تبدیلی

شہر کے مرکز سے دور گندے نالے کے کنارے نئی تعمیر ہونے والی رائس فیکٹری کے مالکان کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو بے غیرتی ،بے ضمیری ،بے حیا ئی اور انسان دشمنی میں اپنی مثال آپ اور رسوائے زمانہ ہو۔وہ فیکٹری کے مالکان کے لیے رسد کا انتظام بھی کرے اور ان کے لیے پریوں کا اکھاڑہ بھی سجائے جس میں مالکان تو راجہ اندر کی صورت میں موجود ہوں مگر فیکٹری کا منیجر صرف جال لگا کر حسین و جمیل پریوں کو زیر دام لا نے کی ذمہ داری سنبھالے ۔فیکٹری کے مالک اپنے کالے دھن کو اجلا کرنے کی فکر میں ہلکان ہو رہے تھے ۔وہ ایک ایسے کو ر مغز ،بے بصر ،کینہ پرور ،حاسد اور وضیع درندے کو اس فیکٹری کاکرتا دھرتا بنانا چاہتے تھے جو نہ صرف تھالی کا بینگن ہوبل کہ چکنا گھڑا بھی ثابت ہو۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایسے جوفروش گندم نما ،بگلا بھگت درندے کو دھونڈناکون سا مشکل کام تھا ،ایسے ایک مشکوک نسب کے متفنی کو دھونڈنے نکلو راستے میںاجلاف و ارزال اور سفہا شکاری کتوں کی صورت میں جھپٹتے نظر آئیں گے جو مظلوم انسانوں کو نوچنے میں لگے ہیں ۔چند روز بعد فیکٹری کے مالکان گھاسو مل کو ڈھونڈ لائے ۔اس سے قبل وہ وانی رائس ملز میں اسی قسم کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے ۔اس قماش کے ننگ انسانیت مسخرے خون آشام درندوں کو ہمیشہ بہت پسند آتے ہیں ۔یہ شخص گرگ آشتی کی مثال تھا ۔جس شاخ پہ بیٹھتا اسی کو کاٹنے کی ٹھان لیتا ،جس تھالی میں کھاتا اسی میں چھید کرنا اس کا وتیرہ تھا ،جس درخت کے سائے میں بیٹھتا اسی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہو جاتا ۔

سال2002کی ایک سرد شام تھی جب گھاسو مل نے فیکٹری میں اپنا سبز قدم رکھا ۔نظام ثقہ اپنے پورے کر و فر کے ساتھ اپنے دفتر میں جا گھسا ۔ بلند پروا ز عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں آچکے تھے ۔درو دیوار پر حسرت و یاس کے گہرے سائے چھا گئے اور ہر طرف ذلت ،تخریب ،نحوست ،بے برکتی ،بے توفیقی ،بے ایمانی ،بے حیائی اور بے غیرتی کے کتبے آویزاں ہو گئے ۔فیکٹری کے ایک پارک میں دو بوڑھے مالی اس نئی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہے تھے ۔نورے نے گامے سے مخاطب ہو کر کہا:
” سنا بھائی گامے !نئے منیجر کو آئے ایک سال گزر گیا ہے اب کیسے حالات ہیں ؟ اس برس میں کوئی بھی تو بھلائی کی صور ت دکھائی نہیں دی ۔کیا کوئی نئی تبدیلی آئے گی یا پہلے کی طرح لوٹ مارکابازار گرم رہے گا ؟سنا ہے نیا منیجر مل مالک کے چربیلے کتوں کے لیے بھی یہاں سے وسائل مہیا کرے گا ۔یہاں کے بے بس مزدوروں کے چہرے تو پیلے ہیں ۔اب کیا ہو گا ؟“

” تبدیلی تو صاف دکھائی دے رہی ہے ۔“ گامے نے کھانستے ہوئے کہا ” اس فیکٹری کے ہر درخت کی ہر شاخ پہ الو نے بسیرا کر لیا ہے ۔جس طرف دیکھو کوے ،گدھ ،چیل اور بوم کے غول دکھائی دیتے ہیں ۔حالات اس قدر ہو لناک صورت اختیار کر تے چلے جا رہے ہیں کہ زمین بھی دل کے مانند دھڑکتی محسوس ہو تی ہے ۔ نئے منیجر کو ابلیس نژاد سمجھاجاتا ہے لوگ اس پر تین حرف بھیجتے ہیں اور کئی لوگ تو اسے دیکھتے ہی لاحول کا ورد شروع کر دیتے ہیں ۔“

