خدارا …! قوم کی امانت ’جمعیۃ ‘کے شیرازہ کو مجتمع کردیں !

جمعیۃ علماء ہند مسلمانوں کی ایک بہت ہی مضبوط او رباوقار تنظیم ہے ۔ آزادی ہند کے ناقابل یقین سانحہ کے بعد اس تنظیم نے مسلمانوں پر جو احسانات کیے ہیں وہ شمار نہیں کیے جاسکتے ہیں ۔ 1947کے بعد سے ہر ملی ومعاشرتی معاملہ میں یہ مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے اور ہمیشہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ دوش بدوش رہی ہے… مسلکی اختلافات سے قطع نظر اس نے اپنے دائر ہ کار کو وسیع کرکے ہر ممکن طریقے سے مسلمانان ہند کی دادرسی کی اور انہیںاپنی آغوش محبت میں جگہ دی ہے… جب ہندوستان میں بھاگلپور فساد کے بعد فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھا اور ملک مخالف عناصر کے ذریعہ مسلمانوں کو نیزے پر اچھالا جانے لگا …معصوم بچوں کی معصومیت سے پڑے انہیں زندہ نذر آتش کیاگیا …اور وہ مسلمان عورتیں جن کی عفت کی گواہی معصوم فرشتے بھی دے سکتے تھے جو ساری زندگی عفت وپاکدامنی کی زندہ مثال بنی رہیں…فرقہ پرستوں کے ذریعہ ان پاکیزہ اور مقدس مائوں ، بہنوں کی عصمت کو تار تار کیا … مسلمانوں کی جائیدادو تباہ وبرباد کردی گئیں … تو ایسے نازک موقع پر جب کہ ہندوستان کی عدلیہ او رمرکزی حکومت بھی محض ایک تماشائی بنی رہی …جمعیۃ علماء ہند ہی وہ واحد تنظیم تھی جو مسلمانوں کے لیے اور ان فرقہ وارانہ فساد کی بھینٹ چڑھنے والے معصوموں کے لیے میدان عمل میں آئی …اور مالی تعاون سے لے کر سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ، سپریم غرضیکہ جہاں تک ممکن تھا انہیں انصاف دلانے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہی…جمعیۃ علماء ہند نے نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات میں مظلوم مسلمانوں کی رہائی او رانہیں انصاف دلانے میں کلیدی رول ادا کیا بلکہ قدرتی آفات کے متاثرین کے لیے بھی دل کھول کر خرچ کیا ہے …اور بلاتفریق مذہب وملل اس نے کار خیر انجام دئیے ہیں۔ خواہ سنامی کا اثر رہا ہو یا آسام سیلاب زدگان کا معاملہ یا پھر ممبئی کے26جولائی 2005کے سیلاب کی تباہی ہو یا پھر گجرات میں زلزلہ کا قہر یا پھر کشمیر سیلاب کا معاملہ رہا ہوں یا حالیہ نیپال اور شمالی ہندوستان کا تباہ کن زلزلہ ہر جگہ ہر طریقے سے اس تنظیم نے انسانیت کی خدمات انجام دی ہیں جو تاریخ ہند میں کسی اور تنظیم کے حصے کا مقدر نہیں بن سکی۔

