جشن یا خودکشی؟

میثاق جمہوریت جب ہو رہا تھا تبھی کچھ دل جلوں نے اسے مذاق جمہوریت کا نام دیا تھا ۔ ان دنوں اس میثاق کا دھوم دھڑکا اتنا تھا کہ ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن گئی۔پھر یہ میثاق دو ایسی شخصیات کے درمیان تھا جن سے ان کی چھاپ تلک سب چھین لی گئی تھی اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس طرح کی کوئی نہ کوئی کاروائی ڈال کے اپنے جیالوں اور متوالوں کو اپنی طرف لگائے رکھیں۔جب ان دو بڑی شخصیات کے علاوہ کارزار سیاست کے دوسرے جمورے بھی اس تماشے میں شامل ہوگئے تو ایسا لگنے لگا کہ اب شاید پاکستان کی سیاست میں شائستگی راہ پانے لگے گی۔ملک میں چونکہ اس طرح کی سیاسی عیاشیوں کی گنجائش نہیں تھی اس لئے یہ سارا ڈرامہ بدیس میں لگایا گیا۔قصہ مختصر یہ کہ ملک کے گھٹن زدہ ماحول میں یار لوگوں نے اسے تازہ ہوا کا جھانکا قرار دیا۔

مذاق میرا مطلب ہے کہ میثاق جمہوریت کے اوپر بٹنے والی مٹھائیوں کا ذائقہ ابھی منہ ہی میں تھا کہ ایک پارٹی کی جنرل مشرف سے باتوں اور ملاقاتوں کی خبریں عام ہونے لگیں۔انہی ملاقاتوں کے بطن سے این آر او کا وہ ناجائز تخم بر آمد ہوا جس نے ملکی سیاست کو تعفن زدہ کر دیا۔خیر جب ان ملاقاتوں کے نتیجے میں جلا وطن قیادت پاکستان واپس آگئی تو لوگوں نے یہ پہلی بد عہدی بھی ہضم کر لی۔اس بندوبست کو سیاسی قوتوں کی پاکستان میں مضبوطی اور قیادت کی بالغ نظری تصور کیا گیا۔ عمومی طور پہ سیاسی پنڈتوں نے بھی اسے سراہا۔حالانکہ یہ مجبوری کا سودا تھا کہ اس کے علاوہ ان لوگوں کے پاس ایسا کوئی راستہ ہی نہ تھا کہ جسے اختیار کر کے وہ ایک ایسے شخص سے جان چھڑا پاتے جو ملک اور ملکی سیاست میں ان کی شکل دیکھنے کا روادار بھی نہ تھا۔اس فیصلے سے پہلے ملکی فضا ایسی تھی کہ اگر یہ سیاسی بونے واقعی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے اور تھوڑا سا اور انتظار کر پاتے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستانی سیاست میں آمریتوں کا راستہ بند ہو جاتا۔اقتدار کی لت ایسی ہی ہوتی ہے کہ اس کی ایک جھلک بھی اقتدار کے بھوکوں کو دیوانہ بنا دیتی ہے۔اس لئے بجائے اس کے کہ آمر سے پہلے نجات حاصل کی جاتی اور پھر اقتدار میں آیا جاتا۔ آمر آمر پکارنے والوں نے آمر ہی کی اقتداء ہی میں نیت باندھ لی اور ملک کے طول و عرض میں انتخابات کا ڈول ڈل گیا۔

ابھی یہ قافلہ گھر سے نکلا بھی نہیں تھا کہ بے نظیر نے کچھ ایسی باتیں کہنا شروع کر دیں جو پہلے سے طے شدہ نہیں تھیں اور یوں وہ طاقتیں جو پاکستان میں اس طرح کے انتظامات کی نگہبان ہوتی ہیں انہیں پریشانی لاحق ہونا شروع ہو گئی۔چیف جسٹس کی بحالی کا اعلان بھی شاید انہی پریشان کن باتوں میں ہی سے ایک تھا۔بے نظیر کو بار بار تنبیہ کی گئی لیکن یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا کہ بے نظیر کو معاملات کو اپنے حق میں موڑنا خوب آتا تھا۔پاکستان واپس آنے تک تو معاملہ ٹھیک تھا لیکن یہاں آنے کے بعد خاتون کو ڈکٹیٹ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔اس کے باوجود کہ کراچی کے دھماکے سے انہیں معاملات کی سنگینی کا احساس دلا دیا گیا تھا لیکن بے نظیر نے اسے بھی ماضی ہی کی طرح بس دھمکی ہی سمجھا اور یہیں ان سے چوک ہو گئی۔بے نظیر کو اپنوں اور بیگانوں نے مل کے راستے سے ہٹا دیا۔یہ دوسرا موقع تھا کہ ہم ہر اندرونی اور بیرونی دباؤ اور ڈکٹیشن سے نجات پا سکتے تھے لیکن اس موقع کو بھی تعمیر کی بجائے تخریب کے لئے استعمال کیا گیا اور یوں بے نظیر بھی ان لوگوں میں شامل ہو کر بے نظیر ہو گئی کہ وہ خاک نشین ہرگز نہ تھی لیکن اس نے اپنا خون ان لوگوں کے خون سے ملا دیا جن کے خون کو بہرحال رزق خاک ہونا ہوتا ہے۔الیکشن ہوئے اور بے نظیر کے خون کی لاج رکھتے ہوئے خاک نشینوں نے بے نظیر کے خون آلود دوپٹے کی لاج رکھی اور بے نظیر کے مجاور بر سر اقتدار آگئے۔

