جب یہی کچھ کرنا تھا .....تو پنگا کیوں لیا.....بھئی؟

”بی بی کی روح کا واسطہ،نواز شریف فیصلے پر نظرثانی کریں....“رحمن ملک ...واہ !کیا سادگی ہے....؟
پچھتاوئے کی آگ!پنجاب حکومت سے علیحدگی ہوئی، طلاق نہیں، رجوع ہوسکتا ہے ...فردوس عاشق اعوان

اَب یہ بات حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اکابرین تسلیم کرلیں کہ پنجاب سے اِن کی حکومت کے یوں خاتمے پر اِنہیں پچھتاوے سے دوچار ہونا پڑا ہے جس کا ازالہ یہ کم ازکم کسی بھی صُورت میںسیاسی طور پر تو نہیں کرسکتے ہیں سِوائے اِس کے کہ یہ اَب اپنے اِسی پچھتاوے کی وجہ سے ن لیگ سے دوبارہ اپنے پرانے والے حالات اور مراسم بحال کرلیں جس سے متعلق اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکمران جماعت پی پی پی والے ن لیگ سے ایک مرتبہ پھر اپنے وہی پرانے والے دوستانہ مراسم کو قائم کرنے اور کرانے کے لئے کسی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اور سرگرم نظر آرہے ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے تین سال تک مُختلف حیلے بہانوں سے مسلسل ٹرخائی جانے والی حکومت کی ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پاکستان مُسلم لیگ (ن)نے جب اپنا رنگ دیکھا تو حکمرانوں کے چہرے کے رنگ پھک سے اُڑ گئے جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اپنے وفادار دوست کے وفادار دوست بن جاؤ جو شائد ہمارے حکمران ایسا نہ کرسکے اور یہ اپنے تئیں تین سال تک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کو لولی پاپ دے دے کر بہلاتے اور اپنا کام چلاتے رہے اور اِس کے اُن تمام نیک جذبات کو اپنے جوتے کی نوک پر مارتے ہوئے اپنا وقت کھینچتے رہے اور حکمرانی کی رنگ ریلیوں کے مزے لوٹتے رہے جبکہ اِسی کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں ہونے والی دوستی سے لے کر ایک عام زندگی کے معاملات تک قائم دوست کی دوستی کو کبھی نہ آزماؤ ہوسکتا ہے کہ وہ مجبوری کے تحت آزمائش میں پورا نہ اُترے اور آپ ایک مُخلص دوست سے محروم ہوجائیں اور آج ایک میں ہی کیا سارے پاکستان کے ساڑھے سترہ کرروڑ عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے حکمرانوں سے ایک ایسی غلط سرزد ہوگئی ہے کہ وہ ن لیگ کی دوستی کو سمجھے بغیر وہ سب کچھ کرتے رہے جو اِنہیں نہیں کرنا چاہئے تھا اور آج اِس کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

اِس وقت مجھے اپنے حکمرانوں کو سمجھانے کے لئے حضرت خُواجہ قُطب الدین بختیار کاکیؒ کا ایک انتہائی سبق آموز قول یاد آرہا ہے کہ ” جو بَلا دوست کی جانب سے نازل ہو اِس کو صَبر کے ساتھ برداشت کیا جائے “اور اَب حکمرانوں کے پاس اِس کے سِوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ اِس قول پر عمل کرتے ہوئے صَبرو برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور خاموشی سے صُبر کریں اور ہوسکے تو یہ اپنی ہر ضد اور اَنا کو خاک میں ملا دیں جن کی وجہ سے اِنہیں یہ دن دیکھنے کو مِلا کہ پنجاب سے اِن کی حکومت ایک دوست نے ایک ہی لمحے میں ختم کر کے خُود اپنا اقتدار سنبھال لیا ہے ۔