”سچ کہتے ہو بھائی نورے !“ گامے نے آہ بھر کر کہا ”ساری دنیا بدل جائے ہم غم زدہ لوگوں کا حال کبھی نہیں بدل سکتا۔ہم فقیر لوگ ہمیشہ سے حالات کی چکی میں پستے چلے آرہے ہیں ۔جب کہ بے ضمیروں کے ہمیشہ وارے نیارے رہتے ہیں ۔یہ جو منحوس پرندے ہر طرف منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں یہ تو کسی آفت نا گہانی کا اشارہ ہے ۔اس نئے منیجر کے آنے کے بعد تو دم گھٹنے لگا ہے ۔“

” ایک تبدیلی ایسی ہے جو مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے ۔“نورے نے سر کھجاتے ہوئے کہا ”نئے منیجر نے جو عملہ بھرتی کیا ہے اس میں ایک ہی میرٹ رکھا ہے کہ جو بھی حسین و جمیل عورتیں یہاں کام کرنا چاہیں وہ سب کی سب بھرتی کر لی جائیں ۔اول تو مرد ملازم رکھے ہی نہ جائیں اور اگر کوئی مجبوری کی وجہ سے رکھنا پڑ جائے تو اسے بھی جلد از جلد گھر کا رستہ دکھایا جائے ۔اس پر عرصہ ءحیات تنگ کر دیا جائے تا کہ و ہ حالات سے عاجز آ کر اپنا دامن جھاڑ کر رخصت ہو جائے ۔“

” یہ تو بہت برا شگون ہے ۔“گامے نے اپنے آنسو پو نچھتے ہوئے کہا ”مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہر فرعون ،نمرود اور ہلاکو خان اپنی موت کو کیوں فراموش کر دیتا ہے ۔مال بٹورنے والے یہ بات کیوں نہیں یاد رکھتے کہ کفن میں تو کوئی جیب ہی نہیں ہوتی ۔یہاں کا سب ٹھاٹ یہیں پڑا رہ جاتا ہے اور ہر بنجارہ خالی ہاتھ یہاں سے چپکے سے اپنی آخری منزل کی جانب چل پڑتا ہے “

گھاسو مل نے فیکٹری کی ملازم خواتیںکو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔کئی مجبور ،بے بس اور مظلوم عورتیں اپنی متاع عصمت اس درندے کے ہاتھوں گنوا کر بے نیل مرام یہاں سے گھروں کو لوٹ جاتیں اور ان کی د اد رسی کہیں سے نہ ہو پاتی ۔ان کی فریاد صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ۔ اس فرعون کے ہاتھوں جن خواتین کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح شام کی محنت اکارت چلی جاتی وہ ہاتھ اٹھا کر اس کی تباہی کے لیے خا لق کائنات کے حضورالتجا کرتیں کہ اب اس فرعون کی مدت مزید نہ بڑھائی جائے ۔ گھاسو مل کے شب و روز عیاشی ،بد معاشی ،مے نوشی ،حرام خوری اور رنگ رلیوں میں بسر ہوتے تھے ۔بھتہ خوری ،دہشت گردی اور خواتین کی آبرو ریزی کے شیطانی کاموں میں ملوث ہو کر اس نے اپنی اوقات کو بھلا دیا۔اس کی محفل عشرت میں سارے مست بند قبا سے بے نیا ز ہو کر داد عیش دیتے اور شرم و حیا کو بارہ پتھر کر دیا جاتا ۔اس ایک شخص کی وجہ سے پورے کا پورا آوا ہی خراب ہو چکا تھا ۔بہت سی کالی بھیڑیں ،گندی مچھلیاں ،سفید کوے اور گندے انڈے اس کے گرد جمع تھے جن کی وجہ سے یہ اپنی فضا میں مست پھرتا تھا اور کسی مظلوم کی چشم تر کی جانب نگاہ کرنے کی اسے بالکل فرصت ہی نہ تھی ۔سب سے بڑھ کر طرفہ تماشا یہ تھاکہ ایک رذیل طوائف اس کے اعصاب پر سوار تھی وہ اس بد اندیش جنسی جنونی کو چلو میں الو بنا کر اپنی انگلیوں پر نچاتی تھی ۔فیکٹری کے تمام وسائل کو انھوں نے شیر مادر سمجھ رکھا تھا ۔لوگ اس طوائف کو ڈاکو حسینہ کے نام سے پکارتے تھے ۔یہ ڈاکو حسینہ رات کی تاریکی میں گھروں میں گھس جاتی اور خواتین کو دولت اور زرو مال سے محروم کر دیتی ۔یہ ڈاکو حسینہ گھاسو مل کی داشتہ تھی اور اس نے پوری فیکٹری میں جنگل کا قانون نافذ کر رکھا تھا ۔ورکنگ ویمن ہاسٹل میں ہونے والی چوری کی تمام وارداتوں میں یہی ڈھڈو ملوث تھی ۔ااس نے خواتین کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا تھا ۔منشیات فروشی اور خرچی کے ذریعے اس نے بہت مال کمایا۔شہر کے تمام جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ تھا۔

