پاکستان بھارت تعلقات کا مستقبل اور مسئلہ کشمیر

اسلام آباد میں ایک غیر ملکی ’’این جی او‘‘ نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے آئندہ دس سال کے بعد کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ایک غیر ملکی غیر سرکاری تنظیم ’ فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ‘ نے بھارتی اور پاکستانی سیاسی رہنماؤں، سابق سفیر، فوجی اہلکاروں اور میڈیا کے نمائندوں سے یہی سوال کیا کہ2024 میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے؟’ فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات دس سال بعد کی صورتِ حال بھی آج کل سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی، جس میں بے اعتمادی اور جھگڑے کا سلسلے تقریبا اب جیسا ہی رہے گا جبکہ متنازع معاملوں کا حل ہونا بھی مشکل نظر آتا ہے۔رپورٹ شائع ہونے سے پہلے سیاسی تعلقات، عسکری اور سکیورٹی تعاون، معاشی اور تجاری تعلقات اور ثقافتی پہلوں پر ایک تین روزہ کانفرنس میں دونوں ممالک کے نمائندوں نے بات چیت کی جس کے نتیجے میں تین منظرناموں پر اتفاق ہوا۔پہلا اور بدترین منظرنامہ یہ ہے کہ 2024 میں اگر تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو زیادہ ممکن ہے کہ یہ کشمیر میں شدت پسند حملے کی وجہ سے ہو۔ حملے کے بعد جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے، تاہم، بین الاقوامی دبا اور ذمہ داریوں کے باعث ، یہ لڑائی محدود رہے گی۔ تاہم، اس بات پر اتفاق ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات حادثوں کے شکار رہتے ہیں اور متنازع سرحدی علاقوں میں فائرنگ کے واقعات بھی بڑھ کر تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، دوسرا منظرنامہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کا سلسلہ جاری رہے گا جس میں امن قائم کرنے کے عمل میں کبھی پیش رفت ہو گی اور کبھی نہیں۔ اس منظرنامے میں سویلین سیاسی قیادت کا تعلقات بہتر کرنے میں کردار اتنا ہی محدود رہے گا جیسے آج کل ہے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ثقافتی تبادلے کے حوالے سے کچھ حد تک پیش رفت نظر آ رہی ہے، جیسے میڈیا کے مشترکہ پروگرام اور ثقافتی اور ادبی میلوں کے انعقاد میں اضافہ۔رپورٹ کے مطابق، 2024 میں سب سے بہترین منظرنامہ یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مثبت بات چیت ہو رہی ہو اور امن کے قیام کے لیے بتدریج بہتری نظر آ رہی ہو۔ تاہم، ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ اس بہترین منظرنامے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل اعتماد قائم ہو۔ اس منظرنامے میں تجاری تعلقات میں بھی بہتری نظر آئی گی لیکن سیاچن اور کشمیر کے معاملوں پر کسی قسم کے معاہدے کی امید نہیں ہے۔تاہم، سر کریک اور پانی کے معاملے میں مسائل حل ہو جائیں گے۔ رپورٹ جاری کرنے کی تقریب میں سابق ہائی کمشنر جہانگر اشرف قاضی نے کہا کہ اگر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو سمجھدار اور پاکستان کے طویل مدتی مفاد کی بنیاد پر بنانی ہو گی تو اس کے لیے ہمیں اپنے سب سے بڑے ہمسائے بھارت کو اپنا حریف ملک نہیں تصور کرنا چاہیے۔ ہاں، کشمیر اور دیگر تنازعات کی وجہ سے کشیدگی چلتی رہے گی لیکن آج کل کی صورتِ حال تو نہ جنگ ہے اور نہ ہی امن اور یہ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔ دس سال بعد اس موجودہ پالیسی کے لیے پاکستان کو بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے امیدیں بہت تھیں لیکن گذشتہ ایک برس میں انھوں نے پاکستان کو یا تو نظرا انداز کیا یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا پہاڑ بنا کر بات چیت سے دور رہنے کا جواز بنایا۔’این جی او ‘ کی اس پورٹ نے اپنی سفارشات میں زور دیا کہ دونوں ممالک کو طویل مدتی امن کی جانب غور کرنے کی ضرورت ہے، جو تجارتی تعلقات بہتر کرنے اور دونوں ممالک میں قدامت پسند عناصر پر قابو پانے سے پورا ہو سکتا ہے، جبکہ افغانستان کو بھی دو طرفہ بات چیت کے موضوعات میں شامل کرنا چاہیے۔ لیکن مستقبل، آج کل سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔

’فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ‘نامی ’این جی او‘ کے موضوعات میں علاقائی تنازعہ کے طور پر تنازعہ کشمیر بھی شامل ہے اور یہ ’این جی او‘کشمیر کے موضوع پر بھی کئی پروگرام ترتیب دے چکی ہے جس میں منقسم کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان عوامی رابطے بھی شامل ہیں۔تنازعہ کشمیر سے متعلق کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان منعقدہ اجلاسوں میں’فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ‘ کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ تشدد کو تنازعہ کے حل میں آلہ کار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے،کشمیریوں کو ساتھ لیکر چلنے والے مزاکرات کئے جائیں،مسئلہ کشمیر تینوں فریقوں کے لئے قابل قبول حل کی ضرورت ہے،کشمیریوں کی طرف سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا اہمیت کا حامل ہے، کشمیر میں جنگ بندی اورکشمیر کی لائین آف کنٹرول (سیز فائر لائین) سے کشمیری مہاجرین کی واپسی،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ اور شہری علاقوں سے فوج کی تعداد میں کمی۔اس تنظیم کا کہنا ہے کہ سول سوسائٹی کے درمیان ڈائیلاگ کے نتائج سامنے آتے ہیں اور کشمیر کے مقامی اخبارات میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق اقدامات تجویز کیئے جاتے ہیں،تاہم مسئلہ کشمیر کا حل حکومتوں کے پالیسی سازوں پر منحصر ہے،ان کوششوں کے کئی امور حکومتوں کے زیر غور آتے ہیں ، حکومتوں کو عوام کی خاص ضروریات اور امنگوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ان کوششوں سے کئی امور میں پیش رفت ہوئی ہے۔اس ’ این جی او‘ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بات کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کشمیر کے تمام خطے میں کشمیری اختلافی رائے رکھتے ہیں۔’فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ‘ نے کچھ عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی خواتین کی کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔اس ’این جی او‘ کے ویب سائٹ پہ دیئے نقشے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائین کو ہی سرحد ظاہر کیا گیا ہے۔

یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے کہ آئندہ دس سال کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ،خراب اور علاقائی ترقی پر مضر طور پر اثر انداز رہیں گے۔مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے بھارت کے ہٹ دھرمی پر مبنی انکار اور پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اہم اقدامات میں دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود بھارت سے تعلقات میں مسئلہ کشمیر کو اہمیت دینے کی صورتحال آئندہ بھی یونہی جاری رہتے نظر آتی ہے۔تاہم اس متوقع منظر نامے کو اگر کوئی تبدیل کر سکتا ہے تو وہ خود کشمیری ہیں جو عالمی سطح پہ تسلیم شدہ اپنے حق آزادی کے لیئے اپنی جدوجہد کو موثر بنانے کے اقدامات کر سکتے ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614094 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More