زرعی قوانین کی منسوخی کے بعد دفع ۳۷۰ کی بحالی کا مطالبہ

زرعی قوانین کی واپسی کے بعد موجودہ سرکار کے سارے متنازع فیصلوں پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ان میں سے ایک کشمیر میں دفع 370 کی منسوخی بھی ہے۔ اس بابت محبوبہ مفتی نے اسے بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا جو توقع کے مطابق تھا مگر بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ کے جنرل سکریٹری ( تنظیمی) اشوک کول سے جب پوچھا گیا تو وہ بولے’’بی جے پی 1953 سے دفعہ 370 کی تنسیخ کے حق میں تھی اور آگے بھی رہے گی تاہم اس کے متعلق عدالت عظمیٰ کی طرف سے جو فیصلہ آئے گا بی جے پی اس کی تعمیل کرے گی‘‘۔اس بابت عدالت کا فیصلہ کیا آئے گا یہ کہا نہیں جاسکتا لیکن اگر عدالت دفع 370 کی منسوخی کو خلاف آئین قرار دے کر کالعدم ٹھہراتی ہے تو بی جے پی اس کی تعمیل کے لیے مجبور ہوگی اور اسی کی یقین دہانی انہوں نے کرائی ہے لیکن چونکہ یہ ناک کا مسئلہ ہے اس لیے اشوک کول نے یہ بھی کہا کہ دفع370 کو واپس نہیں لایا جائے گا۔ کول نے حیدر پوورہ متنازع انکاؤنٹر کے بابت کہاکہ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں ،حکومت اس میں تفتیش کرا رہی ہے اور ملوثین کو سز املے گی۔ یہ بیان برف کے پگھلنے کا اشارہ ہے کیونکہ جموں کے ہندو بھی دفعہ 370 کی تنسیخ سے خوش نہیں ہے ۔ اقتدار کی خاطر انہیں راضی کرنے کے لیے بی جے پی اپنے تمام اصول و نظریات کی بھینٹ چڑھا سکتی ہے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے پچھلے ماہ کشمیر کا دورہ کرکے اعلان کیا تھا کہ وادی میں امن و امان قائم ہوگیا ہے لیکن آئے دن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی حیدر پورہ جیسی خبریں ان کی تردید کردیتی ہیں۔حال میں سے سری نگر کے بوہری کدل علاقہ میں ایک عام شہری کا گولی مار کر قتل کرنے کی واردات رونما ہوئی ۔ کشمیر میں 24 گھنٹوں کے اندر دوسرا حملہ تھا ۔اس سے قبل بانڈی پورہ کے باشندے محمد ابراہیم خان کو گولی مار ی گئی تھی ۔ وہ مہاراج گنج علاقہ میں ایک کشمیری پنڈت کی دوکان پر سیلس مین کے طور پر کام کرتا تھا ۔ اس طرح وادی میں مارے جانے والے شہریوں کی کل تعداد 15 ہوگئی ہے ۔ ان شہریوں کے علاوہ ایک دن قبل کشمیر کے بٹمالو علاقہ کی ایس ڈی کالونی میں 29 سالہ پولیس کانسٹیبل توصیف کا گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ ان واقعات سے جہاں ایک طرف حفاظتی دستوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں وہیں کشمیری پنڈتوں کی وادی میں باز آبادکاری کا دعویٰ بھی کھوکھلا ہوجاتا ہے۔