گزشتہ دو دہائی سے ملک مخالف عناصر کے شکار اور غلط مقدمات میں پھنسے معصوم نوجوانوں کی رہائی وانصاف کے لیے اس تنظیم نے جو کارہائے نمایاں اور بیش بہا خدمات انجام دی ہیں وہ مسلمانان ہند پر ایک احسان عظیم ہے …لیکن افسوس! صد افسوس کہ 2006میں حضرت امیر الہند فدائے ملت مولانا اسعد مدنیؒ کی وفات کے بعد جب حضرت الاستاذ مولانا سید ارشد مدنیؒ صاحب صدر منتخب کیے گئے تو ان کے منتخب ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد اس مرکزی تنظیم کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ۔ آپس میں غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں اور 2008ء میں ملت کا یہ عظیم سرمایہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا پھر ایک دوسرے پر تہمت وبہتان تراشی کا ایک عظیم او رلامتناہی سلسلہ قائم ہوا …لیکن بیان بازیوں کے درمیان بھی رہ ان دونوں ٹکڑوں نے قوم کی فلاح کے کام انجام دئیے … اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملہ سے لے کر مظفر نگر اور اٹالی فسادات تک مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کی او رکامیاب بھی رہے … لیکن کچھ دن قبل جمعیۃ علماء مہاراشٹر (م) کی طرف سے ایک مضمون شائع کیاگیا اورنگ آباد کیس کے سلسلہ میں، دوسرے دن جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) کا تردیدی بیان اخبار وں کی زینت بنا محروسین کی دستخطوں کے ساتھ کہ اس کیس کی پیروی جمعیۃ علماء ارشد مدنی کررہی ہے … پھر بیان بازی کا ایک کھیل جو کہ فی الحال بند تھا پوری شدومد کے ساتھ جاری ہوگیا… اور پھر جمعیۃ علماء (م) کا بھی تردیدی بیان آیا کہ اس کیس کے ایک ملزم کی ہم پیروی کررہے ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہند کاایک دوسرے کے خلاف اس طرح بیان بازی کرنا قوم کے لیے نقصاندہ ہے…قوم بیچاری پریشان ہے کہ آخر کون صحیح ہیں کون غلط (حالانکہ دونوں اپنے کام اپنے مشن میں مخلص ہیں اور دونوں صحیح ہیں ) لیکن اس طرح سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہمارے لیے زیب نہیں دیتا ہم خود اپنی طاقت کو توڑ کر دشمنوں کے لیے راستے فراہم کررہے ہیں۔ اس کا فائدہ مسلم مخالف طاقتیں آپ دونوں کو آپس میں ورغلا کر کررہی ہے… قوم کی ایک آواز آج دو حصوں میں بٹ چکی ہے …آپ کے آپسی انتشار کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے… کیا ہی اچھا ہوتا کہ دارالعلوم اس مرکزی تنظیم میں اتحاد کی راہیں ہموار کرتی جس طرح جب اس کے تقسیم کا قضیہ ہوا تھا تو سختی سے انہوں نے مولانا ارشد مدنی اور قاری عثمان صاحب سے کہا تھا کہ جمعیۃ میں رہیں یا دارالعلوم میں اور ان دونوں حضرات نے اپنے عہدہ اہتمام اور عہدہ نظامت تعلیم سے استعفیٰ دے کر جمعیۃ علماء ہند کے لیے فریضہ انجام دینے کی حامی بھری تھی … کاش آج پھر دارالعلوم اسی سختی سے پیش آئے … اس قضیہ سلجھائے… کاش احباب شوریٰ اس جانب توجہ دے کر اس تنظیم کو متحد کرنے کی کوشش کرتے…!

ہمارے اسلاف نے اس تنظیم کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے خدارا ان کی مقدس روح کو تکلیف پہنچانے کے اسباب نہ پیدا کریں …دونوں جمعیۃ میں بہترین دانشور ہیںاگر وہ چاہیں تو دونوں تنظمیں جو کبھی ایک تھی اب بھی متحد ہوسکتی ہیں …خدارا قوم کی اس امانت کو انتشار کا ذریعہ نہ بنائیں … بے چاری قوم تذبذب کا شکار ہے کہ علماء ہی آپسی رنجش کے شکار ہیں تو اگر ہمارے اندر یہ خامی ہے تو کیا بڑی بات ہے…! خدارا قوم کی اس امانت کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے قوم کو دوحصوں میں نہ بانٹیں … سنجیدگی سے غوروفکر کریں اور متحدہ پلیٹ فارم پر آجائیں ۔ آخر میں دونوں جمعیتوں کے سرکردہ افراد سے درد مندانہ اپیل ہے کہ کسی معتبر شخصیت کو ثالث مقرر کریں یا پھر خود ہی آپس میں بیٹھ کر اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کریں اورباہمی غلط فہمی کا ازالہ کرکے متحد ہوں تاکہ قوم میں جو انتشار ہے وہ ختم ہوجائے… قوم کے ان مخلصین سے بھی درد مندانہ اپیل ہے جو جمعیۃ کی دامے درمے قدمے سخنے امداد کرتے ہیں وہ ان بیان بازیوں سے سے کبیدہ خاطر نہ ہوں کیوں کہ دونوں ہی ٹکڑے فلاح وبہبود ی کے کام کررہی ہیں آپ کی جہاں مرضی ہو دونوں جمعیتوں میں سے وہاں امداد کریں تاکہ یہ تنظیم مسلمانوں کی ،انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ اور سبھی یک جٹ ہوکر اس امانت اورمقدس تنظیم کو متحد کرنے کی حتی المقدور سعی کریں تاکہ ہماری وہ آواز جو آج دو حصوں میں بٹ گئی ہے وہ ایک ہوجائے اور پھر ہم اسی شدومد کے ساتھ باطل سے لوہا لے سکیں اور ان کا ڈٹ کرکا مقابلہ کرسکیں۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69313 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.