پراسرار صورتیں

 حالات پر کسی انسان کا کوئی اختیار نہیں ۔پر زمانہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے پرواز نور سے بھی تیز تر ہے ۔شکم کی بھوک انسان کو در در کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیتی ہے ۔میں ملازمت کے سلسلے میں اس دور دراز گاﺅں میں پہنچا ۔ اس گاﺅں میں رہتے ہوئے مجھے ایک سال بیت گیا۔یوں تو اس گاﺅں کے تمام لوگ اپنی سادگی ،نیکی اور انسانی ہمدردی کی وجہ سے مجھے پسند تھے مگر ارشد کے مزاج کا ایک الگ انداز تھا ۔وہ کم گو ،محنتی ،جفا کش اور صابر و شاکر نو جوان تھا ۔ ارشد ایک سعادت مند نو جوان تھا اور محکمہ ڈاک میں پہلے سکیل کا ملازم تھا ۔اس نے میری عزت واحترام کو ملحو ظ رکھا اور بڑھ چڑھ کر میری خدمت کی اور میرے لیے آسانیا ںپیدا کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔ مجھے معلوم ہوا کہ گاﺅں کے نہایت ایمان دار اور خوش اخلاق نو جوان ارشد نے گاﺅں کے پر اسرار حالات سے دل برداشتہ ہو کر گاﺅںاور نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیاہے ۔اس گاﺅں کا ماحول اب بھی پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا۔کچے گھروندوں پر مشتمل یہ گاﺅں دریا ئے جہلم کے کنارے واقع تھا۔ اس کے چاروں طرف کھجوروں کے جھنڈ تھے۔اس سے آگے کیکر کے درختوں کا جنگل تھا جہاں ہر طرف خار مغیلاں بکھرے پڑے تھے ۔اس سے کچھ آگے جنگل بیلا تھا جس میں کریروں،جنڈ ،سر کنڈے ،اکڑے ،پوہلی ،بھکڑا اور جال کی کثرت تھی ۔اس جنگل بیلے میں جنگلی سور ،بھیڑئیے ،گیدڑ ،خرگوش اور چیتے پائے جاتے تھے ۔خود رو جڑی بوٹیوں اور خا ر دار جھاڑیوںنے فرش زمیں کو ڈھانپ رکھا تھا۔اس قدر خس و خاشا ک اس جنگل میں بکھرا پڑا تھاکہ میلوں تک کسی کا گزرنا محال تھا۔ یہ جنگلی جڑی بو ٹیاں سانپ ،بچھو،اور کئی خطرناک حشرات کی آماجگاہ بن چکی تھیں ۔ارشد نے مجھے بتایا کہ اس جنگل میں ا س نے با ر ہا کئی پر اسرار شکلیں دیکھیں ۔گاﺅں کے لوگ انھیں بھوت پریت کانام دیتے اور اس طرف کا کبھی رخ نہ کر تے ۔یہ بھو ت گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے ۔کبھی عینک والا بھوت دکھائی دیتا اور کبھی انگوٹھی والا بھوت لوگوں پر ہیبت طاری کر دیتا۔کسی رات گنجا اور کلین شیو بھوت آتا تو دوسری رات لمبے بالوں والا اور لمبی لمبی مونچھوں والا جٹا دھاری بھوت ظاہر ہوتا اور اس جنگل میں جنگل کے قانون کو پوری قوت سے نافذ کر دیتا ۔اس جنگل کا ما حول اس قدر ہولناک اور پر اسرار تھا کہ سوچ کے محدود زاویے اس کا احاطہ نہ کر سکتے تھے ۔میں نے اسے ارشد کی خام خیالی اور ضعیف الاعتقادی پر محمول کیا ۔اپنی تمام تر کوشش کے با وجود میں ارشد کے لا شعور میںپوشیدہ خوف کوختم نہ کر پایا جس نے اس کی زندگی کی تمام رتوں کو بے ثمر کر دیا تھا ۔اس کے ریشے ریشے میں ایک موہوم خوف سرایت کرچکا تھا۔ایک دن موقع پا کر میں نے ارشد سے کچھ باتیں جاننے کی کوشش کی ۔میں نے اسے اعتماد میں لے کر کہا:
”تم پر کب انکشاف ہوا کہ اس جنگل میں پر اسرار بھوت، پریت اور آسیب موجودہیں ؟“

