آئینِ پاکستان - ردّی کی ٹوکری میں

پاکستان بنانے والوں نے پاکستان کے لئے "Islamization" (اسلامی بنانےکا) پلان بھی بنایا تھا، جو آئینِ پاکستان میں “قراردادِ پاکستان“ کے عنوان سے محفوظ ہے۔ مگر یہ پودا پروان نہ چڑھ سکا کیونکہ “منزل انھیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے“۔ اقتدار کے بالا خانوں میں جلد ہی ان لوگوں کا غلبہ ہو گیاجنہیں اسلام کے نام سے چِڑ تھی۔ وہ “غریب مسلمانوں کے خون پسینے سے حاصل کردہ“ اس ملک کو صرف اپنے لئے دولت کے پہاڑ کھڑے کرنے، اسے معہ اپنی اولاد بیرونِ ملک منتقل کرنے یا اسے “منی لانڈرنگ“ کے ذریعہ قانونی آلودگی سے پاک کرکے پاکستان میں رکھنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اسکا آسان طریقہ یہ سوچا کہ“قراردادِ پاکستان“ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے، اسلام کے لئے صرف LIP SERVICE والی منافقت سے کام لیا جائے، اسے نافذ کرنے کے لئے عملاً کچھ نہ کیا جائے اور نئی نسل کے دل سے اسلام کی محبت نکال دی جائے۔ اسکے لئے نئی نسل کو، جس حد تک ہو سکے، انکے SYLLABUS کی تبدیلی سے اسلام اور نظریہ پاکستان سے دور کیا جائے۔ ان میں عریانی و فحاشی کو فروغ دیا جائے (جسکے لئے الیکٹرانک میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے)۔ نیز مخلص مسلمانوں کے اتحاد اور جذبہ پاکستان کو پارہ پارہ کرنے کے لئے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ جس میں زائرین کی بسوں میں فائرنگ اور مذہبی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ وغیرہ سے خوب کام لیا جائے۔

اب آیئے تصویر کے ایک اور رُخ کی طرف: میڈیا والوں نے سب سے بڑی قیامت ڈھائی ہے۔ مسلمان لڑکیوں سے “کیٹ واک“ کرائی جا رہی ہے جسکا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سلے سلائے کپڑوں کی ایڈورٹائزنگ کے ذریعے عورتوں کی عریانی کو خوب فروغ دیا جارہا ہے۔ پاکستانی عورتوں نے (جو عورت کے نام پر دھبہ ہیں) بمبئی جاکر عریاں تصاویر بھی کھچوائی ہیں۔ ٹیلی وژن کے پروگراموں، حتٰی کہ نیوز چینل تک میں خواتین کا ڈوپٹہ اوڑھنا تقریباً ختم کردیا گیا ہے۔ کبھی کبھی تکلفاً سر کے بالوں کو دو لٹوں کی شکل میں سینے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جس سے سینہ بھی نہیں ڈھکتا کیونکہ ہر ایک خاتون “زُلفِ بنگال“ کی حامل نہیں ہوتی۔ اکثر مواقع پر اسکا تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔ الغرض اسلامی پردے کو TV پر پارہ پارہ کردیا گیا ہے۔ اسلامی سیاسی جماعتوں کو اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیتے اور عوام کو اسکے استیصال کے لئے تیار کرنا چاہئے۔

اگر پاکستان کو نت نئے فسادات، بشمول انتہاپسندی، دہشت گردی وغیرہ سے نجات دلانی ہے تو آئینِ پاکستان میں شامل ‘قرارداد مقاصد‘ کو عملی جامہ پہنانا ہوگا اور اسکا سب سے اچھا طریقہ یہ ہوگا کہ طریقہ انتخاب بدل کر (متناسب نمائندگی کے ذریعہ) دولت کے پجاریوں کے بجائے محبّانِ پاکستان اسمبلیوں میں لائے جائیں جو ‘قراردادِپاکستان‘ کو عملی جامہ پہنائیں۔ اسکے لئے اسلامی خیالات والی جماعتوں کا آپس میں اشتراکِ عمل ناگزیر ہے جو پہلے بھی کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔ اس معاملے میں یقیناً اللہ انکا حامی و ناصر ہوگا اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ انشاء اللہ۔
ظفر عمر خاں فانی
About the Author: ظفر عمر خاں فانی Read More Articles by ظفر عمر خاں فانی : 38 Articles with 39095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.