صحرا میں بھٹکتا ہو ا پاتا ہے تو اس کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔مکرم بھی اب حالات سے بہت مایوس ہوتا چلا جا رہا تھا ۔وہ اپنے بیٹے کی شادی کے لیے جہاں بھی جاتا اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ۔اس کی غربت ہی ا س کی راہ میں سد سکندری بن گئی ۔مکرم کی بیوی موہن داس کی بیٹی لاجونتی کو للچائی نگاہو ںسے دیکھتی تو مکرم اسے غصے سے ٹوکتا۔

سیٹھ موہن دا س بھی اب ضعیفی کی حدو د میں داخل ہو چکا تھا ۔ وہ اولاد نرینہ سے محروم تھا۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی جس کے لیے موزوں رشتے کی تلاش میں اب تک وہ کامیاب نہ ہو سکا تھا ۔گزشتہ رات اسے دل کا شدید دورہ پڑا اور اسے ایمر جنسی میں پہنچا دیا گیا ۔وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں داخل رہا اس دوران میں ا س کی دکان مسلسل بند رہنے کی وجہ سے اسے بہت نقصان برداشت کرنا پڑا ۔اس کا المیہ یہ تھا کہ اسے کوئی قابل اعتماد ملازم نہ مل سکا ۔دو تین بارا س نے ملازمین کو کیش پر بٹھایا مگر ہر بار وہ اسے لوٹ کر چلتے بنے۔موہن داس جب ہسپتال سے واپس آیا تو اس نے مکرم کو بلایا اور کہا:
”میں چاہتا ہوں کہ میری علالت کے دوران تم اور تمھارا بیٹا میرا کاروبار سنبھال لو اور تمام خرچ اور آمد پر کڑی نظر رکھو ۔تمھارا بیٹا میٹرک پاس ہے وہ یہ کام کر سکتا ہے تمھاری مدد کے لیے ایک ملازم جو پہلے سے کام کر رہا ہے وہ بھی موجو درہے گا ۔زندگی نے وفا کی تو میں تمھارے لیے ہر خدمت بجا لاﺅں گا ،اگر چل بسا تو یہ سب کچھ اپنی نگرانی میں میری بیوی اور بچی کے لیے بہ طور امانت سنبھال رکھنا۔“

ابھی مکرم سوچ رہا تھا کہ موہن داس کی اکلوتی بیٹی لاجونتی نے روتے ہوئے کہا ”چچا مکرم آپ بے فکر ہو کر اس کام کو اپنے ذمے لے لیں ۔ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے ۔میں آپ کی بیٹی کی طرح ہوں دیکھیں میرا دل نہ توڑیں ہماری دکان کو اب کوئی اورنہیں سنبھال سکتا۔آپ کے ساتھ ہمارا درد کا رشتہ ہے ۔جب بھی آپ نے ہمیں پکارا ہم آپ کے نا م پہ چلے آئے ۔اب ہم آپ کو مدد کے لیے بلا رہے ہیں،آپ کیسے انکارکر سکتے ہیں ؟کیا عجب درد کا یہ رشتہ دونوں خاندانوں کی قسمت بدل دے اور خوش حالی اور خوش نصیبی دونوں کا مقدر بن جائے ۔“

مکرم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا ۔وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ تھڑے پربیٹھ کر وقت گزارنا تو بہت آسان ہے مگراتنے وسیع کاروبار کو سنبھالنا اور تجوری کی حفاظت اور سب سے بڑھ کر اپنی دیانت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے بڑی تپسیا کی ضرورت ہے۔مال ودولت کی ہوس انسان کو کسی وقت بھی بے حسی کی بھینٹ چڑھا سکتی ہے ۔یہ سوچتا تو وہ کانپ اٹھتا۔

لاجونتی کی ماں نے مکرم سے مخاطب ہو کر کہا ”دیکھو مکرم تم گزشتہ چالیس برس سے ہمارے گھر آ رہے ہو۔اس عرصے میں تم نے ہمارا ایک پائی کا نقصان نہیں کیا۔تم نے ہر حال میں ہماری عزت اور وقار کاخیال رکھا ہے ۔آج ہم پر بہت کٹھن وقت آ گیا ہے ۔میرے شو ہر کو معالج نے ایک برس مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے ۔ ہم سخت مشکلات میں گھر گئے ہیں۔اب تم جانو اوردکان جانے یہ میرا حکم ہے ۔“

لاجونتی نے دکان کی چابیاں مکرم کے حوالے کرتے ہوئے کہا ” آج سے دکان کے تمام معاملات کی نگرانی تمھارے ذمے ہے ۔تمھارے گھر کے تمام اخراجات ہم پورے کریں گے “