اور واہ! اِس پر قربان جائیے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی اِس سادگی پر کہ اُنہوں نے کتنی معصومیت سے یہ کہا ہے کہ” میں میثاقِ جمہوریت کا پودا کٹتا دیکھ رہا ہوں(تو عرض ہے کہ ارے!ملک جی آپ جمہوریت کا پودا کٹ جانے کے بعد بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت کا پودا کٹتا دیکھ رہا ہوں جِسے کٹے ہوئے بھی کئی دن گزر چکے ہیں اوراَب تو اِس کے پتے بھی سُوکھ چکے ہیں جناب اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت کا پودا کٹتا دیکھ رہا ہوں)اور اِس پر اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ (ن)لیگ کے فیصلے سے بینظیر بھٹو شہید کی روح ضرور تڑپی ہوگی نواز شریف کو بی بی شہید کا واسطہ ہے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں “ تو عرض ہے کہ رحمان ملک جی! جب اتنی ہی عجزوانکساری کے ساتھ ہاتھ جوڑنے جیسا مظاہرہ ہی کرنا تھا تو بھائی!ایک طاقتور دوست کی دوستی کو آزمانے کے لئے پنگا ہی کیوں لیا تھا .....؟؟کہ دوست کو انتہائی راست قدم اٹھانا پڑ گیا اور آپ سمیت آپ جیسے بہت سوُں کو یہ التجا یہ لہجہ اپنانا پڑ گیا ہے تو آپ ہی کی طرح وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان بھی پچھتاوے کے انداز سے یہ کہہ رہی ہیں کہ ”پنجاب حکومت سے علیحدگی ہوئی ہے طلاق نہیں ،رجوع ہوسکتا ہے“ تو جناب عرض یہ ہے کہ آپ لوگوں نے اپنے دوست نواز شریف کے ساتھ ایسا رویہ ہی کیوں روا کر رکھا تھا کہ دوست وہ کچھ کر گیا ہے کہ جس سے تمہیں سُبکی کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔اور جس کے بعد اَب تم سمیت تمہاری پارٹی والوں کو اپنی جھینپ مٹانے کے لئے مندرجہ بالا التجا یہ جملے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔

بہرحال !تو سُن لو حکمرانوں سر ہیرلڈولسن کا کہنا ہے کہ سیاست کا ہر ہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتا ہے اور یہ بات اَب ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اچھی طرح سے سمجھ آجانی چاہئے کہ سرہیر لڈولسن نے سیاست سے متعلق جو کہا وہ حقیقت اور سچ پر مبنی ہے یعنی یہ کہ پاکستان میں گزشتہ جمعہ کو پنجاب میں جو کچھ ہو اِسے نہ صرف پاکستانیوں ہی نے نہیں بلکہ ساری دنیا نے بھی بچشمِ خود یہ دیکھ لیا کہ قریب قریب ایک ہفتے قبل پنجاب پر حکومت کے دعویداروں کے ہاتھوں سے اقتدار کیسے نکل گیا ....؟؟کہ یہ خود بھی اَب تک نہ صرف حیران ہیں بلکہ سخت ذہنی دباؤ کے باعث پریشان اور بوکھلاہٹ کا بھی شکار ہیں اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ اَب شائد اِن کا ضمیر اندر ہی اندر اِنہیں ملامت بھی کر رہا ہے کہ اُنہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کیوں کچھ نہیں سیکھا.....؟؟اور یہ مُسلسل غلطیوں پہ غلطیاں کرتے رہے اور بلکہ اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں یہ وہ سب کچھ بھی بھول گئے کہ اِن کے اردگرد منڈلاتے(پی ایم ایل ن کے) دوست نما دشمن کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکنے کی پوری سیاسی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنی اِس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ اِنہوں نے گزشتہ جمعے کو کر دکھایا جس نے انتہائی چابکدستی سے ملکی سیاست کا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا ہے یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)نے قومی مفاہمتی عمل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیسا سیاسی گیم کھیلا کہ پلک جھپکتے ہی پنجاب سے پی پی پی کی حکومت ختم کردی حالانکہ اِس سے قبل روٹی کپڑا اور مکان کا (عوام کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے)نعرے لگانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا ن لیگ کو دہائیاں دیتے رہے کہ وہ ایسا ویسا کچھ غلط نہ کرے....جس سے ہمارے تمہارے (پھس پھسے) جمہوری عمل کا راز فاش ہوجائے مگر ن لیگ جو کافی عرصے سے کسی ایسے انتظار میں تھی کہ اِسے کوئی ایسا موقع ہاتھ آئے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جمہوری عمل کو نقب لگائے تو بالآخر اُسے یہ موقع اُس وقت ہاتھ آگیا جب حکومت نے اِس کے پیش کردہ دس نکاتی ایجنڈے پر اِس کی مرضی کے مطابق کوئی عمل نہیں کیا تو پھر اِس نے یونیفیکیشن بلاک (لوٹوں )کو ساتھ مِلا کر وہ کچھ کردیا جس کا حکمران جماعت گمان بھی نہیں کرسکتی تھی ۔اِس موقع پر متاثرہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اکابرین کو سمجھانے کے لئے الفرڈای سمتھ کا یہ قول نقل ہے کہ ”اگر اِنسان سیاسی مِیدان میں کچھ کرنے کا خُواہش مَند ہے تو اِس کے اندر دوست بنانے اور اِنسانی فطرت کو سمجھنے کی صَلاحیت موجود ہونی چاہئے “اور اگر کوئی سیاست دان یا حکمران اِس خُوبی سے محروم ہے تو پھر اِس کے ساتھ یہی کچھ ہوگا جیسا کہ حکومت سے تین سال تک دوستی کا ہاتھ بڑھانے والی پی ایم ایل (ن) نے جب دوستی کا بڑھا ہاتھ ایک جھٹکے سے کھینچا تو پنجاب میں برسرِ اقتدار جماعت پی پی پی کو اپنے اچھے بھلے اقتدار سے ہاتھ دُھونا پڑ گیا جو اِس کی تین سالہ دورِ اقتدار کے لئے ایک کلنگ کا ٹیکہ ثابت ہوا ہے۔اور اِس کے لازمی طور پر منفی اثرات ملک میں ہونے والے آئندہ انتخابات میں حکمران جماعت پی پی پی پر پڑیں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ اَنا اور خُود غرضی کی سیاست کے عوض آج ملک میں جو سیاسی رسہ کشی کا عالم ہے اِس کے ذمہ دار یوفیکیشن بلاک کے (لوٹے) ہیں اور اِن(لوٹوں) کے حوالے سے مجھے یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ اِن دنوں یونیفیکیشن بلاک والے(لوٹوں ) نے اپنا سیاسی قد اُونچا کرنے کے لئے جو کچھ کیا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے نہ تو کسی بھی مفاہمتی عمل کے لئے ہی اچھا عمل ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام کے لئے کوئی سومند ثابت ہوسکتا ہے۔ یونیفیکیشن بلاک کے لوٹوں کی اِس غلطی نے ملک میں جاری لولے لنگڑے جمہوری عمل کا ستیا ناس کردیا ہے اور جس کے منفی اثرات وفاق سے لے کر صُوبوں تک محسوس کئے جائیں گے جبکہ ملکی اور عالمی سیاست میں ایسے بہت کم لوگوں میں حُسنِ سیرت کے اتنے جوہر موجود ہیں کہ جو بڑی سے بڑی بولی پر بھی نہیں بکیں ہیں مگر شائد یونیفیکیشن بلاک والے (لوٹے) اِس صلاحیت اور قابلِ مِثل خُوبی سے محروم ہیں بہرکیف!اِنہیں اِس جانب بھی ضرور توجہ دینی چاہئے تاکہ یہ آئندہ پھر اپنے کسی ایسے فعلِ شنیع سے لوگوں کی تنقیدوں سے بچنے کی سعی کریں جس کے بار بار کرنے سے اِن کی بدنامی میں اضافہ ہورہا ہے مجھے یہ یقین ہے کہ جس دن ملکی سیاست میں لوٹا کریسی کا مکروہ فعل انجام دینے والے سیاسی لوٹوں نے لوٹا کریسی سے اجتناب برتنا شروع کردیا تو اُس ہی دن سے یہ لوگ ملک میں ایک اچھے سیاسی عمل کو پروان چڑھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ پھر نہ تو ملک میں کوئی ہارس ٹریڈنگ کا کلچر زور پکڑے گا اور نہ ہی کسی بھی حکومتی اُمور میں کوئی رخنہ ڈال پائے گا اور نہ ہی پھر کسی کو رحمٰن ملک اور فردوس عاشق اعوان کی طرح التجایہ اور پچھتاوے جیسے الفاظ ادا کرنے پڑیں ۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 888504 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.