اس دن ہی اس خون کے وارثوں نے اس خون کو ارزاں کر دیا تھا۔ جب انہوں نے اسی آمر کے ہاتھوں حلف اٹھایا جس کے خلاف بے نظیر نے لڑ کے جان دی تھی۔ اقتدار کی اس بندر بانٹ میں پنجاب کے نون غنے بھی برابر کے شریک تھے۔ان کی جمہوریت پسندی بھی مشرف سے حلف لیتے وقت کسی متعفن کنویں میں جا سوئی تھی۔عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں اپنے آپ کو سر عام سیاست دان کہلانے والوں نے ایک غیر سیاسی آدمی کے کہنے پہ ایک دفعہ پھر نورا کشتی کا میدان سجایا اور یوں عدلیہ آزاد ہو گئی۔بات انہی تک رہتی تو اس معاملے کے نتیجے میں بھی وہ طوفان اٹھتا جو ملک کی معیشت کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتا۔ اس کے بعد ملکی سیاست میں ایک منحوس دور شروع ہوا ۔ آٹا چینی بجلی پانی گیس غرضیکہ ہوا بھی مفقود ہونے لگی۔ کبھی کوئی معاہدہ ہو جاتا تو کہیں گورنر راج لگ جاتا ۔ بے برکتی اور نحوست کے اس دور میں لوگ سر عام اپنے بچے فروخت کرنے لگے اور خود کشییاں روز کا معمول بن گئیں۔یہ کسی ایک صوبے کا نہیں پورے پاکستان کا حال تھا۔لڑائی رکی ہوئی بھی تھی اور چل بھی رہی تھی۔۔یہ نورا کشتی چلتی رہی کہ آج کا دن آپہنچا۔آج پاکستان کے عظیم سیاستدانوں نے تین سال تک قوم کو مل کر بے وقوف بنانے کے بعد اب علیحدہ علیحدہ ہو کر بے وقوف بنانے کا پروگرام بنایا ہے۔

پاکستانی ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ اب ہو گا کیا؟تو معصوم لوگوں لکھ لو کہ کچھ بھی نہ ہوگا۔یہ دونوں اور ان کے ساتھ چمٹے دوسرے طنبورے بھی انہی گندے سروں پہ بجتے رہیں گے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک باری لے رہا ہے اور دوسرا باری کے انتظار میں ہے۔باقی جو ہیں وہ ان کے بغیر ہیں کچھ نہیں۔نہ حکومت میں نہ حزب اختلاف میں۔مرکز میں مرکز والے اور پنجاب میں پنجاب والے مل کے ہمیں بے وقوف بناتے رہیں گے۔جونہی پانچ سال پورے ہونے کے قریب ہوں گے تو یہ لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کے ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے اور یوں ہم بھیڑیں ایک دفعہ پھر انہی بھیڑیوں پہ اعتبار کر کے انہی کے چنگل میں دوبارہ جا پھنسیں گے۔اس لئے پاکستان کے معصوم لوگوں! اس کوڑے کرکٹ پہ لعنت بھیجو۔اپنے بچے بیچ کے ٹی وی خریدو اور ورلڈ کپ کے میچز دیکھو۔ہاں بیچنے کو بچے نہ ہوں تو خود کشی کا راستہ تو بہرحال کھلا ہی ہے۔جب تک تمہارے اندر سے تمہاری طرح بھوک سے تنگ آ کے اپنے بچے بیچنے والا تمہاری قیادت کا علم نہیں اٹھاتا تم اسی طرح بچے بیچ کے ورلڈ کپ کے مزے اڑاتے رہو گے۔اب جشن منانا ہے یا خودکشی کرنی ہے یہ فیصلہ آپ کا ہے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 53904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.