لاپتہ کمسن مجید بلوچ کی تشدد زدہ لاش انسانی المیہ

بلوچستان میں لاپتہ بلوچ سیاسی رہنماؤں و کارکنوں کا مسئلہ ایک کربناک انسانی المیے میں بدل گیا ہے، جو ہر آنے والے دن کے ساتھ انتہائی کرب ناک شکل اختیار کررہا ہے، خاص طور پر لاپتہ کئے جانے والے بلوچوں کی لاشوں کی برآمدگی نے اس مسئلے کی حساسیت کو مزید نمایاں کردیا ہے-

بلوچ سیاسی حلقوں کے مطابق لاپتہ بلوچوں کو سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اٹھاکر لئے گئے ہیں اور انہیں عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور تشدد کا یہ عالم ہے کہ یا تو یہ لاپتہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر ذہنی و جسمانی طور پر آپاہج اور مفلوج بنادیے جاتے ہیں، ان حلقوں کا کہنا ہے کہ پہلے یہ سلسلہ سیاسی رہنماؤں و کارکنوں تک تھا مگر اب اس کی زد میں کمسن طالب علم بھی آچکے ہیں۔

جس کا مظاہرہ گزشتہ روز خضدار میں آٹھویں جماعت کے ایک لاپتہ کمسن طالب علم مجید زہری کی انتہائی انسانیت سوز تشدد زدہ لاش کی برآمدگی کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے، اطلاعات کے مطابق مجید زہری کو تقریباًٰ دس روز قبل پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار اغواء کرکے لے گئے تھے، لواحقین و سیاسی حلقوں کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے دس کے قریب گاڑیاں آئی تھیں اور انھوں نے کمسن مجید کو تشدد کرکے اپنے ساتھ لئے گئے، ان حلقوں کا کہنا ہے کہ کمسن مجید زہری کا قصور یہ تھا کہ وہ بی ایس او آزاد کے کارکن تھے اور بلوچ قومی سیاست سے گہری دلچسپی اور لگاؤ رکھتے، یہی قصور شاید اس کا جرم بن گیا جس کی اسے بے رحمانہ تشدد اور شہادت کی صورت میں سزا دی گئی، کمسن مجید کی لاش انتہائی تشدد زدہ تھی، گرم لوہے سے ان کے جسم پر کئی سوراخ کئے گئے تھے، اور کئی جگہوں پر ان کے گوشت کسی تیز دار آلے سے کاٹ دیے گئے تھے، باغ کے چوکیدار کے مطابق صبح چار بجے کے ٹائم ایف سی کے گاڈیاں آئے اور انھوں نے کمسن مجید کو گاڈی سے نیچے پھینک دیئے اور پر ان پر گولیاں برسائے جس سے اس کے سر پر تین گولیاں لگ گئے اور یوں کمسن مجید شہید ہوگئے۔ ڈاکٹروں کے مظابق کمسن مجید تشدد سے ہی شہید ہوچکے تھے۔

لواحقین اور سیاسی حلقوں کے یہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچ قوم پرستانہ سیاست سے وابستہ افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑچکی بیں، اس حوالے سے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سیاسی کارکنوں کے اغواء گمشدگیاں، تشدد اور قیدوبند کے حربے ان مقاصد کا حصہ ہوتے ہیں جن کے تحت معاشرے میں خوف وہراس پھیلاکر لوگوں کو سیاسی عمل سے دور رکھنا ہے اور یہ ایسے موقع پر زیادہ شدت اختیار کرلیتے ہیں جب تقسیم لڑاؤ اور حکومت کرو، لالچ اور دیگر حربے ناکام ہوجاتے ہیں، ان مبصرین کے مطابق بلوچ سماج بھی اب ایک ایسے مقام پر پہنچا ہوا نظر آتا ہے جہاں حکمرانوں کی تمام تدبیریں غیر موثر ہوچکی ہیں، لہٰذا ایسی صورت میں نہ صرف اب تک لاپتہ کئے جانے والے بلوچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات بڑھ چکے ہیں بلکہ مزید اس قسم کے اندوہناک واقعات کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے، لیکن یہ واقعات بلوچ سماج میں خوف سے زیادہ نفرت اور انتقام کی چنگاریوں کو شعلہ اور شعلوں کو بے قابو آگ میں بدل رہے ہیں، لہٰذا اس سے قبل کہ سب کچھ جل کر خاکستر ہوجائے نہ صرف لاپتہ بلوچوں کی فوری بازیابی ضروری ہے بلکہ ان واقعات کی بنیاد بننے والے بلوچ مسئلے کا حقیقی حل نکالنا بھی ناگزیر ہے-
Shahzain Baloch
About the Author: Shahzain Baloch Read More Articles by Shahzain Baloch: 4 Articles with 3070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.