توڑ رہے ہیں زنجیریں

 ریاست جموں و کشمیر سات دہائیوں سے ایک جیل کا روپ دھار چکی ہے،باہر کی دنیا سے رابطہ کرنا تو مشکل ہے ہی کسی ادارے یا فرد کا یہاں آنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ہم بند پنجرے میں برسوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں چھ لاکھ افراد شہید کرنے کے بعد بھی دنیا کی نام نہاد ــ’’جمہوریت‘‘کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔قصور صرف یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آرزو کر رہے ہیں ،ہم اس جمہوریت کو اسکے وعدے یاد دلا رہے ہیں اور ان وعدوں کی تکمیل پر اصرار کرتے ہیں اس جرم کی پاداش میں لاکھوں شہید ہزاروں معزور کر دئے گئے ہیں ،عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کی گئی مال و متا لوٹا گیا،لاکھوں شہریوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا ،کتنے ایسے ہیں جو جلا وطنی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں،آزادی کا خواب دیکھنے والی آنکھوں کو بے نور کردیا گیا ،بے شمار ایسے ہیں جو جرمِباگناہی میں تختِ دار تک پہنچائے گئے مختصراََ یہ کہ ریاستی جبر کے زریعے ہمارے جینے کے تمام راستے بند کردئے گئے ہیں۔آپ کے زرائع ابلاغ میں جو پیش کیا جا رہا ہے یہ اس ظلم کا عشر عشیر بھی نہیں جو اس جنت نظیر خطے کے باسیوں پر ہورہا ہے ۔ان الفاظ کا اظہار سید علی گیلانی چئیرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس یومِ یکجہتی کشمیر ۵ فروری کو اپنی خصوصی تحریر میں کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور جبر تلے زندگی گھٹ کر رہ گئی ہے،ہمارے نوجوان ،بچوں بھوڑوں ،اورعفت مآب خواتین نے اس جبر کے سامنے جھکنے سے انکار دیا ہے ،ہمارے قائدین عقوبت خانوں کی بدترین صعوبتوں کے باوجود حقِ خوداریت کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔ہمارے اوپر بیتنے والے ظلم پر صدائے احتجاج بلند کرنا اگرچہ آپ کا فرض ہے لیکن مجھے امید ہے کہ آپ ہماری آواز کو آزاد دنیا تک پہنچانے میں مزید تعاون کرینگے ،ہمارے ہاتھ پاؤں بندھے ہیں لیکن ہماری زبانیں کوئی نہیں بند کر سکتا ہمارے دلوں سے آزادی کی آرزو کوئی نہیں کھرچ سکتا ہم خود حق پر ہیں اور یقیناََ اﷲ حق والوں کے ساتھ ہے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ حق کا ساتھ دیجئے ،ہمیں اسبات کی کوئی فکر نہیں کہ ہماری زندگیوں میں اس خطے کو آزادی ملتی بھی ہے کہ نہیں بس اتنا یقین ضرور ہے کہ ایک روز آزادی کا سورج طلوع ہوکر رہے گا ۔ستر سال گزر گئے مزید ستر بھی گزر گئے تو بھی ہماری نسلیں بھارت کے جبر سے برسرِ پیکار رہینگی۔

یہ تمام گفتگو جسکا اس عظیم رہنما نے اظہار کیا یہ خالی الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ ہر اُس کشمیری کے دل کی آواز ہے جو ستر سال سے اس ظلم و بربریت میں بھی مایوس ہونے کے بجائے اُن کے حوصلے ہر دن کے نئے طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ ساتھ بلند ہوتے جا رہے ہیں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں سبز حلالی پرچموں کی بہار اور نعرہِ آزادی گونج رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان میں سیاسی مباحث اور پاناما اسکینڈل کیس کے سبب کشمیر کی تحریقِ آزادی سے لاتعلقی دیکھنے میں آرہی ہے ۔حکومتی سطح پر بھی مقبوضہ کشمیر میں بھاری مظالم پر اظہار مزمت کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کیا رہا ہے اسمیں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کیلئے بھر پور انداز میں آواز بلند کی تاہم اسے کافی سمجھنا نادانی ہے اور خود کو دھوکہ دینا ہے ،پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور جسطرح مطالبہ کیا حکومتِ پاکستان کو بزرگ کشمیری رہنما کہ اس مطالبے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ سید علی گیلانی ،مولانا فضل الرحمان سے کوئی زاتی یا سیاسی اختلاف نہیں رکھتے اور نہ ہی اس مطالبے میں کوئی سیاسی آمیزش پائی جاتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیر کمیٹی اب محض چند رسمی اجلاسوں کے انعقاد اور مزمتی بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ اسکا مقصد دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا تھا جبکہ ایک مستند زرائع کے مطابق یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ کشمیر کمیٹی میں سالانہ پچاس کروڑ کا بجٹ مختص ہوتا ہے تو آخر کچھ تو ایسی اصلاحات اور ترجیحات اس کمیٹی میں شامل ہونی چاہئیں جو بین الاقوامی سطح پر طے کی جائیں ۔اقوامِ متحدہ میں پُرزور انداز میں اسوقت تک صدائے احتجاج بلند کرتے رہنا چاہئے جب تک کہ وہ اسکے سدِ باب کیلئے کوئی حقیقی جانبدارانہ لائح عمل اختیار نہ کر لیں ۔

