دنیا کی بہترین جیل جہاں قیدی مہمان سے کم نہیں

ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے ساحل سے تقریباً 75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک جزیرہ ناروے کے 115 خطرناک ترین مجرموں کا گھر ہے اور یہاں قید کیے جانے والے مجرم قتل٬ ریپ اور منشیات فروشی کے جرائم میں ملوث ہیں-

لیکن یہ قید خانہ یا جیل روایتی جیلوں کی مانند نہیں ہے بلکہ یہاں کے قیدیوں کو دیکھ کر تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سیاح چھٹیاں گزارنے کے لیے اس جزیرے پر آئے ہوں-
 

image


نہ ہی اس جزیرے پر قیدیوں کے فرار کو روکنے کے لیے کوئی خاردار تاریں موجود ہیں اور نہ ہی کہیں کسی مقام پر بجلی کا کرنٹ چھوڑا گیا ہے- اس کے علاوہ یہاں آپ کو کوئی مسلح گارڈ بھی نہیں دکھائی دے گا-

یہاں قیدی خوبصورت کاٹیجز میں رہائش پذیر ہیں اور وہ لکڑیاں کاٹنے٬ مویشیوں کی دیکھ بھال یا پھر فصلیں اگانے کا کام کرتے ہیں-

اس جزیرے پر موجود قیدیوں کو ہر طرح کی تفریح مہیا کی جاتی ہے جس میں گھڑ سواری٬ مچھلیوں کا شکار٬ ٹینس کورٹس اور sunbathe وغیرہ شامل ہیں٬ غرض کہ ان قیدیوں کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے-

ان سرکاری مہمانوں کو رات کے کھانے میں متعدد اقسام کی ڈشز پیش کی جاتی ہیں جن میں چکن سے تیار کردہ تمام ڈشز سے لے کر سالمن مچھلی تک شامل ہوتی ہے-

Bastoy نامی اس جیل خانے کی انتظامیہ کا مقصد یہاں آنے والے قیدیوں میں ایک منفرد انداز میں تبدیلی پیدا کرنا ہے اور انہیں معاشرے میں رہنے کے قابل بنانا ہے- یہی وجہ ہے کہ انہیں اس مقام پر ہر طرح کی آسائش مہیا کی جاتی ہے-
 

image

گزشتہ دو سالوں میں اس انوکھی جیل سے آزادی حاصل کرنے والے صرف 16 فیصد قیدی ایسے تھے جنہوں نے دوبارہ جرائم کی دنیا اختیار کی اور دوبارہ جیل پہنچ گئے جبکہ اگر اس شرح کا موازنہ ناروے کی جیلوں سے کیا جائے تو بقیہ جیلوں کی شرح 20 فیصد بنتی ہے- اور یورپی ممالک کی جیلوں سے رہائی پا کر پھر واپسی کا رخ کرنے والے افراد کی تعداد 70 فیصد ہوتی ہے-

جیل کے سابق گورنر Arne Kvernvik Nilsen کا کہنا ہے کہ “ اس تمام طرزِ عمل کا تعلق احترام اور خود کو دریافت کرنے کی کوشش کے حوالے سے ہے“-

“ یہی ایک واحد راستہ ہے جس سے ہم انسان کو تبدیل کرسکتے ہیں- اس طرح وہ خود اپنے آپ کو انفرادی طور پر اندر سے تبدیل کرنا شروع کرتا ہے اور خود کو معاشرے کا ایک ناکام ترین انسان تصور بھی نہیں کرتا“-

اس جیل میں قیدیوں کی ان کی من پسند ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی ہوتی ہے-

یہاں رکھے جانے والے قیدیوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے- یہ قیدی اپنے کاموں کا خود انتخاب کرتے ہیں٬ کوئی مویشی پالتا ہے٬ کوئی کھیتی باڑی کرتا ہے٬ کوئی باورچی کی خدمات سرانجام دیتا ہے٬ اسٹور منیجر بن جاتا ہے تو کوئی مکینک اور کارپینٹر کا کام سرانجام دیتا ہے- یہاں تک کہ بعض قیدی تو کشتیاں بھی چلاتے ہیں-
 

image

اس جیل میں قیدیوں کو صبح بیدار کرنے کے لیے کوئی گھنٹی نہیں بجائی جاتی بلکہ قیدی خود وقت پر اپنے کاموں پر پہنچ جاتے ہیں اور وہ اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار شہری بن سکتے ہیں-

اس جزیرے پر دن کا آغاز 8 بج کر 30 منٹ پر ہوتا ہے جبکہ یہ قیدی دوپہر 3 بج کر 30 منٹ تک اپنی خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں- اس کے بعد جیل کا اسٹاف اپنے گھروں کو لوٹ جاتا ہے جبکہ صرف 5 گارڈ رات بھر ان قیدیوں پر نظر رکھنے کے لیے یہاں موجود ہوتے ہیں-

جزیرے پر واقع ہر ایک کاٹیج میں چھ قیدی رہتے ہیں لیکن ہر قیدی کو علیحدہ کمرہ میسر آتا ہے تاہم انہیں کچن ور دیگر سہولیات آپس میں شئیر کرنا ہوتی ہیں-
 

image

قیدیوں کو ایک وقت کا کھانا ڈائننگ ہال میں مہیا کیا جاتا ہے جبکہ صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا قیدی خود تیار کرتے ہیں- قیدیوں کی خدمات کے عوض انہیں 10 ڈالر یومیہ اجرت اور خوراک الاؤنس فراہم کیا جاتا ہے- اور یوں قیدی جزیرے پر موجود ایک مارکیٹ سے اپنے کھانے کے لیے اپنی مرضی کی اشیا خرید سکتے ہیں-

ناروے کی کسی بھی جیل کا قیدی اس جیل میں منتقلی کے لیے درخواست دائر کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی سزا کی مدت پوری ہونے میں صرف 5 سال باقی رہ گئے ہوں- ایسے کسی بھی قیدی کی درخواست قبول کر لی جاتی ہے جو جرائم سے پاک زندگی گزارنے کا خواہشمند ہو اور چاہے وہ کسی سنگین جرم میں ہی کیوں نہ سزا کاٹ رہا ہو-
YOU MAY ALSO LIKE:

About 75 kilometers off the coast of Oslo in Norway, is an island that's home to some 115 criminals, including the the country’s most dangerous, convicted of crimes such as murder, rape and drug dealing. However, doing time here is like being on a holiday. There are no barbed-wire-topped walls or electrified fences circle the island, nor do armed guards and attack dogs patrol the grounds.