ڈاکو حسینہ اور گھاسو مل نے مجبوروں پر ظلم و ستم ڈھانے کی انتہا کر دی ۔ایک رات ڈاکو حسینہ نے ورکنگ ویمن ہاسٹل کے ایک کمرے میں مقیم ایک نو جوان عورت کے کمرے میں دھاا بول دیا ۔نقاب پوش حسینہ نے پستول نکا کر کہا:” خبردار اگر حرکت کی یا کوئی آواز نکال کر چیخ پکار کی اور کسی کو مدد کے لیے پکارا۔یہاں کوئی تمہاری مدد کو نہیں آ سکتا۔کس کی مجال ہے جوڈاکو حسینہ کا مقابلہ کرے ؟۔یہ جو تم نے سونے کی آٹھ چوڑیاں ہاتھوں میں پہن رکھی ہیں اور کانوں میں جو سونے کی بالیاں سجا رکھی ہیں وہ اتار کر میرے حوالے کر دو ۔اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمھیں گولی مار دوں گی اور یہ بھی سن لو اگر تمھارے پاس کوئی نقد رقم ہے تو اپنی تمام رقم بھی نکال کر مجھے دے دو ۔“

نوجوان اور تنومند لڑکی نے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے کہا: ”یہ تو نقلی زیور ہیں ۔میرے اصلی زیور تو میری الماری میں پڑے ہیں ۔تم آرام سے بیٹھو میں وہ سب خالص سونے کے زیور تمھارے حوالے کر تی ہوں ۔میرے پاس بیس ہزار روپے نقد بھی ہیں جو میں نے کل اپنے کالج کی فیس جمع کرانی ہے ۔“

ڈاکو حسینہ نے یہ سن کر اطمینا ن کا سانس لیا وہ یہ جان گئی کہ اس نو جوان لڑکی سے زر و مال ہتھیانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی ۔اس نے خود ہی اپنے پاس موجو د نقد رقم کاراز بھی اگل دیا ہے ۔یہ سوچا اور پستول اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال کر کہا ” کیسی فیس اور کیسی پڑھائی ۔آج میں تم کو ایسا سبق پڑھاﺅں گی کہ تمھیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا ۔اب جلدی کرو مجھے تمام نقدی اور خالص سونے کے زیورات دے دو ۔میں نے ابھی اور کمروں میں بھی جانا ہے َ۔آجاتی ہیں بن سنور کر اب معلوم ہوا کہ یہاں کیسے کیسے طاقت ور ڈاکوپھرتے ہیںجو حسن اور آتش سے لیس ہیں۔“

نوجوان لڑکی الماری کی طرف بڑھی وہاں سے کچھ نکالا اور ڈاکو حسینہ کی طرف بڑھی اور ایک جست لگا کر اسے دبوچ لیا،اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس کے کوٹ کی جیب سے پستول نکا ل کر اس پر تان لیا اور ٹھیک نشانہ لگا یا ۔گولیاں ڈاکو حسینہ کی کھو پڑی کو چیرتی ہوئی نکل گئیں اور وہ اسی جگہ ڈھیر ہوگئی ۔اس کے بعد چاقو سے اس کی ناک اور کان کاٹ کر باہر گندے نالے میں پھینک دئیے ۔اس مکار طوائف کی لاش کو گھسیٹ کر باہر گلی میں پھینک دیا جسے آوارہ کتے ساری رات بھنبھوڑتے رہے ۔ڈاکو حسینہ کی ہلاکت پر خواتین نے سکھ کا سانس لیا۔گھاسو مل کے لیے یہ واقعہ بہت پریشان کن تھا لیکن اس مکار نے ڈاکو حسینہ سے لا تعلقی کا اعلان کر دیاتا کہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اس کا نام نہ آئے ۔

