پاکستانی تاجروں کی ناپسندیدہ عادتیں

تجارت پیغمبری پیشہ ہے۔ پیغمبری پیشہ میں نے اس لحاظ سے کہا ہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی تجارت کی تھی۔اس کے علاوہ کئی صحابہ کرام ؓ نے بھی تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔اماِ اعظم امام ابو حنیفہؒ بھی کپڑے کے کارخانے کے مالک تھے اور وہ کپڑے بنا کر بیچا کرتے تھے، ان کا کپڑے کا عظیم الشان کاروبار تھا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے زندگی کے ہر معاملے کی طرح تجارت کے معاملے میں بھی انسانیت کی رہنمائی کی ہے اور فرمایا کہ ’’ ایمان دار تاجر قیامت کے دن شہداء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا‘‘۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ تاجر کو چاہیے کہ اگر اس کے مال میں کوئی عیب ہے تو گاہک کو اس کے بارے میں بتا دے۔ لیکن ہمارے ملک پاکستان کے تاجر اور دکان دار حضرات محض پیسے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ، ان کے نزدیک صرف مال بیچنا، مال بنانا اور پیسہ کمانا ہی سب کچھ ہے۔ یہ بات عرض کرتے چلیں کہ سارے ہی دکان دار اور تاجر ایسے نہیں ہیں ہمارے معاشرے میں بہت اچھے اور ایمان دار تاجر اور دکان دار بھی موجود ہیں لیکن بے ایمان لوگوں کی وجہ سے لوگ ان پر بھی شک کرتے ہیں۔ یہاں ہم پاکستانی تاجروں اور دکان داروں کی ناپسندیدہ عادات کا ذکر کریں گے ، جو کہ اسلام کے بھی خلاف ہیں اور کاروباری اخلاقیات کے بھی منافی ہیں۔
 

جعلی پرائس ٹیگ لگانا:
یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں ہمارے تاجر حضرات کی اکثریت مبتلا ہے۔اس کا طریقہ کار بہت سادہ اور کم خرچ ہے یعنی اسٹیشنری کی دکان سے پرائس ٹیگ کے اسٹیکر کا رول خریدا، دکان میں موجود اشیا کی اصل قیمت کا ٹیگ ہٹا کر اصل قیمت سے کہیں زیادہ قیمت کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ عموماً یہ ٹیگ اصل قیمت سے 25 تا 30فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ اب کوئی گاہک ان کے پاس آتا ہے تو اسے وہ چیز کی اصل قیمت کا اندازہ نہیں ہوپاتا اور وہ اصل قیمت سے زیادہ رقم ادا کرکے وہ چیز خرید لیتا ہے۔اگر کوئی گاہک (زیادہ تر خواتین) اگر قیمت پر بحث کریں اور رعایت کا مطالبہ کریں تو یہ ہوشیار دکان دار بڑی چالاکی سے انہیں 10سے 20 فیصد رعایت دیتا ہے ۔ گاہک بیچارہ سمجھتا ہے کہ دکان دار نے میرے ساتھ بہت مہربانی کی ہے جب کہ اسے یہ نہیں پتا چلتا کہ درحقیقت وہ اصل قیمت سے اب بھی کم و بیش 5 فیصد زیادہ رقم ادا کرچکا ہے۔ لوگوں کو کتابوں سے دور کرنے والے عوامل میں سے ایک عامل جعلی پرائس ٹیگ بھی ہیں کیوں کہ اردو بازار کے اکثر دکان دار کتابوں پر لکھی ہوئی اصل قیمت مٹا کر اس پر جعلی ٹیگ لگا دیتے ہیں اور جو لوگ کتاب خریدنا بھی چاہیں تو وہ بڑی دشواری محسوس کرتے ہیں۔ پرانی اور استعمال شدہ کتابوں کے ساتھ بھی یہی عمل کیا جاتا ہے اور حال یہ ہے کہ نئی کتاب اور استعمال شدہ کتاب کی قیمت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔

