ہندچین تعلقات :ہمیں سے محبت ہمیں سے لڑائی

زرعی قوانین کی واپسی کے بعد راہل نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کو اپنی غلطی تسلیم کرنے میں تقریباً 350 دن لگے اور تب تک 700 کسان شہید ہو چکے تھے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مظالم اور ناانصافی کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر کسانوں نے اس تحریک میں فتح حاصل کی۔ حزب اختلاف کے رہنما کایہ بیان توقع کے عین مطابق تھا لیکن دوسرے دن انہوں نے ٹویٹ کردیا :’’ اب حکومت کو سرحد پر چین کے قبضے کےسچائی بھی تسلیم کرلینی چاہئے۔‘‘ یہ کہا جاسکتا ہے کہ راہل نے موقع دیکھ کر چوکا ماردیا لیکن ان سے قبل اس موضوع پر یعنی اسی گیند پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایوان بالا میں رکن سبرامنیم سوامی سکسر مار چکے ہیں۔ یہ شاٹ اتنا کس کے مارا گیا تھا کہ گیند باونڈری نہیں بلکہ اسٹیڈیم یعنی ملک کی سرحد کے باہر جاگری۔ 10 ؍ نومبرکو جب دونوں ممالک کے درمیان 14 ویں دورکی فوجی مذاکرات بھی بے نتیجہ رہی توسوامی نے لکھا ” کیا مودی سرکار کو چین سے بے عزتی کروانے کی عادت پڑ گئی ہے ، اس لئے مزے لے رہی ہے ؟ اسٹاک ہوم سنڈروم؟ اس سنڈروم میں یرغمال بنائے جانے والوں کو اپنے اغواکاروں سے محبت ہوجاتی ہے یعنی:
ہمیں سے محبت ، ہمیں سے لڑائی ، ارے مار ڈالا دہائی دہائی
ابھی ناسمجھ ہو اٹھاو نہ خنجر ، کہیں مڑ نہ جائے تمہاری کلائی

لیڈر فلم کے لیے شکیل بدایونی کا تحریر کردہ یہ نغمہ موجودہ ہند چینی تعلقات پر من و عن صادق آتا ہے ۔شایدیہی وجہ ہے کہ مودی جی اپنے دوست شی جن پنگ کو لال لال آنکھیں دکھاناتو دور ان کے خلاف لب کشائی بھی نہیں کرتے۔ایسے میں ہتھیار اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہاں آج کل ان نمائش انتخابی جلسوں میں کرتے پھرتے ہیں۔ اس دگرگوں صورتحال میں سبرامنیم سوامی کو سوال کرنا پڑتا ہے کہ چین کی طرف سے ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد1993میں ہندوستان کے کس علاقے پر باہمی اتفاق ہوا؟ وہاں بات چیت کرنے کے لئے کیا ہے ؟ ایک بار تو ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اب تک منعقد ہونے والی 14 میٹنگوں میں چینیوں کے ذریعہ ذلت کا سامان کیا جاچکاہے ؟ سبرامنیم سوامی کو وزیر خزانہ نہیں بنائے جانے کاقلق ہے۔ اس لیے اقتصادی پالیسیوں کے حوالہ سے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا جائز ہے ۔ان کے مطابق موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی ملک سے ملک کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے وہ زرعی قوانین کی واپسی پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں مگر چین سے متعلق ان کا بیان ناقابلِ یقین ہے۔

سوامی تو خیر ناراض لوگوں میں سے ہیں لیکن وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ چین نے لداخ میں معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی سرگرمیاں انجام دی ہیں جن پر ہندوستان کو اعتراض ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات خراب دور سے گزررہے ہیں کیونکہ بیجنگ نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کچھ ایسی سرگرمیوں کا ارتکاب کیا ہے جس کیلئے اس کے پاس ابھی تک "قابل اعتماد وضاحت" نہیں ہے۔جئے شنکر نے مزید کہا کہ چین کی قیادت کو جواب دینا چاہیے کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ وزیر خارجہ نے ان خیالات کا اظہار کسی نجی مجلس میں نہیں بلکہ سنگاپورکے اندر بلومبرگ نیو اکنامک فورم کی جانب سے منعقدہ ’’بڑے پیمانے پر طاقت کا مقابلہ: ایک ابھرتا ہوا ورلڈ آرڈر‘‘ کے موضوع پر ایک سمپوزیم میں کیا۔ ایک سوال کا جواب میں جے شنکر بولے "مجھے نہیں لگتا کہ چین کو اس بابت کوئی شک وشبہ ہے کہ آیا ہمارے تعلقات متاثر ہوئے ہیں، ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور کیا گڑبڑی ہوئی ہے، میں نے اپنے ہم منصب وانگ یی سے کئی بار ملاقات کی ہے۔ میں بہت واضح بات کرتا ہوں، لہٰذا صاف گوئی کی کوئی کمی نہیں ہے،اگر وہ اسے سننا چاہتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ سنیں گے۔"

مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے کشیدگی ہے۔ 15 جون 2020کو وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔ان میں ہندوستان کے20؍ اور چین کے 4؍ فوجی ہلاک ہو گئے تھے لیکن اب چین نے اروناچل پردیش میں نیا محاذ کھول دیا ہے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق چین نے ریاست اروناچل پردیش کے پاس ہندوستانی علاقے میں اپنا ایک گاؤں بسا دیا ہے۔ اس بابت وزارت خارجہ ا ور وزارت دفاع میں اختلاف ہے۔ اولا الذکر نے اسے غیر قانونی تعمیرات قرار دیا ہے جبکہ وزارت دفاع کے مطابق یہ گاؤں چین کے علاقے میں ہے۔ ماضی میں جب وادیٔ گلوان کے اندر چینی فوج نے در اندازی کی تھی تو وزیر اعظم نے اس کا انکار کردیاتھا اور پھر اوٹ پٹانگ دلائل سے حالات سنبھالے گئے ۔اس بار یہی حرکت چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت سے سرزد ہوگئی۔ انہوں اس بات کو پوری طرح مسترد کر دیا کہ چین نے بھارتی علاقے میں گاوں تعمیر کیا ہے۔ان کے مطابق اس دعویٰ میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
جنرل بپن راوت نے تو آگے بڑھ کرچین کے اقدام کا یہ جواز پیش کردیا کہ لائن آف ایکچوؤل کنٹرول پر چینی گاؤں کی تعمیرات کا مسئلہ تو درست ہے۔ جنرل راوت کے مطابق چین یہ گاؤں اس لیے تعمیر کر رہا ہے تاکہ وہ ایل اے سی پر حالیہ کشیدگی کے بعد ممکنہ طور پر اپنے شہریوں کو یا پھر مستقبل میں اپنی فوج کو، سرحدی علاقوں میں بسا سکے لیکن چینیوں کے ہندوستانی علاقے میں آ کر ایک نیا گاؤں بسانے کا نیا تنازعہ درست نہیں ہے۔ دوسری جانب پینٹاگون کی رپورٹ میں صاف طور پر کہا گیا کہ چین نے ارونا چل پردیش کی سرحد پر ہندوستان کے علاقہ میں تمام طرح کی جدید سہولیات سے آراستہ تقریباً سو مکانات پر مشتمل ایک نئی بستی بسائی ہے ۔ حالیہ برسوں میں چین سرحد پر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی لارہا ہے۔ ایسے میں جنرل راوت اگر اس سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں امریکہ کے خلاف غلط خبریں پھیلانے پر اپنا احتجاج درج کرانا چاہیے لیکن وہ جرأت تو ا بھی تک نہیں کی گئی ۔

اس کے برعکس وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی نے یہ اعلان کردیا کہ چین گزشتہ کئی برسوں سے ان سرحدی علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیاں کرتا رہتا ہے جن پر اس نے دہائیوں سے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ہندوستان نے نہ تو اپنی سرزمین پر ایسے غیر قانونی قبضے کو قبول کیا ہے اور نہ چین کے بلا جواز دعووں کو تسلیم کرتا ہے۔ یعنی بلاواسطہ یہ بات کہی گئی کہ یہ قبضہ ابھی حال میں نہیں بلکہ ماضی میں ہوا تھا ۔اس کے باوجودکیا حکومت ہندکااس طرح کے معاملات میں صرف سفارتی ذرائع سے اپنا شدید احتجاج درج کرکے سلامتی پر اثر انداز ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھنا کافی ہے؟ قومی خود مختاری، سالمیت اور علاقائی تحفظ کے لیےیہ علامتی اقدامات تو یہ پہلے بھی ہوتے رہےہیں اب مودی جی کی لال آنکھوں سے کیا فرق پڑا؟ حکومت ہند اس قبضےکو غیر قانونی سمجھتی ہے تو اسےختم کرنے لینے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے واقف کرایا جانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر اگرجنرل راوت کی بات کو درست مان لیاجائے کہ چین اپنے علاقہ میں کوئی گاوں بسایا ہے تو اس پر ہندوستانی وزارت خارجہ کو اعتراض بے محل لگتاہے؟