” آپ سب سچ کہہ رہے ہیں۔ہم غریب لوگ درد کے رشتے کوخوب سمجھتے ہیں “مکرم نے روتے ہوئے کہا ”میری بیٹیوں کی شادی کا تمام جہیز موہن داس نے بنایا۔میری بیوی کے علاج کے لیے موہن داس نے میری مالی مدد کی ۔میں آپ کی خدمت ضرور کروں گا لیکن اس کے بدلے کوئی مالی مفاد حاصل نہ کروں گا ۔ہم لوگ غریب ضرور ہیں مگر آپ کے احسانات کے سامنے ہماری گردن خم رہے گی ۔“

”جو کچھ ہم نے کیا وہ ہمارا فرض تھا “لاجونتی کی ماں بولی ”تمھاری بیٹیاں ہماری اپنی بیٹیاں ہی تو تھیں ہم نے کوئی احسان نہیں کیا ۔اب تم ہم پر یہ احسان کرو کہ اس مشکل گھڑی میں کاروبار کوڈوبنے سے بچاﺅ۔موہن داس ٹھیک ہو جائے گا تو سب کچھ سنبھال لے گا ۔تمھاری اس نیکی کاصلہ ہم کبھی نہیں دے سکتے ۔کیا عجب مقدر کے اس کھیل میں حالات کوئی نیا اور مثبت رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔“

”تم سب جاﺅ اور نسیم کی ماں فردوس کویہاں لے آﺅ“موہن داس نے کہا”وہ ہمارے ساتھ رہے گی۔گھر میں جو کچھ پکے گا سب مل کر کھائیں گے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہیں گے ۔“

شام کے سائے ڈھل رہے تھے مکرم اس کی بیوی اور اس کا بیٹا نسیم اپنی نئی قیام گاہ میں پہنچ چکے تھے۔اب لاجونتی اور اس کی ماں کھانا پکاتیں اور سب مل کر کھا تے ۔مکرم اور اس کے بیٹے نے دکان پر دل لگا کر کام کیا۔پہلے مہینے سٹاک کی پڑتا ل اور فروخت شدہ کپڑے کے متبادل نئے کپڑ ے کی خریداری کے بعد ایک لاکھ روپے کا منافع ہوا جو کہ ایک ریکارڈ تھا ۔موہن داس کی آنکھوں میں ممنونیت کی نمی تھی ۔اگلے مہینے یہ منافع بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ روپے ہو گیا۔اور اس طرح رفتہ رفتہ فروخت اور خریداری کی شرح اور منافع میں بتدریج اضافہ ہوتا چلاگیا۔اب یہ دکان شہر کی سب سے بڑی اور ہول سیل کی دکان بن چکی تھی ۔سب مقامی دکان دار یہیں سے کپڑا خریدتے۔اس کے علاوہ ارد گرد کے قصبوں کے بیوپاری بھی موہن کلاتھ ہاﺅس ہی کو ترجیح دیتے تھے ۔ایک سال کے عرصے میں موہن داس کی طبیعت بالکل بحال ہو گئی اور وہ پھر سے ہشاش بشا ش ہو گیا ۔اس عرصے میں مکرم نے جو منافع دکھایا وہ دکان کے اصل زر سے تین گنا زیادہ تھا ۔ اپنی صحت یابی کے بعد جب مو ہن داس پہلی بار دکان میں آیا تو مکرم اسی وقت دکان کے تھڑے پر اپنی سلائی مشین لے کر بیٹھ گیا ۔موہن داس نے کہا :
”اب تمھیں مزید یہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ بہت ہو چکا !اب تم کہیں اور جاکر اپنا سلائی کا کاروبار کرو گے ۔“

یہ سنتے ہی مکرم کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور اس کی آنکھوں کے آگے اندھیر چھا گیا ۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا شاید اس سے کوئی بھول ہو گئی ہو یا حساب میں کوئی غلطی نا دانستہ رہ گئی ہو ۔ابھی وہ ان سوچوں میں گم تھا کہ موہن داس نے اسے پھر مخاطب ہو کر کہا :”آ ج سے تمھاری رہائش کا بھی الگ انتظا م کر دیاگیا ہے اب تم اپنی نئی رہائش میں منتقل ہو جاﺅ گے ۔“

یہ بات مکرم کے لیے قدرے اطمینان بخش تھی ۔وہ خو دبھی یہی چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ پھر سے اپنے غریبانہ ماحول میں گزر بسر کرے ۔تاہم موہن داس کے رویے سے وہ حیرت زدہ رہ گیا۔

” لیکن اب میں سلائی کہاں کروں گا ؟“ مکرم نے پوچھا ”ابھی کچھ دن تو مجھے یہیں بیٹھنے دیں اس کے بعد میں اپنا کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کر لوں گا ۔“

”یہ نہیں ہو سکتا میں ا س کام میں مزید تاخیر کا متحمل ہر گز نہیں ہوسکتا “موہن داس نے کہا ”ابھی اپنی مشین اٹھاﺅاور میرے پیچھے پیچھے آﺅ ۔“