image


تہواروں کے موقع پر ناجائز منافع کمانا:
ہم پاکستانی اہل یورپ کو بر ابھلا کہتے رہتے ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ وہاں ایسٹر، کرسمس اور رمضان المبارک عید کے موقع پر جی ہاں رمضان المبارک کے مہینے اور عید کے موقع بھی پر اشیا کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان تہواروں پر با آسانی خریداری کرسکیں اور احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپ کے بیشتر ممالک میں لوگ سارا سال محتاط انداز میں خریداری کرتے ہیں اور وہ کرسمس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ جب قیمتیں کم ہوں اس وقت دل کھول کر خریداری کریں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے یہاں تاجر طبقہ اس ایسے مواقع کو اپنی جیبیں بھرنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ پھل اور سبزیوں کی قیمتیں رمضان المبارک کے آتے ہی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ گارمنٹس کی اشیا کے نرخ بڑھ جاتے ہیں، کپڑے ، جوتے، چوڑیاں اور دیگر اشیا کے نرخ دگنے کردیے جاتے ہیں۔ناجائز منافع خوری کے حوالے سے اپنا ذاتی واقعہ شیئر کرنا چاہوں گا۔ میری شادی کے موقع پر دلہن کے لیے غرارہ خریدنا تھا۔ میری والدہ، بہن اور ہونے والی دلہن مارکیٹ گئے، ایک غرارہ پسند کیا۔اس کی قیمت پوچھی تو 28ہزار روپے بتایا گیا۔ کیا آپ لوگ سوچ سکتے ہیں کہ اٹھائیس ہزار والا وہ سوٹ والدہ نے کتنے کا خریدا ؟سودے بازی ہونے لگی،28ہزار سے 22,پھر15 اور پھر دکان دار نے کہا کہ جی 10ہزار فائنل ہیں اس سے ایک روپیہ کم نہیں ہوگا۔والدہ اس دوران خاموش بیٹھی رہیں، دکان دار نے کہا کہ اماں آپ بھی تو کچھ بولیں، والدہ نے کہا 3ہزار روپے ۔دکان دار ہتھے سے اکھڑ گیا اور کہنے لگا کہ امّاں یہ کیا بات کردی آپ نے ، ایسی چیز نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ والدہ نے کہا ٹھیک کوئی بات نہیں ہم کہیں اور دیکھ لیتے ہیں ۔ دکان دار نے پھر سودے بازی شروع کی اور جناب دکان دار نے 28ہزار والاوہ سوٹ 4500میں بیچ دیا ۔اس ایک واقعے سے ناجائز منافع خوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے دکان داروں سے بات کی جائے تو وہ اس موضوع پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ، اگر کوئی شامت کا مارا گاہک یہ کہہ دے کہ جناب یہ چیز تو مارکیٹ میں کم قیمت میں دستیاب ہے عموماً اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے بڑی ڈھٹائی اور بد تمیزی کے ساتھ جواب دیں گے کہ ’’ پھر وہیں سے لے لیں ہمارے پاس کیوں آئے ہیں۔

image


عیب دار مال بیچنا:
یہ ایک بڑی عام سی برائی ہے۔ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ عیب دار چیز کو خوبصورت پیکنگ میں رکھا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ چیز کا خوشنما حصہ سامنے رہے اور عیب چھپا رہے۔ یہ کام زیادہ تر کپڑوں وغیرہ کے معاملے میں کیا جاتا ہے۔کوشش کی جاتی ہے کہ گاہک چیز کو زیادہ الٹ پلٹ کر نہ دیکھے اور چیز کو ایسے ہی پسند کر کے خرید لے۔سادہ لوح افراد دکانداروں کے جھانسے میں آکر چیز کو زیادہ دیکھے بغیر محض دکان دار کی بات پر اعتبار کرکے خرید لیتے ہیں اور پھر گھر جاکر دیکھتے ہیں تو چیز کا عیب نظر آتا ہے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت۔ جو لوگ ذرا ہمت والے ہوتے ہیں وہ دکاندار کے پاس چیز واپس لے جاتے ہیں تو اب سنیے کہ 80 فیصد دکان دار یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ انہوں نے عیب دار چیز بیچی تھی اور وہ چیز کو واپس لینے سے انکار کردیتے ہیں۔امام ابو حنیفہ ؒ کے پاس کچھ تھان ایسے تھے جن میں کچھ نقص تھا، انہوں نے ملازم کو ہدایت کی کہ جب ان کو بیچنا تو گاہک کو ان کے نقص کے بارے میں پہلے بتا دینا، پھر چاہے وہ خریدے یا نہ خریدے۔ ملازم یہ بات بھول گیا اور نقص بتائے بغیر تھان بیچ دیئے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہیں بہت افسوس ہوا اور انہوں نے سارے تھانوں کی قیمت اﷲ کی راہ میں خیرات کردی ۔کیا ہمارے تاجر حضرات ایسی کوئی مثال قائم کرسکتے ہیں؟