نورے اور گامے کی آنکھیں اس وقت ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں جب وہ اپنے ان ساتھیوں کو یاد کرتے جنھیں گھاسو مل نے اپنی شقاوت آمیز نا انصافیوں سے جیتے جی ما ر ڈالا ۔کئی بے گناہ تو اپنی زندگی کی بازی ہار گئے اور کئی گھر بے چراغ ہوگئے ۔

”تمھیں یاد ہے وہ رات جب ایک سال قبل فیکٹری میں ہڑتال ہوئی تھی اور مزدوروں نے گھاسو کے دفتر کاگھیراﺅ کر لیا تھا“نورے نے آہ بھر کر کہا”اس رات گھاسو مل نے اجرتی دہشت گردوں ۔پیشہ ور بد معاشوں اور کرائے کے قاتلوں کو بلایا اور اندھا دھند فائرنگ کرائی گئی جس سے بیس مزدور لقمہءاجل بن گئے ۔ان کی لاشیں بھی غائب کر دی گئیں ۔“

”ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اس درندے نے مظلوم مزدوروںکے خون سے ہولی کھیلی تھی ۔“گامے نے روتے ہوئے کہا”لوگ کہتے ہیں کہ اس فرعون کو لاٹ صاحب کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔اگلے دن یہ خونخوار بھیڑیا دندناتا پھرتا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ۔کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ۔“
”ہر فرعون کو یہی زعم ہوتا ہے کہ اس کی طاقت اور ہیبت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔“نورے نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ”گھاسو مل عبرت کی مثال ضرور بنے گا ۔دارا ، سکندر اور شداد کی شان اب کہاں ہے ؟ایک وقت آئے گاجب یہ ابلیس اپنے عبرت ناک انجام کو ضرور پہنچے گا ۔“دونوں بوڑھے ملازم اپنے دل کا بوجھ اتارنے کے لیے تزکیہ نفس کرتے رہتے تھے ۔وہ جانتے تھے کہ خالق کائنات کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر کا وہاں کوئی گماں نہیں کر سکتا ۔ طاقت پر گھمنڈ کرنے والے نامیوں کے نشاں تک باقی نہیں رہتے ۔خالق کی منشا ہو تو سینہءصحرا سے حباب اٹھ سکتا ہے اور رود نیل میں فرعون غرقاب ہو سکتا ہے ۔وہ نار نمرود کو گلزار میں بدل کر اپنے خلیل کو بچا سکتا ہے ۔تبدیلی کے یہ نشان دنیا والوں کے لیے مقام عبرت ہیں ۔

