شاگردوں کی ہی پیروی کرلی جائے!

بتایاجاتا ہے کہ پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن(پی آئی اے) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار کی جاتی تھی اور لاجواب سروس باکمال لوگ کا سلوگن بھی اسی کا شاخسانہ ہے جبکہ موجودہ دور میں دنیامیں صف اول کی ایئر لائنزجن میں ایمریٹس ایئر لائن، رائل مراکو ایئر لائن مالٹا ایئر لائن و دیگر کی تربیت کا سہرا بھی پی آئی اے کا سر سجتا ہے یہ عجیب و غریب باتیں ہیں جو کہ ہضم ہونے میں نہیں آرہی ہیں کیونکہ موجودہ صورت میں کہیں سے نہیں لگتا کہ پی آئی اے کی کارکردگی اتنی باکمال ہوسکتی ہے اور اگر فرض کربھی لیں تو آجکل کی موجودہ صورت کو کیا کہیں گے یہ کہ سفید ہاتھی نظر آنے والا ادارہ اربوں روپے خسارہ ظاہر کرنے والاادارہ کبھی عروج کی داستانوں میں بھی لکھا گیا ہے ۔ پی آئی اے ہی کیا پاکستان کے وہ تمام ادارے جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتے تھے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کاکردار رکھتے ہیں آج اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ(پی ٹی سی ایل)پاکستان ریلوے، پاکستان سٹیل ملز، واپڈا و دیگر ادارے کمال عروج پر تھے آج سسک رہے ہیں جاں بلب ہیں ان کے قاتل جو کبھی سڑکوں کی خاک چھانتے تھے کوڑی کوڑی کو محتاج تھے جن کو ایک وقت کی روٹی بھی صحیح معنوں میں میسر نہ تھی جو سینما چلاکر اور بلیک میں ٹکٹ بیچ کر گزر بسر کیا کرتے تھے آج وہ کھربوں ڈالرز کے مالک بنے بیٹھے ہیں ادارے تنزلی کاشکار ہیں اور افراد عروج و فراز کی مسند پر تکیہ نشین ہیں اور ان اداروں کی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ان کی ناکامی و تنزلی میں صر ف اور صرف سیاست کا زہریلا اور دشمن نما عنصر واضح دکھائی دیتا ہے ان میں انفرادی مفاد کی اولیت دکھائی دیتی ہے اور اجتماعیت کا گلا گھٹتا نظر آتا ہے۔بے جا بھرتی، لاحاصل اخراجات ،بے ثمر توقعات اور خودساختہ مراعات نے مذکورہ بالا اداروں کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسی نہیں چھوڑی ہے ۔

اعدادو شمار کے مطابق تقریبا18 ہزار ملازمین پی آئی اے سے وابستہ ہیں اور پرکشش تنخواہیں وصول رہے ہیں ان میں مبینہ طور پر 50 فیصد وہ لوگ ہیں جن کا کوئی کام نظر آتا ہے اور نہ وہ کام کرتے نظر آتے ہیں بس ایسے لوگ ہی ہیں جن کی جیب خرچی چلانے اور اللے تللے پورے کرنے کیلئے حکومتی خزانے کو بے دریغ لوٹا جارہا ہے۔نجکاری کرنا کوئی خلاف فعل قانون ہے اور نہ ہی خلاف شرع۔اگر احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے ،خفیہ طور پر بندر بانٹ نہ کی جائے اور اقربا پروری کا دامن جھٹک دیا جائے تو نجکاری شفاف اور غیر متنازعہ معاملہ ہے۔ خدا کی پناہ!35 کے قریب طیاروں کی دیکھ بھال کیلئے اٹھارہ ہزار افراد کا جم غفیر۔اگر ضرب تقسیم کا عمل کیا جائے تو ہر طیارے کی خاطر مدارت کیلئے 500 کے قریب افراد کا ٹولہ موجود ہے لیکن یہ صرف ٹولہ ہی ہے ان ٹولوں کی اگر سکروٹنی اس طرزپر کی جائے کہ کام کے لوگ الگ کرلئے جائیں تو ایک طیارے کی دیکھ بھال کیلئے100 کا عملہ ایک معیاری عملہ تصور ہوگاکیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ایمریٹس ایئر لائن دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے اور پی آئی اے کی شاگرد رہ چکی ہے اس میں بھی طیارے کی دیکھ بھال اور خاطر مدارت کیلئے 150 کے لگ بھگ عملہ ہوتا ہے اور اگر حقیقی معنوں میں کام کرے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے یا پھر اپنے شاگردوں کے نقش قدم پر چلے تو ناصرف ہم دوبارہ باکمال لوگ بن کر لاجواب سروس دے سکتے ہیں اورپھر سے استاد کادرجہ حاصل کرسکتے ہیں اور خود ساختہ خسارے بھی ہماراساتھ چھوڑ سکتے ہیں