image


نو گارنٹی:
یہ بھی ایک ہمارے دکانداروں کی ایک معیوب عادت ہے۔آپ ان کی دکان سے کوئی چیز خریدیں اور اس کی کوئی گارنٹی طلب کریں تو 50 سے 60 فیصد دکان دار صاف منع کردیتے ہیں کہ اس کی کوئی گانٹی نہیں ہے، آپ کو چیز لینی ہے تو لیں ورنہ آپ کی مرضی ہے۔ اور یہ رویہ عموماً بڑی دکانوں کے مالکان اپناتے ہیں یوں کہہ لیں کہ اونچی دکان پھیکا پکوان۔ کپڑا خریدنے جائیں تو دکان میں پہلے سے ہی لکھا ہوا ہے رنگ کی کوئی گارنٹی نہیں ۔ رُواں نکلنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔الیکٹرونکس مصنوعات میں اگرچہ گارنٹی تو دی جاتی ہے لیکن جب کوئی مسئلہ ہوجائے اور گارنٹی CLAIM کی جائے تو پوری کوشش کی جاتی ہے کہ چیز کی خرابی کو ماننے کے بجائے سارا الزام صارف پر ڈال دیا جائے اور مندرجہ ذیل مختلف الزامات صارف پر لگائے جاتے ہیں۔’’ آپ نے چیز گرا دی ہے‘‘ ’’ اوور وولٹیج ہوگیا ہوگا‘‘ ’’ آپ نے ہی غلط استعمال کیا ہوگا‘‘۔ مختلف سافٹ وئیرز اور گیمزکی سی ڈیز کی خریداری میں یہ تلخ تجربہ بھی ہوا کہ عموماً 8سے 10 روپے والی خالی سی ڈی ریپر میں ڈال کر30سے 40 روپے فروخت کی جاتی ہے اور ساتھ میں کہہ دیا جاتا ہے کہ سی ڈی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اب جو بندہ اپنی کسی ضرورت کے تحت سافٹ وئیر کی سی ڈی خرید کر گھر لاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سی ڈی تو BLANKہے، لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا۔

image


ملاوٹ:
جی ہاں یہ انتہائی قبیح اور مجرمانہ عادت بھی ہمارے تاجروں اور دکان داروں میں پائی جاتی ہے۔ عام طور سے جب ملاوٹ کی بات کی جائے تو سب سے پہلے دودھ میں پانی کی ملاوٹ کا تصور ابھرتا ہے لیکن یہ بات واضح رہے کہ ملاوٹ کی کئی قسمیں ہیں۔بچھیا کے گوشت میں بھینس اور عمر رسیدہ گائے اور بیل کے گوشت کی ملاوٹ۔ بھینس کے دودھ میں بکری اور گائے کے دودھ کی ملاوٹ، دودھ میں پانی کی ملاوٹ۔ روکھے اور چکنائی سے پاک گوشت کی قیمت میں چکنائی اور چربی کی ملاوٹ، بغیر ہڈی کے گوشت کی قیمت میں ہڈی کی ملاوٹ، صاف ستھرے پھلوں میں داغی اور سڑے ہوئے پھلوں کی ملاوٹ، 24قیراط کے سونے میں 18قیراط کی ملاوٹ، سونے میں چاندی اور کھوٹ کی ملاوٹ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب آپ سونا خریدنے جائیں تو کسی اعتبار والے سنار کے پاس ہی جائیں ورنہ عام طور سے سونے میں چاندی اور کھوٹ کی ملاوٹ عام ہے۔کچھ مارکیٹس میں تو ایسا بھی ہے کہ آپ دکان سے زیور خریدیں اور دکان دار سے کہیں کہ اسے تیزاب میں ڈال کر چیک کرائیں تو وہ اپنی ہی چیز کو تیزاب میں ڈال کر چیک کرانے سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ اس طرح سونے میں ملاوٹ ظاہر ہوجاتی ہے۔ جو دکان دار اپنی دکان کا سونا چیک کرانے پر تیار نہ ہو، تو سمجھ جائیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

