محکمہ تعلیم میں سیاست گردی

ریاست جموں کشمیر کے اس حصہ میں ۱۹۴۷ میں قائم ہونیوالی حکومت جلد ہی پاکستانی قیادت کی دست نگر بن گئی، ابتداء میں اس خطہ میں حکومت سازی کے لئے پاکستان کے ارباب اختیار و اسٹبلشمنٹ کی طرف سے صدر و کابینہ کے نام وہاں سے جاری کئے جاتے تھے ستر کی دہائی میں یہاں انتخابی عمل کا آغاز ہوا اور سیاستدانوں کے لئے عوام کے پاس جانا لازمی ٹھہرا ،پہلے پہل اس عمل میں جمہوریت اور خطہ کو جدید خطوط پر تعمیر کی امید بندھی لیکن جلد ہی علاقائی و روائتی سیاست نے اس امید کو بری طرح متاثر کیا، کیوں کہ عاقبت نا اندیش اور وژن سے عاری سیاست کار جو میدان سیاست میں محض زاتی پروٹوکول اور پر آسائش زندگی کی خواہش وخواب دل میں لئے تشریف لائے تھے۔ ضروری تھا کہ اس نومولود خطہ میں جہاں جن انسانی حقوق کی خاطر بیش بہا قربانیاں دی گئی تھیں وہاں تمام تر جمہوری اداروں کو دورجدیدکے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی بنیادیں صدیوں پر محیط منصوبہ بندی پررکھتے جوسب کے لئے ایک مثال ہوتا لیکن بے حسی ،مفاد پرستی و نااہلی کے اندھیروں میں گھرے حرس ولالچ میں مدہوش قیادت نے وہ سب کچھ تیاگ دیا جسے یہاں کے لوگوں نے بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ ابتداء سے ہی پاکستانی قیادت کو یہاں کے سیاسی نظام وقیام میں بیجا مداخلت کی کلین چٹ دیدی گئی اوریوں اس دور کی سیاسی قیادت وہ اقتدار جو انہیں ریاستی عوام نے دینا تھا کی خاطرپاکستانی دارالحکومت کا طواف کرنے پر مجبور ہوئے اور اپنے عوامی و جمہوری حقوق و اختیارات سے دستبردارہوئے اور جب یہاں عوامی انتخاب کا نظام متعارف کروایا تو سیاسی قیادت کو اقتدار میں آنے کے لئے عوامی ووٹ کے حصول کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت کا آشیر باد لینابھی لازمی ٹھہرا،جو ان کے لئے دودہاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہو گیا تھا،پھر اس بے اختیار قیادت نے ان دونوں اہم ترین مسائل کا آسان حل ڈھونڈ لیا کہ پاکستانی قیادت سے ٹانکہ فٹ رکھتے ہوئے ان کی فرمانبرداری کو یقینی بنائیں اور عوام کومصروف رکھنے کے لئے ان سے قصیدہ گوئی ،چرب زبانی اور رعاکاری سے اقتدار تک پہنچا جائے اور اس طرح کے منفی سوچ کے باعث یہاں کا سیاسی نظام جڑ پکڑنے سے پہلے ہی تباہی کی جانب چل پڑھا ۔ادارے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی بدعنوانی کا گڑھ بن گئے اس لئے کہ ان بے اختیار سیاستدانوں کے پاس یہاں کے عوام کو دینے کے لئے کچھ باقی نہ رہا تھا اس لئے انہوں نے سبھی اداروں میں تقرریاں اور بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کی نیت سے کیں اور جتنے ادارے وجود میں آئے وہ بھی سیاسی حمائت کی نیت سے بنائے گئے ناں کہ عوام کی سہولت کی خاطر ۔۴۷ میں ڈھائی اضلاع تھے جو آج ۹ ہو چکے ہیں اور یہ ساری تقسیم بھی محض اسی سیاسی نیت و مقصد سے کی گئی ۔

قارئین کرام ! تعلیم کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کاپہلا زینہ ہوتی ہے ۔یہی ادارہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے جو ملک قوم کو ترقی کی بلندیوں پہ لے جاتے ہیں لیکن خطہ میں انتخابی سیاست کے آتے ہی سیاسی قیادت جو بے اختیار ہونے کے باعث عوام کو بنیادی حقوق جیسی کوئی سہولت فراہم کرنے سے قاصرتھی البتہ اس نے اپنی خواہشات و سطحی مقاصد کی خاطر سب سے زیادہ نقصان اس مقدس ادارے کو پہنچایا۔ ۔انہوں نے تب سے آج تک یہاں جتنے تعلیمی ادارے قائم کئے یا ان کو ترقی دی اور جتنے نئے سکولز بنے تمام سیاسی بنیاد پر بنے ناں کہ کسی منصوبہ بندی کے تحت اور آج تک اس ادارے میں معلم و معلمات ،لیکچرر،پروفیسرز اور سٹاف کی اسی فیصد تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر نہیں سیاسی بنیادوں پر ہوتے رہے ہیں ۔