بھیک نہیں! خودانحصاری

آج کل کوئی بھی چینل آن کرتا ہوں تو ہمارا لیکٹرانک میڈیا بھیک مانگنےکے فن میں جدت کے نئے رنگ بھرنے میں مصروف نظرآتاہے عقل کل کے دعوے دار اینکرز نادار اور ضرورت مند لوگوں کو ٹی وی اسکرین پر مانگنے کے گر سکھانے میں مصروف ہوتے ہیں اور غریبوں کے کچھ ہمدرد ان غریبوں کی مدد کا وعدہ کر کے اپنی تونگری اور سخاوت کا اعلان کرتے نطر آتے ہیں اور یہ اینکرز ایسا کیوں نہ کریں کہ ناداروں کی عزت نفس کو مجروع کرنے کا بازار سجانے سے ناصرف چینلز کی ریٹنگ بڑھتی ہے بلکہ غریبوں کی عزت کی نیلامی سے مجبور عوام کو اپنے حقوق مانگنے سے با ز رکھنے کا حکمرانوں کا ہدف بھی پورا ہوتا ہے ۔

انسان کی معاشرتی زندگی میں میڈیا کسی نہ کسی شکل میں موجود ر ہا ہے اہل علم ،شعرا اور ادبا ء کو قدیم معاشرے کا میڈیا قرار دیا جا سکتا ہے ان لوگوں نے کبھی بھی اپنے افکار ، اشعار یاپیغام میں عوام کوکسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی تعلیم نہیں دی بلکہ انہوں نے ہمیشہ عوام کو خود انحصاری کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے کام اور محنت کی تلقین کی ، پرانے دور میں میڈیا کی حیثیت رکھنے والے ان لوگوں نے عوام کوغاصب حکمرانوں سے اپنے حقوق لینے کا درس دیا اسی لئے ظالم حکمرانوں کو یہ لوگ ایک نظر نہیں بھاتے تھے ان کو قتل کیا جاتا جیلوں میں ڈالا جاتا یا پھر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا لیکن اس کے باوجود ان لوگوں نے حق گوئی اور لوگوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے احتراز نہیں کیا ۔

ایسے گنے چنے لوگ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ایسے خوددار اور محب وطن لوگ جب مختلف چینلز پر عوام کی عزت نفس کو مجروح ہو تے ہوئے دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو پی کر رہ جاتے ہیں بھیک مانگنا اور قرضے بٹور کر ہڑپ کر جانا ہمارا قومی رجحان بنتا جا رہا ہے ہمارے حکمران مانگنے کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ انہوں نے ماہر بھکاری کی مانند مختلف بہانے تراش رکھے ہیں جس طرح ایک پیشہ ور بھکاری خود کو جان بوجھ کر معذور ظاہر کرتاہے اسی طرح ہمارے حکمران مختلف حوالوں سے قوم کی بدحالی کا رونا رو کر اپنے پیٹ کے تندور ڈالرز کے ایندھن سے بھرتے رہتے ہیں کبھی سیلاب زدہ عوام کے ریلیف کے لئے قوم کی عزت نفس کا سودا کر تے ہیں تو کبھی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے عالمی طاقتوں سے ملنے والی امداد کو ہڑپ کر جاتے ہیں ان کی ہوس کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا۔

میڈیا کا فرض ہے کہ وہ حکمرانوں سے اپنے بنیادی حقوق لینے کے لئے ناصرف عوام میں شعور پیدا کرے بلکہ حکمرانوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرےتا کہ حکمرانوں کو مجبور ہو کر عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینا پڑیں لیکن میڈیا اس کے بالکل برعکس کام کر رہا ہے یہ بھی حکمرانوں کی روش پر چلتے ہوئے لوگوں کو مانگنا سکھا رہا ہے کیا عوام کو روزگار اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے! تو پھر رمضان ٹرانسمیشن میں مختلف مجبور مریضوں کو لا کر ان کی سب کے سامنے عزت نفس مجروح کیو ں کی جاتی ہے ؟ ان کو کہا جاتا ہے کہ کیمرے کے سامنے اپنی مشکلات بیان کریں اس سے بڑھ کر انسانیت کی تذلیل کیا ہو گی؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر آپ ایسے مجبور لوگوں کو پردہ اسکرین پر لا ہی رہے ہیں تو حکمرانوں کو جنجھوڑیں جو غریب عوام کے خون پسینے کے نتیجے میں حاصل ہونے والا پیسہ دبا کر بیٹھے ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں خود انحصاری کا جذبہ پیدا کیاجائے انہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع کیا جائے اگر حکمران اپنے فرائض پورے کرنا شروع کر دیں تو ہمارے بہت سے مسائل دنوں میں ختم ہو سکتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وطن عزیز میں غربت دن بدن بڑھ رہی ہے لیکن غربت کی شرح میں اضافے کا سبب ہماے حکمران ہی تو ہیں اس لئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ اگر کوئی غریب بھوکا رہتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت مند نے دولت کو سمیٹ لیا ہے ۔

ہر دین دولت مندوں کو غریب اور نادار لوگوں کی مدد کی ترغیب دلاتا ہے ان سب ادیان میں اسلام کو ہر حکم میں فوقیت حاصل ہے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اسلام کا نام تو گلے پھاڑ پھاڑ کر لیتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ہمارے اعمال اسلام کی تعلیمات سےکوسوں دور ہیں اسلام دوسرے ادیان کی طرح غریبوں اور حاجتمندوں کی حاجت روائی اور ان کی مدد کا حکم دیتا ہے لیکن یہ مدد اس طرح کی جائے کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔

