درد

 ملک شام میں لڑائی 2011سے مسلسل جاری ہے۔اس ملک کو تاراج کرنے والو کا کھیل تاحال جاری ہے۔اس بد نصیب ملک کے لوگوں کا تعلق امّت محمدیہ ص سے ہے۔سب کی نظریں انسانیت کے نعرے لگانے والوں کی طرف ہیں۔مسلم دنیا کے ساتھ تو ان کا تعلق اور نسبت لاالہٰ الا اللہ محمد الر سول اللہ ص کا ہے۔بس ان ان مسلمانوں کو جگانےاور جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ایک صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے۔ تب یہ جا گیں گے اور پھر اپنے انبھائیوں بہنوں سے کہیںگے کہ بھائی تیرا ہاتھ کاٹنے والے کا میں سر قلم کر دونگا۔بہنوں ماؤں کے سر سے دوپٹہ چھیننے والوں کا نام و نشان مٹادونگا ۔ معصوم بچوں کو یتیم بنانے گھروں کو اجاڑنے والو اوربزرگوں پر ظلم کرنے والو تمہیں ایک ایک ظلم کا حساب دینا ہوگا۔اے شیطان اور دجال کے پیرو کارو ں ہمتمہیں مدہوش نظر آرہے ہیں۔لیکن جس وقت ہوش میں آئے توتمہارے لیے زمین تنگ ہوجائیگی ۔کہیں جائے پناہ نہیں ملیگی ۔اے شامیوں فلسطینیوں ،کشمیریوں،روہنگیا ئیوں اور عراقیوں ہم سب شرمندہ ہیں۔آپ توہمارے سینوں میں دل کی دھڑکنیں ہیں۔اسلامی ممالک پوری دنیا میں زیادہ ہیں۔ہمارے پاس طاقتور افواج ہیں۔دنیا کا بہترین اسلحہ اورمیزائل بھی ہمارے پاس ہیں۔جذبہ بھی ہے۔ہم کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم نہیں ہیں۔ 56اسلامی ممالک میں سب اپنے اپنے لیے سوچ رہے یں۔یہود و ہنود نے تو گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔اقوام متحدہ ان کا ہے۔ نیٹو فورس ان کے پاس ہے۔ہمارے علما ہمارے مدارس اور صالح ضمیر مسلمان بہت دکھ اور پریشانی میں ہیں۔کہ ہمارےبھائیوں کے اجڑے گلستان اب کیسے آباد ھوجائیں ۔ یتیموں بیواووں کا خیال کیسے رکھا جائے۔ ان بےبس اور بد نصیب لوگوں کے آنسوں کیسے پونچھ لیے جائیں۔ عراق،افغانستان،فلسطین اور کشمیر کے مسلے ابھی حل بھی نہیں ہوے تھے کہ شام پر بارود کی بارش شروع ہوگئی ۔ایک خبر کے مطابق پچھلے 6 سالوں میں شام سے تقریبا ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔سب سے زیادہ مہاجرین ترکی میں موجودہیں۔ان کی تعداد 27 لاکھ لبنان میں 14 اردن میں 7 عراق و مصر میں 5 لاکھ اسکے علاوہ جرمنی، یونان، الجزائر، سویڈن، آسٹریا، برطانیہ، آرمینیا، بحرین، لیبیا، بلغاریہ، کینیڈا، برازیل، رومانیہ،فرانس،روس،فلسطین،مقدونیہ وغیرہ میں شامی مہاجر ہیں۔ ان مہاجر کیمپوں میں لاکھوں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔دودھ،پانی ،علاج کی سہولیات اور خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہے ۔بہت بڑیتعداد ایسے بچوں کی بھی ہے۔ جن کاکوئی والی وارث نہیں ۔ان کے والدین یا تو بچھڑ گئے یا جنگ میں شہید ہوگئے لاکھوں مہاجر شام اور پڑوسی ملکوں کی سرحدوں پر بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ شدید سردی برفباری اور موسم کی سختی نے ان کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں ۔ترکی کی کرنسی گراوٹ کا شکار ہے۔ معاشی اور انسانی بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس کے باوجود ترکی کا حوصلہ قابل تحسین ہے۔ترکی کا شہر 'شان لی
عرفہ 'جو مدینہ الانبیا کہلاتا تھاآج جذبات اخوت کو اجاگر کرنے کےلیے اسے مدینہ الانصار کا نام دیا گیا ہے۔ اپنی اصّل آبادی سے دوگناسے بھی زیادہ تعداد میں شامی مہاجرین کی میزبانی کرنے والے اس شہر کو اب تنگ داماں کا شکوہ ہے۔مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اب پہاڑوں اور غاروں کو مسکن بنانے پر مجبور ہیں۔متمدن دنیا کے باسیوںنے اپنے ہی جیسے انسانوں کو کس حال میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ ایک تصویر نظروں سے گزری ہے ۔ایک چھوٹی سی دکان میں انتہائی بد تر حالت میں شامی مہاجرین کا ایک خاندان نے پناہ لی ہے۔وہاں کے حالات دیکھنے والے کہتے ہیں کہ عرفہ میں 'پاکستان بیکری 'سے مہاجرین کوروٹیاں فراہم کی جارہی ہیں۔پاکستانی بھائیوں کو اللہ پاک نے توفیق دی ہے کہ ان لٹے پٹے مہاجرین کی خدمت کر رہے ہیں۔شامی مہاجرین پاکستان کو عزت کی نگاہ سےدیکھ رہے ہیں۔کہ یہ لوگ ہماری مدد کو آ پہنچے ہیں۔ترک بھائیوں کاخدمت کا جذبہ مزید بڑھ گیا ہے۔اللہ پاک ان سب کی محنتوں کو ، تعاون کو ،خدمات کو اور عطیات کو قبول فرمائے۔آمین

ایک لمحے کے لیے سوچنا ہے کہ اگرکوئی جانور اگ میں زندہ جل رہا ھوتو ہم میں سے ہر ایک کی اس کو زندہ نکالنے کی کوشش ہوگی ۔اسکی مرہم پٹی اور خوراک کا انتظام بھی کیا جائیگا ۔جانور کو بھی چھوڑئے ۔اگر کوئی غیر مسلم کسی آفت مصیبت میںگھر جائے تو بحیثیت انسان ہم اسکی مدد سے دریغ نہیں کرینگے ۔پھر یہ مہاجرین تو مسلمان بھی ہیں ۔ آ ئیں اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے اگے بڑھیں ۔ان کو خوراک ،رہائش ،علاج معال جہ ،گرم کپڑے اور بچوں کے لیے دودھوغیرہ کی سخت ضرورت ہے۔ یہ سارابندوبست ترکی کے انصار اور پاکستانی رضا کار کر رہے یہاں پاکستان سے جامعت الرشید خبیب فاؤنڈیشن کے ذریعے سے آپ اپنےعطیات اور زکات کی رقم بھیج سکتے ہیں۔اگر ہم میں سے کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا تو اللہ پاک کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں تو مانگ سکتےہیں۔یا اللہ اس امّت پر مشکل وقت آں پڑا ہے۔اس کو امن و راحت میں بدل دے۔آمین
Shaukat Ali khan
About the Author: Shaukat Ali khan Read More Articles by Shaukat Ali khan: 6 Articles with 4713 views I am interested in reading books,writing articles,simple life,gentle men and acting upon "do respect have respect"... View More