”میرے دادا نے مجھے بتایا تھا کہ اس جنگل کی چوتھی سمت جانے کی کوشش نہ کرنا ۔“ ارشد نے آہ بھر کر کہا ”مشرق ،شمال اور جنوب کی جانب تو کوئی خطرہ نہیںمگر مغربی سمت جو دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے وہاں ایک بھوت کا بسیرا ہے ۔جو بھی اس سمت گیا وہ پھر کبھی واپس نہیں آیا۔خاص طور پر نو جوان لڑکی جب بھی اس سمت گئی وہ متاع عزت و عصمت گنوا کر زندگی کی بازی ہار جاتی ہے ۔اس کے بعد اس کی لاش دریا کے مگر مچھ کھا جاتے ہیں ۔اور اس بد قسمت نوجوان دوشیزہ کے خون آلود کپڑے دیکھ کر لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ وہ بد نصیب لڑکی کسی آدم خوربھوت کی درندگی اور خون آشامی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے ۔“

یہ باتیں سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرورہے ۔اس وقت اصل مسئلہ یہ تھا کہ کسی طرح اس نو جوان کی ڈھارس بندھائی جائے ۔اس کی تین ایکڑ آبائی زمین بھی تھی جو دریا کے مغربی کنارے کے ساتھ تھی ۔اسی جگہ پر بھوتوں اور پراسرارمخلوق نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔یہ جب بھی اس جانب کا رخ کرتا اسے پراسراربھوت اس قدر ہراساں کرتے کہ کہ اس کو جان کے لالے پڑ جاتے ۔اس نے کئی مرتبہ گاﺅں کے مکھیاسے بھی اپنے اس دکھ کا ذکر کیا مگر کسی کے کان پر جو ں تک نہ رینگی۔

” دریا کے کنارے جہاں بھوتوں کا مسکن ہے وہاں اب تک کتنے لو گ گئے اور پھر کبھی نہ لوٹے ؟“میں نے ارشد سے پو چھا ”آخر وہ کو ن سے حالات ہوتے ہیں جب عورتیں یا مرد اس طرف جاتے ہیں؟“

” یہ بڑی عجیب بات ہے ۔کہتے ہیں آج سے نصف صدی قبل یہاں ایک سوامی کا ٹھکانہ تھا ۔وہ بگلا بھگت شخص تھا جس نے اپنی ترک دنیا کی آڑ میں دہشت گردی ،جنسی جنون اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھاتھا ۔“ارشد بولا”شانتی ایک بے حد حسین لڑکی تھی وہ اپنے آشنا نابو کے ساتھ مل کر سوامی کے پاس گئی اور اس سے مدد کی التجا کی کہ کسی طرح ان کے والدین ان کی باہم شادی پر آمادہ ہو جائیں ۔دونوں محبت کرنے والے چوری چھپے سوامی کے پاس پہنچے تھے ۔سوامی نے دونوں کوموت کے گھاٹ اتار دیااور ان کی لاشیں دریا میں بہا دیں ۔“

”یہ تو بہت تشویش ناک بات تھی ۔“میں نے کہا ”کیا شانتی اور نابو کے والدین نے اس سانحہ کی اطلاع پولیس کو دی ۔مرنے کے بعد ان بد قسمت نو جوانوں کی لاشیں تلاش کی گئیں یا تمام معاملہ ختم ہو گیا اور خاک نشینوں کا خون رزق خاک ہو گیا ۔“

” میرے دادا کہا کرتے تھے کہ شانتی اور نابو کی موت پر کوئی بھی آنکھ نم نہ ہوئی ۔“ارشد نے روتے ہوئے کہا”ہم غریب لوگ ہیں ۔جب کوئی غریب مر جاتا ہے تو کسی کو ذرا بھی دکھ نہیں ہوتا۔سب امیر بے حس ہو چکے ہیں۔غریب کی زندگی کیاہے اب تو وہ اپنے ارمانوں ،امیدوں اور خواہشوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور خود زندہ درگور ہوچکے ہیں ۔“

گاﺅں میں کریانہ کی ایک دکان تھی ۔اس میں روزمرہ ضرورت کی اشیا شہر سے تین گنا زیادہ نرخ پر فروخت ہوتی تھیں ۔اس کے با وجود یہاں کے لوگ ادھار پر چیزیں خرید لیتے اور فصل کی کٹائی کے موقع پر ادھار اداکیا جاتا تھا۔ایک دن اس دکان دار نے مجھے بتایا کہ ارشد کا معاملہ خاص پیچیدہ ہے ۔اس کے دکھ کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا ۔وہ کہنے لگا :

