بہتر ہو گا اگر مریم نواز کو وزیر خارجہ بنادیا جائے تو

حکومت کیلئے بہتر ھوگا کہ مریم نواز کو وزیر خارجہ بنادیا جائے کیونکہ مریم نواز نے نے امریکی خاتون اول کی موجودگی میں جس اعتماد کے ساتھ خطاب کیا تھا اور حال ہی میں مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقاتوں اور ان سے گفتگو نے بھی ان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے، دفتر خارجہ سے متعلقہ افراد کا امریکہ نوازی کے رجحان کا تاثر اپنی جگہ تاہم وہ وزیر خارجہ کی حیثیت میں مریم نواز کی بہترین رہنمائی ضرور کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم کو اس سے دو فوری فائدے یہ حاصل ہوں گے کہ ایک تو ان کا بوجھ کم ہوجائے گا، دوسرے کسی دوسرے ساتھی کے مقابلے میں خارجہ معاملات میں اپنے دل کی بات مریم سے زیادہ کھل کر کرسکتے ہیں
موجودہ صورتحال میں وہ ممالک جو پاکستان کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں جن سے مذہبی، ثقافتی رشتے بھی استوار ہیں یعنی سعودی عرب، ترکی، قطر، متحدہ عرب امارات، دوبئی، بنگلہ دیش، افغانستان اور ایران سے بھارت کی سفارت کاری، سرمایہ کاری اور تجارتی روابط زیادہ ہیں۔ بھارتی حکمران اپنے ملکی و قومی مفادات کے حصول و تحفظ کے لئے مخلص ہیں جبکہ پاکستان کا منظرنامہ دیکھا جائے تو اقتدار کی رسہ کشی، لوٹ کھسوٹ، پوائنٹ سکورنگ، مقررہ مدت سے پہلے حکومت کو گرانے کے لئے کھلے اور سازشی ہتھکنڈے، عوامی مسائل سے اجتناب، اندرونی طور پر استحکام نہ بیرونی تعلقات میں پائیداری، کسی شعبے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی نہ مؤثر خارجہ پالیسی کے لئے کوئی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔ اسس وقت صرف چین اور پھر ترکی ہی دو ملک ایسے ہیں جو پوری طرح ساتھ نبھا رہے ہیں۔ ترکی کی پاکستان دوستی ایک تو تجارتی روابط میں آنے والی وسعت، دوسرے ترکی کی اسلامی ممالک سے تعلقات بڑھانے کی پالیسی کی مرہون منت ہے جبکہ چین کی دوستی پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کے باعث مجبوری بھی ہے کہ خطے میں اس کے مفادات کی ڈور اس سے بندھی ہے۔ ایک اہم معاملہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ ہی نہیں ہے اور کیوں نہیں ہے، اس کی کوئی ٹھوس وجہ سمجھ نہیں آرہی۔ سفارت کار جتنے مرضی پیشہ ورانہ اہلیت رکھتے ہوں، کولیگ ہونے کے ناطے سیکرٹری خارجہ ایک خاص حد تک ہی بازپرس کرسکتا ہے۔ اس کی دلیل ہمارے سفارت کاروں کی کارکردگی ہے جبکہ وزیر خارجہ کولیگ نہیں، باس ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر باس کا دبدبہ محسوس کیا جاتا ہے اور اسے کچھ نہ کچھ کارکردگی دکھانی اور اس کے احکامات کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہمارے دفتر خارجہ کے بابوئوں میں پیشہ ورانہ اہلیت کی کمی ہے۔ ہر دور کے وزیر خارجہ کو ان سے بہترین رہنمائی ملتی رہی ہے، میں اسے ساتھیوں پر بداعتمادی نہیں سمجھتا بلکہ یہ گمان رکھتا ہوں کہ وزیراعظم نواز شریف نے خارجہ محکمہ اپنے پاس اس اعتماد کے ساتھ رکھا ہے کہ وہ بیرونی معاملات کو بھی زیادہ بہتر انداز سے دیکھ سکیں۔ یہ ایک ایسے ملک کیلئے تو بہتر ہے جہاں معاملات معمول کے مطابق چل رہے ہوں لیکن پاکستان جیسے ممالک جہاں غیر معمولی صورتحال ہو اور وزیراعظم پر پہلے ہی ذمہ داریاں کا بہت بوجھ ہو وہاں معاملات کی درستگی کے لئے ذمہ داریوں کی تقسیم بہتر حکمت عملی سے جناب سرتاج عزیز کا خارجہ امور کا تجربہ اپنی جگہ مشیر کی حد تک معاملہ ٹھیک ہے لیکن انہیں مشیر رکھ کر وزیر خارجہ کا کام لیا جارہا ہے۔ یہ اس لئے زیادہ مفید نہیں ہے کہ بیرونی دنیا میں مشیر خارجہ کو وزیر خارجہ کا پروٹوکول مل سکتا ہے نہ اس سطح پر بات چیت ممکن ہے پھر طارق فاطمی تو معاون خصوصی ہیں اور اُصولی طور پر ان کا دفتر خارجہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا تعلق وزیراعظم سیکرٹریٹ سے ہے، کس خارجہ معاملے میں وزیراعظم کی معاونت کرسکتے ہیں، کسی بھی معاملے میں معاونت ایسے شخص یا ماہر سے حاصل کی جاتی ہے تو اس خاص شعبہ میں مہارت تامہ رکھتا ہو، طارق فاطمی کی سفارت کارکی حیثیت سے کوئی ایسا کارنامہ دفتر عملی میں نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ سفارتی معاملات میں واقعی دانائے روزگار ہیں اسلئے حکومت کیلئے بہتر ھوگا کہ مریم نواز کو وزیر خارجہ بنادیا جائے کیونکہ مریم نواز نے نے امریکی خاتون اول کی موجودگی میں جس اعتماد کے ساتھ خطاب کیا تھا اور حال ہی میں مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقاتوں اور ان سے گفتگو نے بھی ان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے، دفتر خارجہ سے متعلقہ افراد کا امریکہ نوازی کے رجحان کا تاثر اپنی جگہ تاہم وہ وزیر خارجہ کی حیثیت میں مریم نواز کی بہترین رہنمائی ضرور کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم کو اس سے دو فوری فائدے یہ حاصل ہوں گے کہ ایک تو ان کا بوجھ کم ہوجائے گا، دوسرے کسی دوسرے ساتھی کے مقابلے میں خارجہ معاملات میں اپنے دل کی بات مریم سے زیادہ کھل کر کرسکتے ہیں۔ اس وقت تشویش ناک صورت ہے کہ ملک تیزی سے اندرونی خلفشار کی جانب بڑھ رہا ہے، اپوزیشن کی جانب سے پہلے ’’ وزیراعظم کا احتساب‘‘ اور حکومت کی جانب سے ’’ سب کا احتساب‘‘ کے موقف پر سختی نے ٹی او آر کمیٹی کو ناکامی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ تحریک انصاف ’’سولو فلائٹ‘‘ کی طرف گامزن ہے۔ جماعت اسلامی بھی سنا گیا ہے اس کے نقش قدم پر چلنے کا سوچ رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری بھی سیاسی رونق میلہ لگانے کے لئے چند روز میں لاہور آرہے ہیں۔ معاملات کو ایوان میں حل کرنے کی بجائے سڑکوں پر لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کی سیاسی بقا کا تقاضا ہوگا کہ حکومت کے خلاف تحریک انصاف سے زیادہ بلند آواز سے بات کرے ورنہ سندھ تک محدود ہوجانے والی پیپلز پارٹی کا سندھ سے بھی بستر بوریہ گول ہوجائے گا۔ میاں نواز شریف کی ذاتی مقبولیت اپنی جگہ مگر حکومت کی کارکردگی بالخصوص لوڈشیڈنگ کا عذاب سوالیہ نشان ہے۔ بعض لوگوں کی جانب سے وزیراعظم کو موجودہ بحرانی صورت سے نکلنے کے لئے درمیانی مدت کے الیکشن کرانے کی راہ دکھائی جارہی ہے مگر متذکرہ بالا صورت حال میں خود (ن) لیگ کے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے کتنے امکانات ہیں، اس میں وزیراعظم اور (ن) لیگ کے لئے خود احتسابی کے انداز میں جائزہ اور سوچنے سمجھنے کا بہت سامان ہے اسوقت وطن عزیز کے سیاسی حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں، اس میں بلاشبہ (ن) لیگ کی قیادت کی سیاسی فراست آزمائش کے مرحلے میں ہے اور انہیں موجودہ حالات کے تناظر میں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اقدامات اٹھانے چاہئیں مڈٹرم الیکشن کی موجودہ صورتحال میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا وقت صرف دو سال رہ گیا ہے اور اس عرصے میں حکومت کو سب سے بڑا چیلنج لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہے جسکا انہوں نے قوم سے وعدہ کر رکھا ہے اور اگر حکومت واقعی سنجیدگی سے اگلے انتخابات سے قبل سارے ملک سے لوڈشیدنگ ختم کردے تو کہا جاسکتا ہے کہ حکومتی جماعت دوبارہ انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 299456 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More