ہائے بیچارا٬ ڈپریشن کا مارا-ریمنڈ ڈیوس

لاہور میں دو پاکستانیوں کے قتل میں ملوث امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کا کیس ابھی پاکستانی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ تا ہم امریکہ نے شروع دن سے ہی اسکی رہائی کے لیے کان کھانا شروع کردیے تھے اور پاکستان پر دن بد ن مزید پریشر اور دباﺅ بڑھا نے کے ساتھ ساتھ اسکی رہائی کے عوض اربوں ڈالر کی امداد کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔ (اسکا صاف مطلب یہ ہے ہم نے بہت بڑا مرغا پکڑا ہے)۔ امریکی سینٹر جان کیری صاحب بنفسِ نفیس اس قاتل کی رہائی کے لیے یہ سوچ کر پاکستان تشریف لائے کہ بس میں جاواں گا تے بندہ چک کے لے آوانگا۔ مگر افسوس کہ انکی یہ خواہش ناتمام رہی۔ حالانکہ امریکہ میں انکی اپنی بیٹی شراب پی کر گاڑی چلاتی ہے تو جرمانے سے نہیں بچ پاتی، مگر وہ یہاں ایک قاتل کو بچانے پہنچ جاتے ہیں۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک عام آدمی نہیں بلکہ حلقہِ خواص میں سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب سے یہ ایجنٹ پکڑا گیا ہے، عوام کی دلچسپی دیکھ کر روزانہ اخبارات نے بھی کئی کئی صفحات اسی کی خبروں سے کالے کرنے شروع کیے ہوئے ہیں۔ خبریں یہ تک بتارہی ہیں کہ موصوف نسوار کے رسیا ہیں، کئی زبانیں جانتے ہیں اور جب سے ڈھکے گئے ہیں ڈر کے مارے نہائے نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ چھی چھی چھی۔ کیا امریکی اتنے گندے بھی ہوتے ہیں؟

اعلیٰ حکام کے دباﺅ پر راتوں کو دفاتر کھلوا کر ایمرجنسی میں بغیر تفتیش اور انکوائری کے غیر ملکیوں کو تھوک کے حساب سے یوں پلیٹ میں رکھ کر ویزے پیش ہونگے تو پاکستان ایسے ہی لوگوں کی آماجگاہ بن جائیگا۔ ابھی تو ایک ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا ہے، نہ جانے اور کتنے ریمنڈ ڈیوس ادھر ادھر اپنے مخصوص کاموں میں مشغول ہونگے؟۔ حیرت کی بات یہ کہ ہمارے خارجہ اور داخلہ محکموں نے اس مجرم کو چھوڑنے کے لیے استشناء کے تما م کاغذات راتوں رات الہ دین کے چراغ سے تیار کرانے کی کوشش کی تاکہ موصوف رہا ہو کر آرام سے وی آئی پی سیٹ پر بیٹھ کر اپنے دیس سدھارے ۔ لیکن باشعور پاکستانی عوام نے اس ظالم کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کر کے تمام حکومتی منصوبے ناکام بنا دیے۔ دوسری طرف سیاستدانوں نے گزشتہ ہر ایشو کی طرح اس ایشو کو بھی وفاق اور پنجاب کے درمیان ایشو بنا کر نمبر بڑھانے گھٹانے کی ناکام کوشش کی اور استشنا ہونے یا نہ ہونے کا شور شرابہ اور بحث و مباحثہ تو ابھی تک جا ری و ساری ہے ۔ ہمارے کچھ لکھاری حضرات نے بھی رائے عامہ ہموار کرنے اور حکومت وقت کو اس مشکل گھڑی سے نکالنے کے لیے محترم جناب ریمنڈ ڈیوس صاحب جیسے لوگوں کو پاکستان کے لیے معزز اور باعثِ رحمت ثابت کرنے کے لیے اپنے قلم گھِسانے شروع کر دیے ہیں۔امید ہے کہ باشعور پاکستانی عوام انکے جھانسے یا نرغے میں نہیں آئیگی۔