” اس کی ایک محبوبہ تھی جس کا نام گائتری تھا ۔بڑی خوب صورت لڑکی تھی ۔ایک دن اس نے گاﺅں کے مکھیا نے اسے اپنے پیار کاسندیسہ بھیجا تو گائتری نے اسے گالیاں دیں ۔وہ پنگھٹ سے پانی بھر کر لا رہی تھی کہ مکھیا نے اسے چھیڑا ۔بس پھر کیا تھا گائتری نے پانی سے بھرا ہوا گھڑا پوری قوت سے مکھیا پر دے مارا اور اسے لہو لہان کر دیا۔ عامل کی ایک معتمد عورت گاﺅں میں رہتی ہے جو عورتوں کو لے کر وہاں جاتی ہے۔ پریشان حال ،مسائل کی شکار اور بے اولادعورتیں وہاں عملیات ،گنڈے ، ٹونے یا جادو کے ذریعے اپنی مرادیں پا لیتی ہیں ۔ چند روز بعد گائتری سوامی کی ایک معتمد عورت کے ساتھ مل کر اس پر اسرار حویلی میں پہنچی جہاں عامل رہتا تھا اور جہاں بھوت اور جن اس کے قبضے میں تھے ۔ان کا مقصد یہ تھا کہ مکھیا سے بچنے کے لیے عامل کا سہار ا لیا جائے اور بھوتوں کے ذریعے اس بگڑے ہوئی عیاش جاگیردارسے نجات حاصل کی جائے ۔وہ چاہتی تھی کہ ارشد کے ساتھ زندگی کے خوش گوار سفر کا آغازکرے ۔ارشد اور گائتری کی منگنی بچپن ہی سے ہو چکی تھی ۔“

”اس کے بعد کیا ہوا ؟“ میں نے بڑے تجسس سے پو چھا ”کیا گائتری اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ؟“
دکان دار نے آہ بھر کر کہا”اس کے بعد گائتری کا کوئی اتا پتا نہ ملا ۔گائتری کی گم شدگی کے بعد ارشد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔وہ کئی بار اس کی تلاش میں عامل کے ٹھکانے کی طرف گیا مگر ہر بار اسے بھوتوں نے ڈرا دھمکا کر بھگا دیا۔اب یہ بے بسی کے عالم میں نوکری اور گاﺅں چھوڑنا چاہتا ہے ۔اتنا معلوم ہوا ہے کہ گائتری زندہ ہے اور اسے بھوتوں نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے ۔“

مجھے یہ باتیں سن کر حیرت ہوئی کہ اس دور میں بھی لوگ کس قدر توہم پرست ہیں ۔لیکن ایک معما میری سمجھ سے بالاتر تھاکہ آخر یہ بھوت ا س قدر طاقت ور کیسے بن گئے کہ یہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتے ۔یہ بھوت تو مظلوموں کے چام کے دام چلا رہے ہیں ۔چند روز بعد ارشد شام کے وقت مجھے ملنے آیا۔اس کے چہرے پر بے بسی اور لاچاری ،پریشاں حالی اور درماندگی اور حسرت و یاس کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی ۔اس کی ظاہری حالت سے پتا چلتا تھا کہ وہ اپنی بے بسی پر شدید کرب میں مبتلا ہے اور خطرہ تھا کہیں وہ مایوسی کے عالم میں اپنی زندگی کی شمع نہ بجھا دے ۔میں نے اس سے گائتری کے بارے میں پو چھا تو وہ چونکا اور زاروقطار رونے لگا ۔فرط غم سے نڈھال ارشد کہنے لگا :
”دوسال گزر گئے ۔گائتری کو بھوتوں نے قید کر رکھا ہے ۔ کچھ چرواہے جو اس طرف سے گزرتے رہتے ہیں ،انھوں نے مجھے بتایا کہ گائتری زندہ ہے اور انھوںنے اس کو اس پر اسرر مکان میں گھومتے پھرتے دیکھا ہے ۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گائتری اب وہاں بہت دکھ اور مصیبت میں پھنس چکی ہے ۔اس سے فریب کیا گیا ہے اور دھوکے سے اسے وہاں لے جایا گیا ہے ۔گائتری کو بھوتوں کی آماجگاہ اور عامل کے ڈیرے پر لے جانے والی اس گاﺅں کی کٹنی صابو ہے جو کہ ان عاملوں کی رسد کی ذمہ دار ہے “