دکان کو تالا لگا کر موہن داس باہر نکلا اورمکرم اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا ۔بازار کے درمیان میں ایک دکان پر ابھی تازہ بورڈ لگا تھا جس پر لکھا تھا ”مکرم ٹیلرز اینڈ بو تیک “ موہن داس نے مکرم سے مخاطب ہو کر کہا :”یہ دکان اب تمھاری ملکیت ہے ۔وہ سامنے تمھارے لیے ایک چھوٹا سا گھر بھی خریدا ہے جس میں تمھاری بیوی اور بیٹا آج صبح منتقل ہو گئے ہیں۔اس دکان ،مکان اور بوتیک کے سامان پر جو خرچ آیا ہے وہ منافع میں تمھارے حصے کی رقم ہے ۔اب اپنے گھر سے ہو کر ہمارے گھر کا بھی چکر لگا لینا ۔تم تو چھپے رستم نکلے ہو۔ہماری بیٹی لاجونتی کے لیے تم نے بہت اچھا سوچا ۔ہمیں معاف کر دینا تم نے تو ہماری بیٹی لاجونتی کے لیے بہتر سوچا لیکن ہم تمھارے بیٹے نسیم کے لیے کچھ نہ کر سکے ۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ نسیم کا گھر ضرور آباد کروں گا۔تمھاری خواہش ضرور پوری ہو گی ۔“

مکرم جب موہن داس کے گھر پہنچا تو موہن داس کی بیوی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ” تم نے لاجونتی کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھااور اس کے لیے موزوں رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کی ۔آج شام کراچی سے اونی کپڑے کے وہ تاجر اور ان کے خاندان کی عورتیں آ رہی ہیں جنھیں تم نے لاجونتی کے رشتے کے لیے کہا تھا ۔سیٹھ رنگون والا ٹیلی فون پر ہمیں سب کچھ بتا چکا ہے ۔ ان لوگوں سے ہمارا برسوں کا لین دین رہا ہے، درمیان میں کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے فا صلے بڑ ھ گئے تھے ۔تم نے اچھا کیا جو ان سے روابط پیدا کیے۔ ان کے قیام و طعام کے سب انتظام تمھارے ذمہ ہوں گے ۔“

مکرم کو سب باتیں یاد آگئیں ۔وہ بہت خوش تھا کہ اس کے محسن کی بیٹی اپنے گھر کو سدھار جائے گی ۔ بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایا مال ہیں ۔

شام کوکراچی سے وہ لوگ آگئے سب سے پہلے وہ مکرم کے گھر گئے ۔سفینہ کو مکرم کا گھر اور اس کا ماحو ل بہت پسندآیا ۔نسیم کو دیکھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا جیسے اسے اس کے خوابوں کا شہزادہ مل گیاہو ۔اس کے بعد وہ موہن داس کے گھر آئے ۔کراچی کے سیٹھ رنگون والا کے ہمراہ اس کی بیوی ،بیٹا اور اس کی لے پالک بیٹی سفینہ بھی تھی ۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سب بہت خوش تھے ۔

سیٹھ رنگون والا نے کہا ”مکرم تم نے جو کچھ کہا وہ حر ف بہ حر ف سچ نکلا ۔لیکن تم نے ہم سے ایک جھوٹ بولا کہ تم تھڑے پر بیٹھ کر کپڑے سیتے ہو اور تم ایک انتہائی غریب آدمی ہو ۔“

”عاجزی اور انکسار مکرم کے مزاج کاحصہ ہے “موہن داس نے کہا ”میری دکان کی کامیابی کا دارو مدار مکرم کی دیانت پر ہے “

”میں سب جان گیا ہوں ۔گزشتہ ایک برس سے مکرم نے مجھ سے جس طرح کاروباری لین دین کیا ہے وہ اس کے بلند کردار اور وقار کا ثبوت ہے ۔میرے اکلوتے بیٹے کے لیے لاجونتی جیسی چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی کا رشتہ ڈھونڈ ا ،یہ اس عظیم انسان کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے ۔“

”اب تم زیادہ باتیں نہ بناﺅ اور لاجونتی کی شادی کے لیے ابھی انتظام کرو “موہن داس نے کہا ”میں چاہتا ہوں کہ تم لاجونتی کو ابھی ساتھ لے جاﺅ ۔جہیز اور سب کچھ تو کب کا تیا ر ہے ۔اور ہمارا بیٹا بھی اب بیرون ملک جانے والا ہے ۔“

”لاجونتی کی شادی سے پہلے اور بھی ضروری کام ہیں “سیٹھ رنگون والا بولا” مجھے مکرم کے احسانات کا بدلہ بھی تو چکانا ہے ۔“

موہن داس نے چونک کر کہا ”وہ کیسے ؟میں کچھ نہیں سمجھا “

سیٹھ رنگون والا نے اپنی لے پالک بیٹی سفینہ کا ہاتھ مکرم کے بیٹے نسیم کے ہاتھ میں دیااور کہا ”تم دونوں کو زندگی کا نیا سفر مبارک ہو ۔“

مکرم اور اس کی بیوی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے سب نے مل کر ایک دوسرے کو مبارک دی ۔سب کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے ۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 611365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.