سیل زماں کے تند و تیز تھپیڑے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں ۔جاہ و منصب ،قوت و ہیبت ،مال و زر ،سطوت و حشمت اور کر وفر سب کچھ سیل زماں کی مہیب موجوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے ۔اس کے بعد ان تمام امور کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں اور انسان بے بسی کے عالم میں ان کی نوحہ خوانی کے لیے رہ جاتا ہے ۔وقت جس برق رفتاری سے گزر جاتا ہے اس کا کسی کو مطلق احساس نہیں ہوتا ۔جب قوت کا نشہ اترتا ہے اور ہاتھ سے دولت چلی جاتی ہے تو انسان ہاتھ ملتا رہ جاتاہے۔گھاسو مل نے جب فیکٹری کی باگ ڈور سنبھلی تو تو وہ فرعون بن بیٹھا۔اس نے مجبوروں ،مظلوموں اور لاچار ملازموں کے چام کے دام چلائے ۔اس نے فیکٹری کو عقوبت خانے ،چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں بدل کر اسے پاتال کی پستی تک پہنچا دیا ۔جہاں پہلے سر و صنوبر کی فراوانی ہوا کرتی تھی اب وہاں زقوم ،حنظل ،پوہلی ،کریروں ،جنڈ اور بھکڑا کے جھنڈ دکھائی دیتے تھے۔رہائشی کالونی ویران ہو چکی تھی۔اس کالونی کے غیرت مند مکین اپنی عزت اور جان بچا کر کہیں دور چلے گئے تھے ۔جن رہائشی کوار ٹروں میں سر شام چراغ فروزاں ہو جاتے تھے اب وہاں چراغ غول کے سو ا کچھ نہ تھا ۔ان ویران کمروں میں بڑے بڑے چمگادڑ شہتیروں سے الٹے لٹکے رہتے تھے ۔ فیکٹر ی کے باغیچوں کے سب درخت سوکھ گئے ان ٹنڈ منڈ درختوں کو ایندھن کے لیے فروخت کر دیا گیا ۔قاتل تیشوں اور آروں نے ان سوکھے اشجار کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا ۔گھاسو مل نے نادر شاہی حکم دیا کہ ان تمام سوکھے درختوں پر منحوس پرندوں کے جو گھونسلے ہیں انھیں آگ لگا دی جائے ۔ساتا روہن نے اس حکم کی تعمیل کی جس کے نتیجے میں بہت سے طیور اس آگ کی زد میںآکر راکھ کا ڈھیر بن گئے ۔آگ سے بچ جانے والے طیور نے اسی عمارت کی منڈیروں پر مستقل ڈیرے ڈال لیے دیکھنے والوں کو یہ گمان گزر تا تھا کہ یہ طیور اپنے بے گناہ ساتھی پرندوں کے بے بسی کے عالم میںجل کر ہلاک ہو جانے پر احتجاج کر رہے ہیں ۔رات کی تاریک میں کئی پر اسرار سائے دکھائی دیتے ایسا محسوس ہوتا کہ یہ پوری فیکٹری آسیب زدہ ہے اور کئی بد روحیں یہاں موجود ہیں ۔بعض لوگوں کی یہ رائے تھی کہ جو لوگ گھاسو مل کے مظالم کی وجہ سے عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار گئے ان کی روحیں اب بھی یہاں انصاف طلب پھرتی ہیں اور اس وقت تک یہاں رہیں گی جب تک گھاسو مل اور اس کے ساتا روہن کیفر کردار کو نہیں پہنچ جاتے ۔

عمارت کے در و بام پر بوم و شپر اور زاغ و زغن اور گدھ بڑی تعداد میں منڈلاتے تو دیکھنے والے ڈر جاتے کہ جلد ہی کوئی سانحہ رونما ہونے والا ہے ۔ایک دن گھاسو مل ایک فٹ پاتھ پر سے گزر رہا تھا کہ سامنے والے بلند کمروں کی منڈیروں پر بیٹھی چیلیں اچانک اڑیں اور گھاسو مل کی گنجی کھوپڑی پر جھپٹ کر چونچ اور پنجوں سے حملہ کر دیا ۔یہ چیلیں اپنی تیز چونچ سے اس کے سر ،چہرے اور گردن پر جھپٹ پڑیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس فرعون کو لہو لہان کر دیا ۔گھاسو مل کو گہرے زخم آئے تھے ۔اسے اسی وقت ہنگامی طبی امداد کے لیے نزدیک شفاخانے لے جایا گیا ۔سب معالج اس بات پر متفق تھے کہ یہ موذی فطرت
کی تعزیروں کی زد میں آگیاہے ا س کا جانا ٹھہر گیاہے یہ اب صبح گیا کہ شام گیا ۔

گھاسو مل دو ہفتے ز یر علاج رہا ۔اس کے بعد جب یہ فیکٹری میں واپس پہنچا تو اس نے سفید لباس پہن رکھا تھااس بگلا بھگت کی یہ ہیت کذائی دیکھ کر سب لوگ کسی نا معلوم اندیشے میں مبتلا ہو گئے ۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا کہ عمارت کی منڈیروں پر بڑی تعداد میں زاغ وزغن بدستور موجود ہیں ۔اس نا ہنجار کو دیکھتے ہی ان تمام طیور نے ایک نیچی اڑان بھری اور اس پراپنا فضلہ اور بیٹ اس طرح گرائی جیسے ہوائی حملے میں جنگی طیارے دشمن پر جھپٹتے ہیں ۔یہ بد نہاد درندہ ان طیور کے ضماد میں لت پت ہو گیا اس نے اپنے محافظ دستے کو اسی وقت فائرنگ کا حکم دیا لیکن پرندے تو پلک جھپکتے میںلمبی اڑان بھر چکے تھے وہ کس پر فائرنگ کرتے ۔یہ طائر توابابیل کے طیور جیسا کردار ادا کر رہے تھے ۔گھاسو مل اس اچانک حملے سے بو کھلا گیا اس کے جسم سے عفونت اورسڑاند کے بھبوکے نکل رہے تھے۔اس کے حفاظتی عملے کو شدیدالٹیاں آ رہی تھیں ۔سب نے اپنی ناک پر رومال رکھ لیے اور اس بد بو سے بچنے کے لیے دور چلے گئے ۔گھاسو مل اب اکیلا کھڑا تھا۔اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اس کی آنکھیں بوٹی کی طرح سرخ ہو رہی تھیں ۔اب اس نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی کو شش میں اپنا پستول نکالااور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔ سب لوگوں نے بھاگ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی ۔