میرے ذہن میں ایک لاوا سا پک رہا تھا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی گہری سازش ہے ۔ممکن ہے کچھ جرائم پیشہ افراد اس ویرانے کو اپنے جرائم اور قبیح دھندے کے لیے استعمال کرتے ہوں ۔یہ بد قسمت عورتیں موہوم فصل کی کاشت اور برداشت سے پہلے اس قدر بھاری لگان ادا کرنے پر کیوں آمادہ ہو جاتی ہیں ۔آخر وہ کون سی مجبوری ہے جس کی وجہ سے وہ بے غیرتی ،بے حسی اور بے ضمیری کی دلدل میں دھنس گئی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ پر اسرا رشکلیں ،ڈراونے لوگ ،سر کٹے انسان ،عجیب الخلقت درندے ۔چڑیلیں اور جن یہ سب کچھ کیاہے ۔سارے لوگ کیوں اس گورکھ دھندے میں الجھ گئے ہیں ۔گاﺅں کا ہر مکین ایک انجانے خوف ،لا شعوری اضطراب اور ذہنی اذیت میں مبتلا دکھائی دیتا تھا ۔کواکب نے جو روپ دھاررکھا تھا وہ حددرجہ گمراہ کن تھا۔اس کے باوجود کوئی بھی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا تھا ۔پورا ماحول ہی مافوق الفطرت عناصر کی چیرہ دستیوں کے باعث سوگوار تھا۔ایک دن میںگلی سے گزررہاتھا کہ ایک بد صورت عورت نے میرا رستہ روکا۔اس عورت کی ہیئت کذائی دیکھ کر مجھے گمان گزرا کہ ممکن ہے یہ وہی ڈھڈو ہو جو معصو م عورتوں کو جعلی عاملوں کے پاس لے جاتی ہے اوران کی زندگی برباد کرنے کے جرم میںشریک ہو تی ہے ۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ عورت نے غصے سے کہا :
”مجھے سب معلوم ہے کہ تم ارشد کو ہمارے خلاف بھڑکاتے رہتے ہو ۔ہمارا کاٹا تو پانی بھی نہیں مانگتا ۔جو سوامی کی راکھ پر بیٹھے ہیںوہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ایک معمولی ملازم کو ٹھکانے لگا سکیں ۔تمھارا کام صرف ڈاک پہنچاناہے ۔ایک ڈاکیے کی اوقات ہی کیا ہے ؟جن ،بھوت ،چڑیلیں اور پریاں سب ہوائی مخلوق ان کی غلام ہے ۔بڑی تپسیا کی ہے سوامی کی راکھ پر بیٹھنے والوں نے ۔“

”اب میں سمجھ گیا کہ تم ہی وہ عورت ہو جو اس بد نصیب گاﺅں اور گرد و نواح کی سادہ لوح عورتوں کو بہلا پھسلا کر دور ویرانے میں چھپے مکار مجرموں کے پاس لے جاتی ہو ۔“میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ”خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔اس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہین ۔بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی ۔جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آئے گاتو ان بھیڑیوں کو اپنی اوقات کا پتا چل جائے گا۔“

وہ عورت تو جیسے پہلے ہی سے بہت بھڑکی ہوئی تھی ۔اس کے منہ سے جھا گ بہنے لگا اور اس کی ہف وات سن کر مجھے ان لوگوں کی ایذا رسانیوں کے بارے میں کوئی شبہ نہ رہا ۔یہ لوگ اپنے مکر کی چالوں سے سادہ لوح لوگوں کو بڑی بے دردی سے لوٹتے ہیں ۔صابونے مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا :
”غور سے سن لو ڈاک بابو ۔جتنی جلدی ہو سکے اپنا بستر گول کر کے یہاں سے چلے جاﺅ ورنہ کالابھوت تمھیں زندہ نہیں چھوڑے گا ۔یہ بھی سن لو کہ گائتری اب کالے بھوت کی بیوی بن چکی ہے ۔ارشد کو بتا دو کہ وہ اس کے خواب مت دیکھے ۔کالا بھوت اور اس کے ساتھی جس کو نشانہ بنا لیں اسے دنیا میں کہیں بھی پناہ نہیں مل سکتی ۔اس گاﺅں میں رات ہوتے ہی ہر گلی میں بھوت راج ہوتا ہے ۔یہ جو رات کے وقت پرانی قبروں سے نکل کر باہر آ جانے والے لوگ پر اسرار سائے ،انوکھی شکلیں اور چلتے پھرتے ہوئے مردے نظر آتے ہیں وہ سب بھوت ہی تو ہیں۔کالے دیو کے احسان سے گاﺅں والے اب تک محفوظ ہیں ورنہ اس آسیب زدہ گاﺅں کے تمام لو گ کب کے ہلا ک ہو چکے ہوتے َ۔“