اس ایجنٹ سے روزانہ قونصلیٹ اور ایمبیسی کے لوگ ملاقاتیں کر رہے ہیں، دلاسے دے رہے ہیں، چاکلیٹ، اچھے کھانے اور برگر شرگر کھلائے جارہے ہیں، امریکہ میں گھر والوں سے با تیں اور ملاقاتیں کرائی جا رہی ہیں، خطوط کا تبادلہ ہورہا ہے، کمپیوٹر اور یو ایس بی کی سہولیات بھی مہیا ہیں۔ا ور تو اور موصوف کو جیل میں ڈیپریشن سے بچنے کے لیے کنسلٹنٹ کی سہولیات بھی فراہم کر دی گئیں جو انکے ساتھ نو گوٹی اور لوڈو وغیرہ کھیل رہی ہیں اور رہائی کے دلاسے بھی دے رہی ہیں۔ساتھ ساتھ محکمہ جیل اور امریکی سفارتخانہ کی تردیدیں بھی چل رہی ہیں، جیسے ہر خبر کے بعد ایوانِ صدر سے تردید لازمی ہوتی ہے ، یا جیسے میڈونا ہر نئی شادی کے بعد تر دید کرتی ہے۔ موصوف کو اتنی بہت سی سہولیات ہونے کے باوجود مزید وی آی پی سہولیات کا مطالبہ کیا جارہے ہے، جبکہ وہ ایک قاتل ہے، تو وی آئی پی سہولیات کس لیے ؟ کیا ہم پاکستانیوں کا خون اتنا ارزاں ہے کہ کوئی قتل بھی کر دے، استثناء بھی مانگے اور ساتھ وی آئی پی پروٹوکول بھی؟؟ کیا کوئی پاکستانی امریکہ میں اس طرح کی سہولیات کا تصور کر سکتا ہے ؟ یا پاکستان میں پاکستانی قیدی ایسی سہولیات سے مستفید ہو سکتا ہے ؟۔گوانتا نامو بے اور ابو غریب جیل میں امریکی اہلکاروں کے قیدیوں پر ڈھائے گئے ہٹلری مظالم دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اپنے ایک شہری کو پھول تک مارنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ حالآنکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی پولیس کو فری ہینڈ دیا جاتا تاکہ وہ اپنے روایتی انداز میں چھترول کر کے اس سے تفتیش کرتی اور یہ اپنی اصلیت بھی اگلتا اور ساتھ ساتھ شیر کو ہاتھی اور ہاتھی کو شیر بھی گردانتا۔ مزید یہ کہ سپیشل باورچی اور سپیشل کھانوں کی بجائے اسے بھی جیل کی مونگ مسری کی پتلی پیچھ دال یا کالا بھجنگ آلو گوشت ریت ملی آٹے کی روٹی کے ساتھ دیا جاتا تاکہ اسکے چودہ کے بجائے اٹھائیس طبق روشن ہوتے۔ دوسری طرف ایک پاکستانی بیٹی عافیہ صدیقی ہے ، عرصہ دراز سے جسکی شکل دیکھنے کو بھی اسکے گھر والے ترسے ہو ئے ہیں، اور امریکہ میں پاکستانی سفیر کو بھی اس سے ملاقات کے لیے ہفتوں بعد اجازت نامہ جاری ہوا تھا۔ اس بیچاری پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی داستان سے تو تما م پاکستانی آگاہ ہی ہیں۔ ایک اور کھلا تضاد دیکھیے کہ ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے لیے امریکہ کے صدر تک تڑیاں لگا رہے ہیں، جبکہ ہمارے غیرت مند حکمران اس بیچاری کو اچھوت سمجھتے ہوئے اس کا نام تک لینا بھی گوارا نہیں کرتے کہ کہیں زبان گندی نہ ہوجا ئے اور بڑے صاحب بھی برا نہ مان جا ئیں!۔ویسے کبھی کبھی تو ہمیں ریمنڈ ڈیوس کے امریکی ہونے پر رشک سا آتا ہے کہ قاتل ہوتے ہوئے بھی اتنی عیش۔ سوچتے ہیں کہ ہم بھی امریکن نیشنلٹی نہ لینے کی قسم بس اب توڑ ہی دیں!

سابق وزیرِ خارجہ جو کہ تین سال تک ڈرون حملوں میں سینکڑوں پاکستانیوں کی ہلاکت پر خاموش تھے ، وزارت ہاتھ سے جاتی دیکھ کر آجکل ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ انکے اور میڈیا کی دوسری خبریں چھپر پھاڑ کر یہ بات ثابت کر چکی ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس گنگا پوتر نہیں بلکہ ایک سی آ ئی اے اور بلیک واٹر ایجنٹ ہے اور اسے سفارتی استثنا وغیرہ حاصل نہیں، تا ہم اگر ہو بھی تو قاتل اِز قاتل۔ پاکستان کو ا س قاتل کو کسی صورت بھی بغیر سزا کے نہیں چھوڑنا چاہے، ایک بار اسے ضرور پٹھا لٹکائیں تاکہ اسے اپنے تمام مرحومین بشمول نانی اور دادی ضرور یاد آجائیں ۔ مقتولین کے لواحقین سے بھی نکی جی گزارش ہے کہ وہ غیرت مند پاکستانی ہونے کے ناطے کسی صورت بھی خون بہا لیکر یہ قتل معاف نہ کریں، ورنہ ہمیں امریکیوں سے پھر یہ بات سننے کو ملیگی کہ پاکستانی پیسے کے عوض اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں!۔ پوری پاکستانی قوم آپکے ساتھ ہے۔

ایک ا ور خبر کے مطابق حکومت اپنی جان چھڑانے اور کیس کو چیونگم کی طرح کھینچنے کے لیے عالمی عدالتِ انصاف میں لے جانے اور اسکی بے دخلی کا بھی سوچ رہی ہے ۔ یہ کیس تو پہلے ہی پاکستانی عدالت میں زیرِ سماعت ہے ۔ قاتل بھی یہیں ہے، مقتول بھی یہیں، پوری قوم اسکی گواہ، عدالتیں آزاد تو یہ کیس عالمی عدالت انصاف میں کس لیے ؟؟۔ عالمی عدالت انصاف میں تو ملکوں کے درمیان عالمی سطح کے تصفیہ طلب امور لیجائے جاتے ہیں، نہ کہ دن دہا ڑے سرِ عام قتل کے کیس۔ مزید یہ کہ قاتل بے دخل اور ناپسندیدہ شخصیت کیوں؟ اگر ریمنڈ ڈیوس کی شخصیت کے بارے میں ہی پوچھنا ہے تو جن کے مرے ہیں انسے پوچھیں جو انصاف نہ ملنے پر خود کشیا ں کر رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اس کیس کو پاکستان میں ہی فائنل کر کے عوام کی امنگوں اور خواہشوں کے عین مطابق اس مجرم کو حقیقی معنوں میں سزا دلوائے۔ تاکہ آئندہ کسی غیر ملکی کو پاکستانی عوام کے ساتھ اس طرح کی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234456 views self motivated, self made persons.. View More