مفاہمت اور لہو رنگ کراچی

مجھے کچھ کہنا ہے

جانے کیوں اِس بار ہر طرح کے سیلابوں نے میرا وطن کا رستہ دیکھ لیا ہے، جانے کس دُکھ پر آسمان روتا ہے ، دریا بپھرتے ہیں اور کالام سے لیکر ٹھٹھہ تک سب کچھ پانی میں ڈوب جاتا ہے، میرا شہر کراچی بھی ڈوبا ہوا ہے اور میرا شہر کراچی پانی میں نہیں لہو میں ڈوبا ہے اور محاورتاً نہیں سچ مچ ڈوبا ہے، میرے شہری اپنے بچوں اپنے بزرگوں اور اپنے بھائیوں کی لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک گئے ہیں، مگر لہو کا کھیل کھیلنے والے نہیں تھک آگ اور بارود کے کھلاڑی ہنوز تازہ دم ہیں، جانے اتنا بارود کن فیکٹروں میں بنتا ہے اور اِسے کن گوداموں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے کہ اب تو قبرستان کم پڑتے جارہے ہیں، گورکنوں کی چاندی ہو گئی ہے، ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر اور بازاروں میں کفن کے لیے کپڑا ڈھونڈے نہیں ملتا، اَس سب کے باجود’’ میدانِ سیاست‘‘ کے شہسوار ابھی پا رکاب رہنا چاہتے ہیں، ابھی وہ سروں پر خود چڑھائے اپنے اپنے ’’ سیاسی نیزوں ‘‘ کی نوکیلی ’’ انی ‘‘ سے میدان کی بیچ گڑھے ’’ نشان ‘‘ پر قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں، وہ ابھی ’’مفاہمت ‘‘ کے اِس کھیل سے مزید لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں مگر ’’ مفاہمت ‘‘ کے نام پر جو کھیل کراچی میں کھیلا جا رہا ہے ہے وہ ایک ایسا سنگین مذاق بنتا جا رہا ہے جو ہر روز ہی کئی گھروں کے دئیے بجھا رہا ہے، ہر روز کسی گھر میں تاریکی بو رہا ہے، حکومت میں شامل تینوں اتحادی اپنے اپنے ’’ مفادات‘‘ کے لیے ہر بار سودا کر لیتے ہیں اور خسارہ ہر بار عام عوام کا ہوتا ہے، یہ لوگ ہر بار اور ہر واقعے کے بعد اپنی تمام توپوں کے دہانے ایک دوسرے کی طرف کر دیتے ہیں مگر دو ایک روز میں وفاق اپنے ’’ فرشتہ ‘‘ وزیر کو بھیجتی ہیں اور سب ایک بار پھر باہم شیر شکر ہوجاتے ہیں،اِن کا قبلہ و کعبہ ایک ہی ہو جاتا ہے کچھ عرصہ سکون سے گزرتا ہے اور پھر وہی سب کچھ شروع ہو جاتا ہے، اور یہ ’’ سیاسی بونے ‘‘ پھر اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکل پڑتے ہیں، صرف پچھلے چھ ماہ کے عرصے میں ۹۰۰ نو سو شہری ہلاک کر دئیے گئے یعنی تقریبا ۱۵۰ ایک سو پچاس شہری ہر مہینے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،اب تو لہو کی ارزانی یوں ہوئی ہے کہ اِدھر معصوم شہریوں کی لاشیں گرتی ہیں اور اُدھر یہ سیاسی بونے ’’ ہمارا کارکن ‘‘ اور ’’ ہمارا ہمدرد ‘‘ کی گردان گردان کرتے نمودار ہوتے ہیں، چیختے ہیں چلاتے ہیں، ایک دوسرے پر گندگی اُچھالتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام لگائے جاتے ہیں، رستے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر واقعے کے بعد حکومت میں شامل تینوں اتحادی ہی ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے ہیں کبھی ’’ متحدہ ‘‘ الزام لگاتی ہے کہ اس سب کے پیچھے ’’ اے این پی ‘‘ کے دہشت