” زندگی اور مت تو اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے ۔نہ تو کوئی کالا دیو کسی کو ما رسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو زندگی دے سکتا ہے میں اس کالے دھندے اور کالے جادو پر یقین نہیں رکھتا۔یہ سب مکار ہیں ان کا منہ جلد ہی کالا ہو گا۔یہ سب کچھ مکر اور فریب ہے ۔“میں نے جواب دیا ”ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور آتاہے ۔کیا عجب یہی ارشد کالے دیو کے لیے تباہی اور بربادی کا پیغام بن جائے ۔اب کالے دیو اور اس کے ساتھیوں کی بربادی کا وقت قریب ہے ۔میری مانو توتم عورتوں کے ساتھ فریب کاری کے دھندے سے توبہ کر لو اور اپنی اوقات میں آ جاﺅ ۔“

اب تو صابو کی آنکھیں بوٹی کی طرح سرخ ہو گئیں ۔اس نے چیخ ماری اور میرے کمرے کی چھت پر گاﺅں کے مکھیا کے مکان کی چھت سے اترنے والا ایک مردہ کفن پہنے کھڑاتھا ۔اس کے ساتھ خون میں لت پت ایک کریہہ شکل کا انسان نما درندہ بھی کھڑا تھا جس کے منہ سے خون نکل رہا تھا ۔ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے یہ آدم خور ہے اور ابھی ابھی خون پی کر آ رہا ہے ۔ ایک سر کٹا انسان کھڑا ہاتھ ہلا رہا تھا اس نے صابو کو اشارے سے بلایا اور یہ سب جنگل کی طرف چل نکلے ۔میںیہ سب کچھ دیکھ کر عجیب شش وپنج میں مبتلا ہو گیا ۔ارشد اس وقت میرے ساتھ تھا وہ یہ سب کچھ دیکھ کر تھر تھر کانپ رہا تھا ۔میں کچھ سمجھ نہ پایا۔میں شدید ذہنی دباﺅ کا شکار تھا ۔میں نے ارشد کو ساتھ لیا اورشام ہونے سے پہلے شہر چلا آیا ۔میری اچانک اور غیر متوقع آمد پر سب لوگ ششدر رہ گئے ۔میرے بھائی نے ایک جہاں دیدہ بزرگ صابر کوہاٹی کو بلایا اور اسے اس تمام ماجرے سے آگاہ کیا۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنے ا عصاب پر قابو رکھوں اور ان سے تعا ون کروں ۔یہ سب جعل سازی ،فریب کاری اور عیاری ہے ۔منشیات فروش اپنے گھناﺅنے کردار سے پورے علاقے میں دہشت کی علامت بن چکے ہیں ۔