تاریخ ہمارے ایسے بزرگان کے ذکر سے بھر ی پڑی ہے جو اپنی پوری زندگی غربا کی کفالت کرتے رہے لیکن ضرورت مندوں کو اس بات کی خبر تک نہ ہونے دیتے کہ ان کی مدد کون کر رہا ہے ؟یہ راز ان کی موت کے بعد کھلتا جب نادار لوگوں کی مدد کا سلسلہ رک جاتا تو معلوم ہوتا کہ کون ان بے کسوں کی مدد کرتا رہا ہے یا پھر ان شخصیات میں سے جب کسی کا انتقال ہوتا تو پشت پر پڑے نشان اس چیز کی نشاندھی کرتے کہ یہ عظیم انسان رات کے اندھیرے میں اپنی پشت پر غلہ اور ضروریات کی چیزیں اٹھا کر لوگوں کے گھروں تک پہنچاتا رہا ہے ۔

انسانیت کے سب سے عظیم رہبر سرور کائنات حضرت محمد ِ مصطفی ؐ نے ہمیشہ خود انحصاری کا درس دیاآپ ؐ کی حیات مبارکہ اس بات کی گوا ہ ہے کہ آپ ؐ نے انسانوں کو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع فرما کر کام کرنے پر زور دیا آپؐ اپنے طرزِ عمل ،کردار سے خودانحصاری کی تعلیم دیتے تھے رسول اللہ ؐ کا طور طریقہ یہ تھا کہ جہاں تک ہو سکتا اپنے کام خود انجام دیتے او ر دوسروں پر بھروسہ نہ کرتے ۔

سیرت کی کتب میں ہے کہ آپؐ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک سفر میں تھے جہاں پر پانی تھا وہاں ٹھہرا گیا رسول اللہ ؐ پانی کی طرف جا رہے تھے ،لیکن کسی کو کچھ کہے بغیر اپنے اونٹ کی طرف لوٹ آئے ۔صحابہ نےجب یہ دیکھا تو پوچھا:"آپ کو کیا چاہیئے؟فرمایا:"اونٹ کو باندھنا چاہتا ہوں" اصحاب نے کہا "ہمیں اجازت دیں یہ کام ہم کر دیں"فرمایا: لا يستعن أحدكم بالنّاس و لو في قضمة من سواك.

اپنے کاموں میں دوسروں سے ہرگز مدد نہ لو (دوسروں پر بھروسہ نہ کرو)اگرچہ مسواک کی لکڑی کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔

اسی طرح منقول ہے کہ ایک سفر میں طے ہوا کہ کھانے کے لئے گوسفند ذبح کیا جائے ۔ہر ایک صحابی نے ایک ایک کام اپنے ذمہ لیا۔ایک نے کہا:"میں گوسفند ذبح کروں گا۔"دوسرے نے کہا:"میں کھال اتاروں گا۔"تیسرے نے کہا:"اسے پکانا میرا کام۔"رسول اللہ ؐ نے فرمایا:"میں لکڑیاں اکھٹی کروں گا ۔"اس پر صحابہ نے کہا :"اے اللہ کے رسول یہ سب کام ہم کر لیں گے ،آپؐ زحمت نہ فرمائیں۔"اس پر حضرت نے فرمایا:
قد علمت أنّكم تكفوني و لكنّي أكره أن أتميّز عليكم فإنّ اللّه يكره من عبده أن يراه متميّزا بين أصحابه.
میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ میرا کام انجام دیں گے لیکن میں اس بات کو دوست نہیں رکھتا کہ تم پر کوئی برتری رکھوں،اس لئے کہ اللہ تعالی پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندوں میں سے کوئی بندہ اپنے ساتھیوں پر برتری رکھے۔

آپ ؐ اٹھے اور لکڑیاں اکھٹی کرنے میں مشغول ہو گئے ۔

رسول اللہ ؐ اس بات کی تاکید فرماتے تھے کہ آپ ؐ کے پیروکار اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنے سے پرہیز کریں اور اپنے ہاتھ سے کما کر کھائیں۔

آپؐ فرماتے تھے: كلوا من كدّ أيديكم. اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاؤ۔

حضرت"ابن عباس رض"سے منقول ہے کہ ایسا شخص آپ ؐ کی نظر میں مقام بنا پاتا جو کسی نہ کسی پیشے سے منسلک ہوتا آپؐ اس سے پوچھتے کہ کیا کام کرتے ہو ؟اگر جواب ملتا کہ کوئی کام نہیں کرتا تو آپؐ فرماتے"تم میری نظروں سے گر گئے۔

انفرادی اور قومی سطح پر اگر ہم دوسروں سے مدد کی ہی توقع رکھیں گے اور خود عملی طور پر کچھ نہیں کریں گے تو اس سے ناصرف ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اپنی انفرادی اور قومی عزت و تخص بھی گنوا بیٹھیں گے اس لئےہمیں انفرادی اور قومی سطح پر خود انحصاری کی ضرورت ہے یہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔
 
shabir bin raheem
About the Author: shabir bin raheem Read More Articles by shabir bin raheem: 3 Articles with 2327 views I am only A student of knowledge.. View More