قومی سلامتی کے حوالے سے حکومت کی پہلے تو کئی ماہ تک خاموشی اورپھرتضاد بیانی نے صورت حال کومزید پیچیدہ کردیا ۔ اس کا فائدہ اٹھاکر حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے مودی سرکار پر چین کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا سنگین الزام لگادیا ۔ کانگریس نے وزير اعظم سے اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑکروضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کررکھا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ، "ہماری قومی سلامتی سے ناقابل معافی سمجھوتہ کیا گیا ہے، کیونکہ حکومت ہند کے پاس اس حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور مسٹر 56 انچ تو کافی خوفزدہ ہیں۔" راہل گاندھی نے سرحدوں کی حفاظت پر مامور اپنی جانیں جوکھم میں ڈالنے والے فوجیوں کےتئیں فکرمندی کا اظہار کرکےحکومت پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا۔ وطن ِ عزیز میں نہتے اور کمزور لوگوں پر حملہ کر کے اپنی دیش بھکتی(قوم پرستی) ثابت کرنے والوں کو سرحد پر جاکر چین سے لوہا لینا چاہیے تاکہ ملک کی سرحد محفوظ ہو۔
 
این ڈی ٹی وی نے اس بار جب اروناچل پردیش کے اندر بسائے جانے والے گاوں کی تصاویر تاریخ کے ساتھ موازنہ کرکے شائع کیں توکانگریس کو پھر سے حملہ بولنے کا موقع مل گیا۔ اس نے اسے مودی حکومت کا ’قومی سیکورٹی‘ کے ساتھ کھلی مداہنت قراردیا۔ ایک پریس کانفرنس میں کانگریس ترجمان گورو ولبھ نے کہا کہ ’’وزیر اعظم اور وزیر دفاع نے ان مسلح افواج کی بہادری اور ہمت کو کم کر دیا ہے کہ جنھوں نے ہمت اور قربانی کے ساتھ چینی دراندازی اور جارحیت کا سامنا کیا تھا‘‘۔گورو نے وزیر اعظم سے گزارش کی کہ وہ پردے کے پیچھے نہ چھپیں اور لوگوں کو جواب دیں۔ نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے ترجمان نے چینی فوجی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے والی نئی سیٹلائٹ تصاویر شیئر کیں جن میں گزشتہ ایک سال کے اندر بھوٹانی علاقہ میں چینی گاؤں کی مبینہ تعمیر کو دیکھاجا سکتاہے۔ ان کے مطابق نئے گاؤں کو تقریباً 100 اسکوائر کلومیٹر یعنی 25 ہزار ایکڑ کے علاقہ میں پھیلے ہوےہیں ۔ مئی 2020 سے نومبر 2021 کے درمیان ہندوستانی فوج اور سفارتکاری کو لداخ میں الجھا کرگفت و شنید کے دوران یہ کام نمٹا لیا گیا۔

اس معاملے میں گوروولبھ نے سرکار سے کئی تیکھے سوال کیے مثلاً’’چین نے ایل اے سی کے اندر ہندوستان کے علاقے کو ڈیپسانگ میدانوں میں وائی جنکشن تک کیوں قبضہ کر لیا ؟ چین نے ایل اے سی کے اندر ہندوستان کے علاقے پر گوگرا اور ہاٹ اسپرنگس میں وائی جنکشن تک قبضہ کیوں کیا ؟ چین آخر ہندوستانی علاقے میں کیسے داخل ہوا ؟ کیسے چین نے اروناچل پردیش میں داخل ہوکر ایک گاؤں کی تعمیر کی ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ محض ایک رہائشی گاؤں نہیں بلکہ ایک فوجی چھاونی بھی ہے۔ کانگریس کے نزدیک بھوٹان کی زمین پر نئی تعمیری سرگرمی فکر مندی کا موضوع ہے کیونکہ چمبی وادی میں بنیادی ڈھانچے، سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر سلی گوڑی کوریڈور، یعنی چکن نیک کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ملک کے بقیہ حصے سے 7 شمال مشرقی ریاستوں کو جوڑنے والا تنگ علاقہ ہے۔ کانگریس کے ترجمان کی نظر میں کہ 100 اسکوائر کلومیٹر زمین قبضہ کرنا، غیر قانونی دراندازی اور چین کے ذریعہ ڈوکلام کے بغل میں بھوٹان کے اندر نئے گاؤں بسانا قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے لیکن چونکہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ سال 90 ارب ڈالر سے زائدکی سالانہ باہمی تجارت ہوئی ہے اوراس میں چین کی برآمدات تقریباً 74 ارب ڈالر ہے۔ یہ تجارتی مفاد غالباً حکومت ہند کے پیر کی زنجیر بن گیا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228850 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.