اگلے روز میں اور ارشد گاﺅں کے لیے روانہ ہو گئے ۔دو پہر کو ایک ویگن اسی گلی میں آ کر رکی جس میں صابو کا گھر تھا۔اس میں سے چھ حسین و جمیل عورتیں بر آمد ہوئیں ۔دراز قد ،سڈول جسم ،چال جیسے کڑی کمان کا تیر ان کے ہاتھ میںچھوٹے چھوٹے بیگ تھے۔مشاطہ نے ان مہ جبینوں کے بناﺅ سنگھار میں جس کمال فن کا ثبوت دیا تھاوہ حیران کن تھا ۔ان کے خد وخال کے نکھار سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں ۔رنگ ،خوشبواورحسن و جمال کے تمام استعارے ان حسیناﺅں کے چہرے اور جسم کے نشیب و فراز اور چشم غزال سے نکلنے والے نگاہوں کے تیر دل میں اترتے چلے جا رہے تھے ۔جب یہ حسینائیں گاﺅں کی گلی سے گزریں تو سب نے انھیں آنکھ بھر کے دیکھااور ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔چند لمحو ںکے بعد وہ عورتیں صابو کے ہمراہ دریا کے کنارے واقع اس پر اسرار مکان کی طرف جا رہی تھیں جس میں عامل اور اس کے بھوت رہتے تھے ۔ایسی کئی عورتیں یہاں آتیں اور صابو انھیں عامل کے ڈیرے پر لے جاتی ۔یہ سب بے اولادی کے تدارک کے لیے عمل اور کالے جادو ،ٹونے یا گنڈوں کا سہار ا لے کر اپنے مسائل کا حال تلاش کرتیں ۔عورتوں کے ساتھ ایک ضعیف آدمی بھی آیا تھا مگر وہ جنگل کی جانب نہیں گیا بل کہ وہ صابو کے گھر ٹھہر گیا۔شاید ضعیفی نے اسے ضعیف الاعتقاد بھی بنا دیا تھا۔جب قویٰ مضمحل ہو جائیں تو تمام عناصر جن میں دماغ بھی شامل ہے درست کارکردگی نہیں دکھا سکتے ۔یہ عورتیں جو چندے آفتاب چندے ماہتاب تھیں نا معلوم کس مجبوری کی وجہ سے اس ویرانے کی جانب چپکے سے سدھا ر گئیں جاتے وقت وہ خالی ہاتھ تھیں ۔اور اپنے ساتھ بیگ بھی نہ لے گئیں ۔حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے شہروں سے بن پیارے لگیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے ۔

اچانک ارشد بولا ”میرا جی چاہتا ہے کہ ان حسین عورتوں کو ان بد معاشوں اور درندوں کی کچھار میں جانے سے روک لوں وہاں تین بھوت ان کے منتظر ہیں جومل کر ان کی عزت لوٹ لیں گے۔صابو توایک چڑیل ہے جو معصوم عورتوں کو ان درندوںکے پاس ورغلا کر اورسبز باغ دکھا کر لے جاتی ہے ۔ وہاں ان کو دن کو تارے نظر آئیں گے اور چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا ۔جب یہ واپس آئیں گی تو ان کے چہرے کی سب چمک ماند پڑ چکی ہو گیاور یہ اپنی قسمت کو کوس رہی ہوں گی ۔“

” جوخو دڈوبناچاہے اسے کیسے بچایا جا سکتا ہے ؟“میں نے کہا ”تم نے دیکھا کہ نہیں وہ حسین عورتیں کیسے اٹھلاتی ،بل کھاتی اور خراماں خراماں چلی جا رہی تھیں ۔ان کواچھی طرح معلوم تھا کہ وہ ان عاملوں کے پاس جا رہی ہیں جو منشیات کے عادی اور جنسی جنونی ہیں۔انھیں وہاں سے گوہر مراد ملنے کی توقع ہے جہاں کے مکین خود نا مراد ہیں ۔گائتری کے ساتھ بھی تو یہی المیہ ہوا تھا ۔“

” تف ہے ایسی زندگی پر !کس قدر ڈھٹائی کے ساتھ یہ عورتیں منشیات فروشوں اور جنسی جنونی لوگوں کی جانب بڑھ رہی ہیں “ ارشد نے آہ بھر کر کہا ”گائتری نے ہمیشہ اپنی عزت کی حفاظت کی ۔اسے دھوکے سے یہاں سے لے جایا گیا اور اسے درندوں کے حوالے کر دیا گیا۔ایک نہ ایک دن میری گائتری ضرور واپس آ جائے گی ۔“

”ہو سکتا ہے یہ پری چہرہ عورتیں بھی فریب خوردہ ہوں “میں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ”یہ بازی گر کھلا دھوکا دیتے ہیں۔“

