عید شاپنگ اور بلند و بالا قیمتیں - عوام مایوسی کا شکار

یہ ایک گرم دوپہر کا ذکر ہے کہ میں کراچی کی ایک مصروف شاہراہ پر ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا- اس دوران میری نظر ایک کرولا گاڑی پر پڑی جس سے ایک درمیانی عمر کی خاتون نکل کر ایک پھل فروش کے پاس گئی لیکن کچھ دیر پھل فروش کے پاس کھڑے رہنے کے بعد وہ خاتون واپس آ کر گاڑی میں بیٹھ گئیں- ایسا کرنے والی وہ اکیلی خاتون نہیں تھیں بلکہ اس پھل فروش کے پاس کئی گاہک آئے لیکن بغیر کچھ خریدے ہی واپس چلے گئے- یہ کافی حیران کن لمحہ تھا کہ رمضان کے مہینے میں کوئی مسلمان پھل کیوں نہیں خرید رہا؟ لیکن کچھ دیر بعد ہی یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ پھل فروش پھلوں کو اتنہائی مہنگے دام فروخت کر رہا ہے اور گاہک قیمت سن کر ہی پھل خریدنے سے گریزاں ہے -

افسوسناک امر ہے کہ مسلمان ملک ہونے کے باوجود ہماری عوام رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی مہنگائی کے سبب بنیادی ضروریات کی اشیا بھی خریدنے سے قاصر دکھائی دی- اور اگر کوئی طبقہ خریدنے میں کامیاب بھی رہا تو وہ بھی مہنگائی کی شکایت کرتا ضرور نظر آیا-
 

image


عید ایک ایسا تہوار ہے جس کی تیاری کی شروعات ماہِ رمضان کے آغاز سے ہی ہوجاتی ہے لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پاکستان میں مسلمانوں کے لیے اس تہوار کو بھی مشکل اور بےرونق بنا دیا ہے- شہریوں کے لیے عید کی شاپنگ کرنا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں-

پاکستانی عوام عید کے خریداری کے لیے بازاروں کا رخ تو کر رہی ہے لیکن اشیا کی بلند و بالا قیمتیں خریداروں کو مایوسی کا شکار بنا رہی ہیں- دلوں کو جھنجوڑنے والا مقام تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اپنا خوشیوں سے بھرپور تہوار عیدالفطر منانا بھی ایک مسلم پاکستان میں خود مسلمانوں کے لیے مشکل بنتا جارہا ہے- لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس سب کے باوجود پاکستانی عوام کسی نہ کسی طرح ان مشکلات سے نبرد آزما ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق خوشیاں منانے میں مصروف ہے-
 

image

عید کی تیاری
ہم آدھے سے زیادہ رمضان پہلے ہی گزار چکے ہیں اور اب عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں- ٹریفک جام٬ رات گئے تک خریداری اور مجمع سے بھرپور بازار٬ یہ نشانی ہے کہ پاکستانی عید کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں- خریداروں کے لیے بازار 10 رمضان کے بعد رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور خریداری عروج پر ہوتی ہے- لیکن افراطِ زر کی شرح٬ غربت٬ غیر یقینی صورتحال اور اشیا کی بند و بالا قیمتوں کی وجہ سے تباہ حال قوم کے لیے عید کی خوشیاں ماند پڑتی محسوس ہورہی ہیں- یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر عوام اب چیزیں خریدنے کے بجائے صرف دیکھنے پر ہی اکتفا کر رہی ہے اور ایسا طبقہ جو خریدنے کی استطاعت رکھتا بھی ہے وہ بھی ان قیمتوں سے خوش نہیں ہے لیکن خریداری ضرور کر رہا ہے- ہر کوئی اپنی معاشی حیثیت کو کسی حد تک بالائے طاق اور کسی حد تک پیشِ نظر رکھتے ہوئے کپڑے٬ جوتے اور عید کا دیگر سامان خریدنے میں مصروف ہے- خواتین بھی خریداری اور قیمتوں کے معاملے میں حساس دکھائی دیتی ہیں لیکن پھر بھی میچنگ کی جیولری یا سینڈل وغیرہ تلاش کرتی ضرور دکھائی دیتی ہیں-