گرد ملوث ہیں اور خود ’’ اے این پی ‘‘ یہی بات ’’ متحدہ ‘‘ کے حوالے سے کہتی ہے ، کبھی ’’ متحدہ ‘‘ کو اِس سب کے پیچھے ’’ پیپلز امن کمیٹی ‘‘ اور ’’ لیاری ‘‘ کے بدنام لوگ نظر آتے ہیں، کبھی خود سندھ کے وزیر داخلہ جناب ذوالفقار مرزا صاحب کا نام لیا جاتا ہے ، اور ذوالفقار مرزا کو اِس کے پیچھے متحدہ کے دہشت گرد نظر آتے ہیں، سندھ کے وزیر داخلہ جناب ذوالفقار مرزا صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ مصالحت اور مفاہمت کی بندشوں نے اُنہیں جھکڑ رکھا ہے ورنہ وہ ایک ایک دہشت گرد کو اُلٹا لٹکا دیں ، انسانی لہو کی ارزانی کا احول سنئے کہ موصوف جانتے ہیں کہ دہشت گرد کون ہیں ، خود اپنی ہی صفوں میں موجود’’ درندوں ‘‘ کو وہ بخوبی جانتے ہیں مگر ہائے اُن کی یہ ’’ سیاسی مجبوری‘‘ یہ مفاہمت کی مجبوری اُنہیں کچھ کرنے نہیں دیتی ، کیا اِس سے بڑا مذاق کسی قوم کے ساتھ ہوا ہوگا ؟ کہ اُس کے حکمران اُسکے قاتلوں کا جانتے ہیں مگر اپنی مفاہمت کے ہاتھوں مجبور ہیں ، اِس شہر میں قتل ہونے والا ہر شخص قتل ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ اُس کے قاتل مفاہمت کے نقاب تلے چھپے رہیں گے ، اُس کا لہو کبھی بھی سر خرو نہ ہو پائے گا ، وہ بس اسی لیے پیدا ہوا تھا کہ ایک دن حکمرانوں کی مفاہمت کے صدقے قربان ہوگا ، حکمرانوں کو اپنی حکومت کی بقا کے لیے اُسکے لہو کی اشد ضرورت ہے ، یہ حکمران ، یہ’’ سیاسی بونے ‘‘ جانے اور کتنے لوگوں کے لہو پر اپنی مفاہمت کی عمارتیں تعمیر کرتے رہینگے ، مجھے سمجھ نہیں آتا میں اِنہیں کیا کہوں ؟ سمجھ نہیں آتا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ جو ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات بھی لگاتے ہیں اور جو ایک دوسرے کو اپنے ’’ کارکنوں ‘‘ کا اور اپنے ’’ ہمدردوں ‘‘ کا قاتل بھی کہتے ہیں اور پھرایک دوسرے سے مفاہمت بھی کر لیتے ہیں ،یہ کیسے لوگ ہیں ؟ جو ہر بار چیخ چیخ کو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ’’ حکومت میں رہنا اُن کی مجبوری نہیں ‘‘ مگر پھر حکومت سے الگ بھی نہیں ہوتے ، یہ کیسے لوگ ہیں ؟ جواِس مجبور اور لہو رنگ شہر پر حکمران بھی ہیں مگر خود کہتے ہیں کہ شہر میں کہیں پر بھی حکومت نظر نہیں آتی ؟ یہ کیسے لوگ ہیں ؟ جو گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے چلاتے ہیں ، جو دہشت گردوں کو للکارتے ہیں ، جو عوام کی مظلومیت کا جھوٹارونا روتے ، جو انقلاب کی باتیں کرتے ہیں ، جو اپنے استعفے اور مطالبات کی فہرست ایک ساتھ جیبوں میں رکھے پھرتے ہیں ، خدا را ! خود ہی فیصلہ کیجئے ، کیا اِنہیں کوئی عام عقل والا انسان بھی ہوش مند کہے گا؟
Asif Ahmed Bhatti
About the Author: Asif Ahmed Bhatti Read More Articles by Asif Ahmed Bhatti: 6 Articles with 14210 views السلام علیکم
میرا نام آصف احمد بھٹی ہے ، میری عمر 33 سال ہے اور میں پچھلے 15 سالوں سے کویت میں مقیم ہوں ، میرا والدین کا تعلق ہزارہ کے خوبصورت گلیات
.. View More