” ایک گھنٹے کے بعد ان کا حال دیکھنا “ارشد نے کہا ”یہ عورتیں جن کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح تھے اور زلفیں کالے ناگ کی طرح بل کھا رہی تھیں اور جو اٹھلااٹھلا کر چل رہی تھیں جب واپس آئیں گی تو سب کی سانس پھول چکی ہو گی اور ان کے لیے دو قدم بھی چلنا دشوار ہو گا ۔میں دس سال سے اسی قسم کے درد ناک مناظر دیکھ رہا ہوں ۔ان کے ساتھ آنے ولا وہ خضاب آلود بڈھا کھوسٹ اور بے حس سر پرست جو اس وقت صابو کے کمرے میں مردوں کے سا تھ شرط باندھ کر خراٹے لے رہا ہے ،کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا ۔جنگل کے یہ بھوت تو عورتوں کا بھبھوت بنا دیتے ہیں ۔“

”یہ تو بتاﺅ کہ اس جنگل میں حسین عورتوں کا کام کیا ہے ؟“میں نے ارشد کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا” ان کے ساتھ آنے والے مردانھیں اکیلا ا س ویرانے میںبھوتوں کے مسکن کی جانب کیوں دھکیل دیتے ہیں ؟ مجھے تو یہ کوئی بہت بڑا مافیا لگتا ہے جو اندھا دھند ناجائزطریقوں سے رقم بٹورنے اور کالا دھن کمانے میں ملوث ہے ۔“

” یہی سچ ہے “ ارشد نے آہ بھر کر کہا”یہ مافیا حسین عورتوں کو منشیات فروشی اور جسم فروشی کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ان کا جال بڑے شہروں تک پھیلا ہوا ہے ۔اس جنگل میں منشیات کی تیاری کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے ۔یہ متعلقہ اداروں کو بھتہ دیتے ہیں اور کوئی ان پر گرفت نہیں کرتا۔“

ارشد اپنے گھر چلا گیا اور میںدل برداشتہ ہو کر اپنے کمرے میں آکر سو گیا ۔جب آنکھ کھلی تو دن ڈھل چکا تھا لیکن ذہن ابھی تک سوچ کے سفر میں تھا ۔میں نے نماز کی تیاری کی ۔ ظہر کی نمازپڑھنے کے بعد میںاپنے کمرے سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہمدم دیرینہ صابر کوہاٹی میرے رو بہ رو کھڑے مسکرا رہے تھے ۔ان کی غیر متوقع آمد پر میں چونک اٹھا ۔انھوں نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا اور بولے :” تمہارے مسئلے کا حل تلاش کرنے آیا ہوں ۔میرے ساتھ شہر کے چھ خواجہ سرا ہیں جو رقص ،ناز و ادا ،حسن و جمال میں اپناثانی نہیں رکھتے ۔ان کی جسمانی ساخت اتنی قوی ہے کہ انھیں کوئی پچھاڑنہیںسکتا ۔اس کے علاوہ انھوں نے جوڈو کراٹے میں بے پناہ مہارت حاصل کر رکھی ہے ۔منشیا ت کے عادی جنسی جنونی ان کے سامنے چلو میں الو بن جاتے ہیں اور ان کے سامنے دم ہلانے لگتے ہیں ۔وہ عامل کے ڈیرے کی طرف گئے ہیں ۔صابو بھی ان کے ساتھ گئی ہے ،ابھی وہ آتے ہی ہوں گے “

میں تمام معاملے کی تہہ تک پہنچ گیااور صابر کوہاٹی کی فہم و فراست پر دنگ رہ گیا ۔ایسے لوگ اپنی جان پر کھیل کر مجبوروں اور مظلوموں کے لیے آسانیاں تلاش کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا وجو د ایک ایسی نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے ۔میری آنکھوں میں ممنونیت کی نمی تھی اور میں اپنے اس محسن کی جانب دیکھ رہا تھا جس کی بے لوث محبت ،خلوص اوردرد مندی کا ایک عالم معترف ہے ۔دل میں ملال تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کے بارے میں ارشد اور میں جس رائے کا اظہار کر رہے تھے وہ ہماری کوتاہ اندیشی تھی۔کچھ دیر بعد ارشد بھی گھومتا ہوا اس طر ف آ نکلا ۔وہ ابھی تک تمام صورت حال سے لاعلم تھا ۔وہ ان چھ عورتوں کے بارے میں فکر مند تھا جو جعلی عاملوں کے پاس گئی تھیں ۔

اچانک ارشد نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا ”وہ دیکھو !سامنے درختوں کے جھنڈ سے سات عورتیں خراماں خراماں چلتی آ رہی ہیں ۔“