عید کی شاپنگ اور چاند رات
ہماری قوم تہواروں کو شان و شوکت کے ساتھ منانا خوب جانتی ہے اور عید بھی انہی تہواروں میں سے ایک ایسا تہوار ہے جو ماہِ رمضان کے اختتام پر آتا ہے- ماہِ رمضان کے آخری دس روز خصوصی عبادات٬ اعتکاف٬ عید کی خریداری اور چاند رات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں- ایسے خواتین و حضرات جو مساجد یا گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنے کی خواہش رکھتے ہیں٬ وہ اس کے لیے خصوصی انتظامات کرتے ہیں- اس کے علاوہ جو افراد عید کی خریداری کی خواہش رکھتے ہیں وہ اپنا زیادہ تر وقت اسی کام میں صرف کرتے ہیں- خواتین اپنی رشتہ داروں یا سہیلیوں کے ساتھ مل کر مختلف اسٹالز سے زیورات٬ چوڑیاں٬ جوتی وغیرہ خریدنے کو ترجیح دیتی ہیں- غرض کہ ہر کوئی عید کی خریداری میں مصروف دکھائی دیتا ہے اور آسمان کی بلندیوں کو چھوتی قیمتوں کے باوجود خریداری رکنے کا نام نہیں لیتی- دکاندار بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے عید کی خریداری تو ضروری ہے- یہی وجہ ہے کہ دکاندار اپنی من مانی قیمتوں پر اشیا فروخت کر رہے ہیں اور کئی گنا منافع کما رہے ہیں- دوسری جانب لوگوں کے پاس اس کے سوائے اس کے کوئی دوسرا چارہ نہیں کہ وہ اشیا کی دگنی قیمت ادا کریں-
 

image

ایک طبقہ اور بھی جو اس وقت عیدی بنانے میں مصروف ہے اور رمضان کے اختتام پر شہریوں پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہے٬ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں پولیس اہلکاروں کی جنہیں عید کے بازاروں میں مامور تو ہماری حفاظت اور قوانین کی عملداری کے لیے کیا جاتا ہے لیکن یہ دکانداروں سے اپنا حصہ وصول کرتے دکھائی دیتے ہیں- یہ صورتحال دکانداروں اور خریداروں دونوں کے لیے ہی تکلیف دہ ہے کیونکہ دکاندار رشوت تو دے دیتا ہے لیکن وصول وہ خریدار سے ہی کرتا ہے- اور یہاں بات صرف ایک پولیس کے محکمے تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشرے کئی ایسے کرپٹ عناصر موجود ہیں جن کی بدولت روز بروز مہنگائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور بنیادی ضرورت کی اشیا بھی عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں-

یقیناً چاند رات کو میسر آنے والی لطف و تفریح کا کوئی متبادل موجود نہیں- لوگ اس رات بھی شاپنگ مالز کا رخ کرتے ہیں اور ساتھ ہی مختلف ریسٹورنٹس میں کھانوں سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں- اور اپنے ان لمحات کو دوسروں کے ساتھ شئیر کرنے کے لیے اپنے فیس بک اور ٹوئیٹر کے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں- دوسری جانب خواتین اس رات خوبصورت مہندی لگوانے اور چوڑیاں پہننے کو ترجیح دیتی ہیں اور یوں عید کا گرمجوش انداز استقبال کیا جاتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE:

It is heartbreaking to quote that we reside in a Muslim country where masses can’t afford consumer goods during the month of Ramadan. The month of Ramadan is followed by Eid ul Fitr. The price hike of Ramadan continues to accelerate in the festive season, making shopping the painful activity for the buyers.