اسکے برعکس پیر کو قومی اسمبلی میں کشمیریوں کے حقِ خودداریت کے ضمن میں ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ ایوان بھارت کی جانب سے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی مذمت اور اس دعوے کو مسترد کرتا ہے ،قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی مسلسل خاموشی حیران کن ہے ،اقوامِ متحدہ کشمیریوں کو حقِ خودداریت دلوائے اور عالمی برادری خاموشی توڑے ،دریں اثنا قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی سکیٹری نے تحریک پیش کی کمپنیوں سے متعلق اور اس سے منسلک معاملات کیلئے اصلاحات کرنے اور قانون از سرِ نو وضع کرنے کا بل کمپنی 2016قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیرِ غور لایا جائیجسکی منظوری کے بعد وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد نے بل پیش کیاجسکو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا کمپنی بل2016 کمپنیوں سے متعلق اس سے منسلک معاملات کیلئے اصلاحات کرنے اور قانون از سرِ نو وضع کرنے سے متعلق ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیرنے کہا کہ حکومت کی فراخدلی اور اپوزیشن کی کوششوں کی تعریف کرتا ہوں جسکی بدولت یہ بل متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔

اگر ہم ایک لمحے کیلئے بھی بھی خود سے یہ بات محسوس کریں کہ ہم اپنے گھر میں ہیں ہمارے والدین ہمارا خاندان سب بہت خوشحال ہوں اور بہت اچھی زندگی گزار رہے ہوں اور اچانک کوئی باہر سے حملہ کر دے ہمیں خود اپنے ہی گھر میں یرغمال بنا لے اور ہم پر ہر طرح سے ظلم کرے اور اس ظلم کو سہتے سہتے ہمیں کئی برس گزر جائیں ستو ہماری کیا حالت ہوگی اس وقت کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کا ہم اپنے تصور میں بھی اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے ہم انکی عظیت اور تکالیف کو سن کر برداشت نہیں کر پاتے ہم سے ٹی وی پر دیکھنا محال ہو جاتا ہے وہ تو ستر سالوں سے ان تمام حالات سے بر سرِپیکار ہیں اِنکی یہ کوئی تیسری چوتھی نسل ہے جو اس قربناک ماحول میں پرورش پارہی ہے۔

انہوں نے اپنے بزرگوں کو رہنماوئں کو یا تو زنداں میں عظیتوں میں پایا یا انکو تختہ دار پر لٹکا ہوا دیکھا بے جرم انکو سزائیں ملیں بنا کسی قصور کے زندہ جلایا گیا تو یہ سب دیکھتے سہتے انکے اندر ایک لاوا سا پکتا جا رہا ہے اور وہ پوری طرح سے یہ بات جان چکے ہیں کہ یہ جنگ ہمیں اب خود سے لڑنی ہے انکی حالت اب do and dieوالی ہو چکی ہے ابھی گزشتہ ب برس نوجوان برھان وانی کی شہادت نے کشمیریوں کے سینوں میں بدلے کی آگ کو اور بھی بھڑکا دیا ہے نوجوان، بچوں اور عورتوں بھوڑوں سب میں ایک انقلاب سا برپا ہو گیا ہیاب انکو اسبات سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی انکی مددکو آتا بھی ہے کہ نہیں اب وہ اپنی مدد آپ کے تحت بنا کسی ہتھیار کے میدانِ عمل میں بھپرے ہوئے شیر کی مانند کود پڑے ہیں اور انکا یہ جنون وقت کی ہر جنبش کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے موجودہ نسل نے یہ بات ٹھان لی ہے کہاب مرنا ہی ہے تو کیوں نا مار کر مرا جائے وہاں کا بچہ بچہ اپنے اندر ایک مجاہد بن چکا ہے بھارتی انکے اس جنگی جنون سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور بُزدل بھارتی فورسز وہاں کے معصوم بچوں اور نہتی عوام پر اس طرح کے ہتھیار عام استعمال کر رہی ہے کہ جس سے انکی آنکھیں ،چہرہ اور سینہ بُری طرح زخمی ہوجاتا ہے ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور نوجوانوں کو نابینا کر دیا گیا ہے مگر پھر بھی انکے حوصلے بلند ہیں اور یہی وہ جزبہ ہے جو وہاں کا بچہ بچہ بھارتی فورسز کے سامنے ڈٹ کر بنا کسی ڈر اور خوف کے چیخ چیخ کر کہتا ہے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘․․․․ان کا یہ جزبہ آزادی تاریخ میں کی گئی آزادی کی جدوجہد آزادی ہند یاد دلا تا ہے بقول جوش ملیح آبادی کہ
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اُکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
Nida Yousuf Shaikh
About the Author: Nida Yousuf Shaikh Read More Articles by Nida Yousuf Shaikh: 19 Articles with 13064 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.