گھاسو مل اپنا ذہنی توازن کو چکا تھا ۔وہ اول فول بکتا فائرنگ کرتا ہر طرف دوڑتا پھرتا تھا ۔سب لوگ چھپ گئے تھے ۔اچانک گھاسو مل کا پاﺅں پھسلا اوروہ منہ کے بل ایک گٹر میں جاگرا ۔اس کے منہ ،ناک، کانوں اور آنکھوں میں بد رو کا متعفن اور آلودہ پانی بھر گیا ۔اس کی چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی وہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈ ا ہو گیا ۔نا معلوم کس جانب سے سیکڑوں کی تعداد میں گدھ وہاں آگئے جنھوں نے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لی اور اڑ گئے ۔گھاسو مل کا ڈھانچہ گڑ کے باہر دو دن پڑا رہا ۔اسے خشک پتوں سے ڈھانپ دیا گیا ۔رنگو خاکروب نے تیسرے دن خشک پتوں کے اس بہت بڑے ڈھیر کو جس کے نیچے گھاسو مل کاڈھانچہ پڑا تھا اسے آگ لگا دی ۔آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے اور تمام ملازمین آپس میں سر گوشیوں میںمصروف تھے۔ سب کے چہرے کھل اٹھے تھے ۔اچانک نورے نے کہا :
”وہ دیکھو سامنے ایک کو نپل پھوٹ رہی ہے ایک سوکھے تنے سے جہاں سے شاخ ٹوٹی تھی وہیں سے نئی شاخ پھوٹی ہے اور ہریالی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں ۔“

” ہاں !اور یہ بھی دیکھو کمرے کی منڈیر پر طائران خوش نوا پھر لوٹ کر آگئے ہیں۔گدھ ،بوم اور زاغ و زغن کاکہیں اتا پتا اب معلوم نہیں ۔بلبل کو چہچہاتے ہوئے سنو “گامے نے خوشی سے کہا سال2006 کاآغاز ہو چکا ہے ۔عرصے کے بعد یہ پرندے لو ٹ کر آئے ہیں ۔حبس کے ماحول میں تو یہاں سے خوش الحان پرندے بھی کوچ کر گئے تھے ۔اور اب تو رات کے وقت پر اسرار سائے بھی دکھائی نہیں دیتے ۔نہ کوئی بھوت رہا اور نہ ہی کسی چڑیل کا خوف اب باقی ہے ۔ایک بھیانک دور اپنے انجام پہنچا۔نظام کہنہ کی عمارت اب دھڑام سے زمیں بوس ہو چکی ہے۔کالے دھن والوں کے کالے کرتوت سب جان گئے ہیں ۔گھاسو مل اور ڈاکو حسینہ کے گھناﺅنے کردار کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔مجبور نے صعوبتوں کا جو سفر طے کیاہے وہ اب کسی منزل تک پہنچ کر ہی دم لیں گے ۔“

”اب حقیقی تبدیلی سامنے آئے گی ۔ظلم کا جھنڈا ہمیشہ کے لیے سر نگوں ہو چکا ہے “نورے نے کہا’ ’اب تمام فرعون فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ کر اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں ۔“

گامے نے کہا ”ہاں اگر خنجر کی زباں چپ بھی رہے تو آستین کا لہو پکار اٹھتا ہے ۔مظلوم کا خون ہمیشہ تبدیلی لاتا ہے۔یہ خون جبر کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔اسی کا نام تو مکافات عمل ہے اور اس کے نتیجے میں جو تبدیلی رونما ہوتی ہے وہ دائمی ہوتی ہے ۔“
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 611361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.