دراصل ہمارے ہاں ہوتا کیا ہے کہ ایک کام کیلئے دس کا عملہ متعین ہوتا ہے زید سمجھتا ہے کہ یہ کام بکر نے کرنا ہے جبکہ بکر جو ہے عابد کو تک رہا ہوتا ہے کہ عابد نے کرنا ہے اس طرح وہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتااور تنخواہ دس دس لے رہے ہوتے ہیں کام کوئی نہیں کررہا۔ پھر کسی بھی کام کو منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا جاتا جب سر پر آپڑتی ہے تو پھر شیطان کے کام(عجلت)برتی جاتی ہے جو کہ سراسر نقصان کا سبب بنتی ہے۔علاوہ ازیں یونین کا کردار بھی ان بداعمالیوں کو شہ دیتا ہے دھرنے ہڑتالیں شورشرابہ ملازمین کرتے ہیں اور مذاکرات یونین لیڈرز۔ مذاکرات کے کامیاب ہونے پرملازمین کو طفل تسلی ملتی ہے جبکہ لیڈر کی ٹھاٹ باٹ اور ٹوربدل جاتی ہے یعنی ڈیل۔ تازہ ترین صورتحال بھی اسی قسم کی ہے دو ملازمین جان سے گئے۔ سرد و گرم کو ملازمین نے جھیلا اور یونین لیڈرز بغیر کسی فیصلے پر پہنچے وزیر اعظم کی آشیر باد لینے پہنچ گئے اور ہڑتال ختم۔بھئی اگر یہی کام کرناتھا توپھر یہ ڈرامہ کس لئے رچا گیا تھا کیوں عوام الناس کو ذلیل و خوار کیا گیا۔ کوئی جنازے میں شامل نہ ہوسکا تو کوئی عمرہ کی سعادت سے محروم ہوگیا کسی کا انٹرویو کینسل ہوا تو کوئی ملازمت سے ہاتھ دھوبیٹھا کوئی علاج معالجہ کی سہولت سے فیض یاب نہ ہوا تو کوئی آپریشن نہ کراسکا۔ موجودہ حکومت کی کل تو ویسے ہی نرالی ہے کوئی بھی کام صحیح ڈھنگ سے آج تک نہ ہوپایا ہے لہذا اگر حکومت اپنی نا اہلیوں کو چھپانے کیلئے ادارے قومیا رہی ہے تو پھر ان لوگوں کو پہلے ملازمت سے برخاست کرے جوانہوں نے اقربا پروری اور رشتہ داری نبھانے کیلئے out of way تعینات کرائے یا کئے اور جو ایک مکمل پروسس سے گزر کرمیرٹ پر تعینات ہوئے ان کو نجکاری سے دور رکھا جائے ۔ اپنی کوتاہیوں خامیوں نااہلیوں اور شاہ خرچیوں کا ملبہ ملازمین پر نہ ڈالا جائے۔رہا احتجاج تو پرامن احتجاج ہر شہری کا قانونی و آئینی حق ہے شہری سرکار کا ملازم ہو کہ پرائیویٹ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے کہ پرامن احتجاج کوئی بھی کرسکتا ہے کیونکہ ماضی قریب میں آپ بھی اسی کا حصہ تھے تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو مجھے یاد ہے ذرا ذرا……
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192568 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More