اب وہ اورقریب آچکی تھیں ۔ ان سب کے چہرے خوشی سے کھل رہے تھے اور وہ سب کی سب قہقہے لگا رہی تھیں ۔ایک عورت نے چادر سے منہ کو ڈھانپ رکھا تھا ۔ایک بات حیران کن تھی کہ جاتے وقت تو ساتویں عورت صابوتھی لیکن واپسی پر صابو کی جگہ ایک اور دھان پان لڑکی نظر آرہی تھی ،صابو غائب تھی ۔“

”آگئی ۔۔۔۔۔آگئی “ارشد خوشی سے چلایا ”میری گائتری گھر واپس آ گئی ۔وہ ان چھ عورتوں کے ہمراہ چادر لپیٹ کر آ رہی ہے ۔“

اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہو چکی تھیں ۔سارا کھیل ختم ہو چکا تھا ۔صابر کوہاٹی کی ٹیم اپنی کامیابی پر احساس تفاخر محسوس کر رہی تھی اور صابر کو ہاٹی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ۔

چھ خواجہ سرا اب ہمارے سامنے کھڑے تھے ۔ گائتری ارشد سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی ۔
” بھوتوں اور چڑیل کا کیا ہوا ؟“ صابر کوہاٹی نے پو چھا ”یہ مہم کیسی رہی ؟“

”ہمیں دیکھ کر سب جنسی جنونی ہوش و حواس کھو بیٹھے وہ شراب میں دھت تھے ۔وہ تینوں آگے بڑھے اور ہمیں اپنی باہوں میں سمیٹنے کی کوشش کی “ایک خواجہ سر ا نے کہا ”وہ بہت بزدل ،بد مست اور بے خبر تھے ۔انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہ تھا کہ کوئی عورت ان سے گتھم گتھا بھی ہو سکتی ہے ۔“

سب سے حسین اور تنو مند خواجہ سر ا نے کہا ”کالا بھوت تو گاﺅں کا مکھیا تھااور باقی د واس کے مزارع تھے ۔ان تینوں کو فلائنگ کک لگاکر اور کلائی کے وار سے ادھ موا کر دیا اور اس کے بعد ان کے گلے گھونٹ کر انھیں ہلاک کر دیا گیا اور انھیں دریائے جہلم میںپھینک دیا ہے ۔صابو کی لاش وہیں پڑی تھی کہ اس پرگدھ ٹوٹ پڑے ۔“

سب لوگ خوش تھے سب بھوت اور چڑیل اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ مسافر اپنی اپنی منزل کی جانب چل پڑے ۔ویگن کچی سڑک پر گرد اڑاتی دور نکل گئی گاﺅں کے لوگوں کو اس تمام واقعے کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ۔رات ہو گئی اس کے بعد نئی صبح ہوئی تو سب حیرت زدہ تھے کہ پچھلی رات کوئی پر اسرار سایہ یابھوت دکھائی نہیں دیا۔دوپہر کو تنورپرروٹیا ںلگوانے والی عورتیں گائتری کو دیکھ کر خوش تھیں۔
دائی نے پوچھا ”گائتری تمھیں تو چڑیل اور بھوت اٹھا کر لے گئے تھے تم ان کی قید سے کیسے بچ نکلی ہو؟“

” بچانے والی ہستی ہر چیز پر غالب اور بالا دست ہے “ گائتری نے کہا ” ڈراونی شکلیں ،چڑیل اور بھوت اب کبھی نظر نہیں آئیں گے ۔سب پر اسرار صورتیں تباہ و برباد ہوچکی ہیں ۔ظلم کا دور اب ختم ہو چکا ہے ۔کل سے ہر کوئی جہاں چاہے جا سکتا ہے کوئی بھوت اب روشنیوں کی راہ میں دیوار نہیں بن سکے گا ۔“
اس تبدیلی کے بعد پورے گاﺅں کا ماحول ہی بد ل گیا ۔تتلیاں پھر سے پھولوں پر بیٹھنے لگیں ،چڑیوں ،فاختاﺅں اور عنادل نے خوشی سے چہچہا کر ہرسو دھوم مچا دی ۔لمبی پرواز کر جانے والے پرندے پھر سے لوٹ کر آنے لگے ۔ارشد اور گائتری نے زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز کر دیا اب وہ اس تمام کرب ناک واقعے کو ایک بھیانک خواب سمجھتے ہیں۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 611452 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.