image


خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا
دنیا کے کئی بیشتر خطوں میں اسلام کی تبلیغ اور ترویج کا بڑا ذریعہ مسلمان تاجر تھے۔ مسلمان تاجر جن جن خطوں میں مالِ تجارت لے کر جاتے تھے ، وہاں کے مقامی لوگ مسلمان تاجروں کے حسنِ اخلاق، ایمانداری ، سچائی اور معاملات میں دیانت داری کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیتے تھے۔ ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ مسلمان تاجر کسی جگہ مال بیچ کر گئے اور چھے مہینے یا سال کے بعد جب دوبارہ اسی علاقے میں گئے اور لوگوں نے گزشتہ بار میں خریدے ہوئے مال میں نقص کی نشاندہی کی یا وہ اس سے مطمئن نہ تھے اور اس کو تبدیل کرنا چاہتے تو یہ مسلمان تاجر بڑی خندہ پیشانی سے اس مال کو واپس لیتے یا تبدیل کرلیتے ۔ یہ کاروباری اصول اور روایت اہل مغرب نے اپنا لیا لیکن خود ہمارا کیا حال ہے؟ آپ مارکیٹ میں جائیں تو بیشتر دکانوں پر یہ جملہ لکھا ہوا نظر آتا ہے’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا‘‘ Thinks sold once will not be return or exchange
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟؟؟ ہمارے گارمنٹس اور ریڈی میڈ کپڑوں کی دکانوں میں عام طور سے ٹرائی روم نہیں ہوتا جہاں کوئی فرد اپنا سوٹ پہن کر اس کی فٹنگ وغیرہ چیک کرسکتا ہے۔اس کی غیر موجودگی میں کپڑوں کی سائز اور فٹنگ کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ اب اگر کوئی فرد سوٹ لیکر جاتا ہے اور وہ اس کو پورا نہیں آتا تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے تبدیل کرائے لیکن دکان دار بیچی گئی چیز کو واپس لینا تو دور کی بات تبدیل کرنے میں بھی عار محسوس کرتے ہیں۔ کپڑوں، برتنوں اور الیکٹرونکس کی اشیا تو ایک طرف شہر کے معروف اور بڑے بڑے میڈیکل اسٹورز پر بھی یہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’بیچی گئی ادویات واپس یا تبدیل نہیں ہونگی‘‘۔ زندگی بچانے والی ادویات کے ساتھ بھی ہمارا یہ معاملہ ہے۔

image

 ان کے عادتوں کے علاوہ بھی مختلف افراد کو دکان دارو کی طرف سے مختلف شکایات مثلاً بد اخلاقی، بد تمیزی ، جھوٹ وغیر ہ ہوسکتی ہیں لیکن ان سب کا یہاں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ ایک بار پھر یہ بات عرض کرتے چلیں کہ سارے ہی دکان دار اور تاجر ایسے نہیں ہیں ہمارے معاشرے میں بہت اچھے اور ایمان دار تاجر اور دکان دار بھی موجود ہیں لیکن بے ایمان لوگوں کی وجہ سے لوگ ان پر بھی شک کرتے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE:

For those of you who don’t know how to bargain and play clever, shopping isn’t an easy task. It’s a war that you always lose. You know you are doomed and so does your shopkeeper. Here are some of the most common things every shopkeeper says that annoy you to the core.