سینکڑوں سکولز صرف فائلوں میں ہیں اور ان کے نام پر سٹاف و اساتذہ کی باقائدہ تنخوائیں جاری ہوتی ہیں ۔سینکڑوں معلم و معلمات ایسے ہیں جو بیس بیس برسوں سے ایک ہی تعلیمی ادارے میں جمے ہوئے ہیں اور سینکڑوں ایسے ہیں جو کروڑوں روپئے ماہانہ قومی خزانے سے وصول کرتے ہیں بیرون ممالک سیر وسیاحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں برسوں سے ڈیوٹی نہیں کرتے اورحکومت کی ناک کے نیچے یہ سب ہو رہا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی جگہ چند ہزا روپئے پر لڑکے لڑکیوں کو رکھا ہوا ہے اورکچھ ایسے بھی ہیں جو تنخوائیں تو قومی خزانے سے لیتے ہیں لیکن خود پرائیویٹ اداروں میں جاب کرکے نوٹ سمیٹتے میں مصروف ہیں ۔کسی کو کسی کا کوئی ڈر خوف نہیں ناں ہی خدا سے ۔کیوں کہ پورا نظام ہی بدعنوانی کی تصویر بنا ہوا ہے اس لئے بھی کہ درس وتدریس پر متعین ان لوگوں کا مانیٹرنگ سسٹم بھی بدعنوانی کے ساتویں آسمان پر ہے وہاں بیٹھے اعلیٰ ترین آفیسرزخواتین و حضرات کے اعلیٰ حکومتی شخصیات سے تعلقات نے انہیں اپنے فرائض منصبی سے غافل کر رکھا ہے ۔دنیا کا یہ واحد علاقہ ہے جہاں خواتین وحضرات اساتذہ کرام کو پانچ اور دس سال تک کی طویل چھٹی دے دی جاتی ہے کہ وہ بیرون ممالک جاکر لائف انجائے کریں اور درہم و ڈالر کمائیں ۔ریاستی عوام کے خون پسینے سے آج تک یہاں ۴۰۰۷ پرائمری ۹۰۶ مڈل ۵۵۲ ہائی سکول و کالجز۲۹۹۲بوائز انسٹیٹیوٹ ۲۴۷۲ گرلز انسٹیٹیوٹ قائم ہوسکے ہیں جہاں ہزاروں اساتذہ کرام و معلمات تعینات ہیں اور ہزاروں افراد پر مشتمل سٹاف ہے جو انہیں ڈیل کرتا ہے ۔ حکومت آزاد کشمیر کے سال ۱۵۔۱۶ بجٹ کے مطابق قوم نے اس محکمہ تعلیم کے لئے ایک بلین اور ایک سو ملین روپئے دئیے ہیں جو اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ یہ قوم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اس ادارے پر اتنی بڑی رقم انویسٹ کرتی ہے تا کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ و مہذب نسل کو پروان چڑھائے لیکن یہاں عملاً اس کے برعکس ہو رہا ہے اس ادارے کا سالانہ رزلٹ نہ ہونے کے برابر ہے ہر خاص و عام چاہیے وہ دہاڑی دار مزدور ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے بچے کوسرکاری سکول کی نسبت پرائیویٹ سکول میں بھرتی کروانے کو ترجیح دیتا ہے اس لئے کہ اس ادارے نے ہر کسی کو مایوس کیا ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں لوگ محض پیسے بنانے کے لئے بھرتی ہوتے ہیں۔اورسالانہ کھربوں روپئے خرچ کرنے کے باوجود یہ ادارہ قوم کو بد عنوان ملازم و سیاست دان تو مہیا کر سکتا ہے مگر ایسے کردار نہیں لا سکتا جو دنیا میں ملک و قوم کا نام و پہچان بن سکیں جس کی زمہ داری سیاسی قیادت سے بڑھ کر سول سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے کہ آنکھیں کھلی رکھے اس لئے اگر آپ کو اپنی نسلوں کو پھلتے پھولتے دیکھنا ہے مہذب قوم بننا ہے تو ملک کے اس مقدس ادارے کو بہتر بنانے میں اپنا قومی کردار ادا کریں محض مہینہ بھر میں محکمہ تعلیم کے اس کردار پر ایک بیان جاری کر دینا یا کوئی ایک کالم لکھ دینا کافی نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام قلمکار اہل علم و دانش ،سیاسی و فلاحی تنظیمیں اور سول سوسائٹی مل کر صدائے احتجاج بلند کریں ورنہ آپ کے پاس کچھ نہیں باقی نہیں بچے گا -
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75298 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.