وزیر داخلہ کے بعد جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جموں کا دعویٰ کیا تو امیت شاہ سے مایوس کشمیری پنڈت رہنماوں نے ان سے رجوع کیاحالانکہ موصوف کشمیر کے سارے مسائل کے لیے کانگریس کے گاندھی خاندان اور عبداللہ خاندان کے ساتھ مفتی خاندان کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ 15؍ نومبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق کشمیری پنڈتوں کےپانچ نمائندوں نے محبوبہ مفتی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور وادی میں جاری چنندہ طریقے سے قتل پر اپنی تشویش اور فکرمندی کا اظہار کیا ۔ یہ ملاقات خوش آئند ہونے کے ساتھ بی جے پی پر ان کے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ کشمیر کے مسلمان تو ویسے بھی بی جے پی پر بھروسہ نہیں کرتے اب اگر پنڈتوں کا بھی اعتماد اٹھ جائے تو اس کا بیڑہ ہی غرق ہوجائےگا۔ جموں کے ڈوگروں کی بھی وہی حالت ہے جو کشمیری پنڈتوں کی ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بعید نہیں جموں کشمیر کے اندر بھی بی جے پی کی وہی حالت ہوجائے جو مغربی بنگال میں ہوئی ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے ساتھ الحاق کرنے والی محبوبہ مفتی نے پنڈتوں کی نقل مکانی کو کشمیری مسلمانوں کا ‘نقصان‘ بتایا۔ وہ ان کی واپسی یقینی بنانا چاہتی ہیں ۔ ان کے مطابق س مقصد کے حصول کی خاطر نئی نسل پر ایک دوسرے کے قریب آنے کی ذمہ داری ہے تا کہ 1990 میں دہشت گردی ابھرنے سے پہلے کے بھائی چارے والی ماحول سازی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو برادران کی باعزت طریقہ پر واپسی کے لیے کشمیری مسلمانوں کو سخت محنت کرنی ہوگی ۔ اسی کے ساتھ محبوبہ مفتی نے عوام کو خبردار کیا کہ بی جے پی ووٹ حاصل کرنے اور ’تقسیم کرنے والی سیاست‘ کو فروغ دینے کی خاطر کشمیری پنڈتوں کے درد کو ہتھیار بناتی ہے یعنی ان کی مشکلات پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہے۔ بی جے پی کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ بولیں کہ اس سے جڑے کچھ لوگ دہلی میں اسٹوڈیو کے اندر بیٹھ کر کشمیری پنڈتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے اور زہر گھولتے ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں پر وادی میں پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان رضامندی کو روکنے کا الزام لگایا۔

محبوبہ مفتی نے جموں میں ممتاز سماجی کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری پنڈت طویل عرصہ گھروں سے دور رہنے کے بعد لوٹنا چاہتے ہیں، لیکن بی جے پی کا طریقۂ کارپنڈت اور مسلمانوں کے درمیان اور تقسیم پیدا کرنے اور زہر گھولنے کا ہے۔انہوں نے بی جے پی پر جموں و کشمیر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کا الزام لگایا۔ان کے مطابق بی جے پی حکومت ’’اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جنگ‘‘ میں مصروف ہے۔ مرکزی حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے محبوبہ مفتی نے یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی افغانستان میں تو شمولیتی حکومت اور انسانی حقوق پر نصیحت کرتی ہے مگر کشمیر کے اندر لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے پر غداری کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ یہی رویہ زعفرانیوں نے تریپورہ میں ہونے والے تشدد کے خلا ف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں بلکہ حقائق کو پیش کرنے والوں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کرکے اختیار کیا۔ محبوبہ مفتی کے مطابق بی جے پی کے نزدیک شمولیت کا مطلب اس کے خطوط پر چلنا اور اس کے ایجنڈے کی تشہیر کرناہے۔

یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی گئی جب دہلی کے اندر افغانستان کے مسئلہ پر ایک اہم بین الاقوامی اجلاس کا انعقاد ہوا اوراس میں بلند بانگ دعوے کیے گئے ۔ اس تناظر میں پی ڈی پی سربراہ نے کہا کہ ملک اور دنیا کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ کس طرح بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اکثریت پسندی کو نافذ کر رہی ہے ۔ یہ پارٹی دنیا کو جمہوریت، انسانی حقوق اور انسانی اقدار پر نصیحت کرتے ہوئے کس طرح جموں وکشمیر میں انسانی اقداراورجمہوریت کو پامال کر رہی ہے۔ وادی میں پی ڈی پی کی سب سے بڑی حریف نیشنل کانفرنس ہے لیکن اس کے رہنما اور فاروق عبداللہ کے بھائی شیخ مصطفیٰ کمال نے بھی اپنے تازہ بیان میں محبوبہ مفتی کی ہی بات کہی ۔ انہوں نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ جموں وکشمیر میں جاری نامساعد حالات ، سیاسی خلفشار اور معاشی بدحالی سے تینوں خطوں کے لوگ انتہائی رنج و اندیشہ اور بے چینی و غیر یقینیت کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ان کے مطابق 1990کی طرح کے حالات رونما پوچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے مرکز کے سخت گیر حکمران کشمیری عوام کے تئیں بے رخی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال کے بقول وادی کشمیر کو مکمل طور پر ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ خوف اور دہشت کے ماحول میں لوگ گھروں میں سہمے ہوئے ہیں۔ مرکز کے بی جے پی حکمرانوں نے ریاست کے لوگوں کو آئینی ، جمہوری اور مذہبی آزادی وصحافت سے محروم کرکے اہل کشمیر کے دلوں سے اعتماد اور بھروسہ چھین لیا ہے ۔ انہوں نے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں پارٹی کارکنان سے اپنے خطاب میں کہا کہ مرکز کے بی جے پی رہنما 370اور -A 35کے منسوخی کو مودی کا سب سے بڑا تحفہ قرار دیتے ہیں مگر نہ کشمیریوں نے اسے قبول کیا ہے اور نہ کریں گے۔ مصطفیٰ کمال نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی حل طلب ہے اور ریاست نہ بھارت میں ضم ہوئی اور نہ ہوگی۔ انہوں نے ملک کی آزادی اور سالمیت قائم رکھنے کی خاطر وقت ضائع کئے بغیر ریاستی عوام کے تمام آئینی اورجمہوری حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ مصطفیٰ کمال نے ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی اور بودھوں سے اپیل کی کہ وہ متحد ہوکر اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے کمر بستہ ہوجائیں۔ ان کے مطابق فی الحال ڈوگرہ، لداخی، کشمیری اور سکھ یک زبان ہوکر -A 35 اور دفعہ 370کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ بات اگر درست ہو تو بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس موقع پر نیشنل کانفرنس ( جموں) کے صدر ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا نے حاضرین کو ان فرقہ پرستوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی جو عوام کو مذہب اور زبان کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔

پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مرکزی سرکار کی طرف سے زرعی قوانین کی منسوخی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ جموں و کشمیر میں بھی پانچ اگست2019 سے کی جانی والی تبدیلیوں کو واپس لیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین کی منسوخی ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدام انتخابی مجبوری کے تحت اٹھایا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کو بے اختیار کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے آئین کی بے حرمتی کی گئی تاکہ ووٹروں کو خوش کیا جاسکے ۔موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں کیا۔انہوں اپنے ٹویٹ میں کہا،’’زرعی قوانین کی منسوخی اور معذرت کا فیصلہ ایک خوش آئند اقدام ہے اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ ایہ اقدام انتخابی مجبوری ہے اور انتخابات میں شکست کے خوف کے تحت اٹھایا گیا ہے ‘‘۔ان کا ٹویٹ میں مزید کہنا تھا،’’ستم ظریفی یہ ہے کہ بی جے پی کو ملک کے باقی حصوں میں ووٹوں کے لئے لوگوں کو خوش کرنا ضروری ہے لیکن کشمیریوں کو سزا دینا اور ان کی تذلیل کرنا اس کے بڑے ووٹ بینک کے لئے ضروری ہے ‘‘۔موصوفہ نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا،’’جموں وکشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اس کو بے اختیار کرنے کے لئے آئین کی بے حرمتی صرف ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے کی گئی‘‘۔ان کا مزید کہنا تھا،’’مجھے امید ہے کہ یہاں بھی اصلاحی اقدام کئے جائیں گے اور جموں و کشمیر میں پانچ اگست 2019 سے کی جارہی تبدیلیوں کو بھی واپس لیا جائے گا‘۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228989 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.