نکیل ڈلے تو کراچی بچتا ہے

 اگر ہم آج سے 60برس پیچھے چلے جائیں جب بڑے بڑے شہروں کے سوا کہیں بجلی کا نام و نشان نہ تھا تب لوگ روشنی کیلئے چراغ جبکہ کنوؤں سے پانی نکالنے یا کھیتی باڑی کیلئے بیل استعمال کیا کرتے تھے کیونکہ اِس دور میں ٹریکٹر وغیرہ نہ تھے اِس لئے بیل کی قدر آج کے ٹریکٹر کے برابر تھی ،لوگ بڑے لاڈ پیار سے اپنے بیلوں کو پالتے اور اِنہیں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ،جب یہ بیل جوان ہو کر اپنے مالک کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے تب مالک دو چار بندوں کو اکٹھا کرتے اور اِسے کِسی مظبوط درخت سے باند ھ کر اِس کے ناک سے سوراخ کرکے وہاں سے ایک رسی گزار دیتے جسے اُردو زُبان میں نکیل ڈالنا جبکہ پنجابی میں( نَتھ مارنا )کہتے ہیں یہ نکیل بیل کواِس لئے ڈالی جاتی تھی کہ جب بھی یہ کِسی کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تب اِسے اِس نکیل سے پکڑ لیا جائے گا جوکہ اِس کے جسم کے نازک ترین حصے سے گزری ہوئی ہونے کی وجہ سے اِسے شدید تکلیف دے گی اور یہ مالک کو نقصان پہنچانے کی بجائے اِس کے اشاروں پر عمل کر نا شروع کر دیگااور بزرگان کے مطابق ہوتھا بھی ایسا ہی تھا،بیل اِس نکیل سے پکڑتے ہی راہ راست پر آجاتاتھا،جیسے یہ نکیل بیلوں کو راہ راست پہ لانے کیلئے استعمال ہوتی تھی ایسے ہی انسانوں کو راہ راست پہ لانے کیلئے بھی ایک نکیل ہی استعمال کی جاتی ہے جِسے ہم اُردو میں مقدمہ جبکہ انگلش میں ایف آئی آر کہتے ہیں جس کا اندراج کرکے کِسی کوراہ راست پہ لانے کیلئے اُس وقت اُسے اذیت دی جاتی ہے جب وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور یہ خلاف ورزی ثابت ہو جاتی ہے ،اور حقوق یہ ہیں کہ ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق رہنے سہنے و زندگی بسر کرنے کا مکمل اختیار ہے ہر شخص کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور ہر شخص کو اظہارِ آزادی رائے دہی کا حق ہے،کوئی کِسی پر اپنی رضا مسلط نہیں کر سکتا اور نہ ہی کِسی کو کِسی دوسرے کے مال و زر پر کوئی حق حاصل ہے وغیرہ وغیرہ ،یہ قوانین ایک ایسی نکیل ہیں جن کے تحت کِسی کو کِسی پر بھی کوئی بر تری حاصل نہیں یعنی کہ قانون سب کیلئے ایک ہے جس کاپرچار تو ہمارے ہاں بہت زوروشور سے کیا جاتا ہے مگر عملاًکوئی کِسی وڈیرے کی خوشنودی کے بغیر سانس نہیں لے سکتا تو کوئی کِسی سیاستدان یا کِسی دوسرے بیورو کریٹ کی رضا کے بغیر پانی کا ایک گھونٹ تک نہیں پی سکتا،ایسا دُنیا کے کِسی بھی ملک میں نہیں جیسا بد قسمتی سے بادشاہی نظام اب پاکستان میں موجود ہے جس کے نتیجہ میں ابھی پہلے سے موجود آفات اور چیلنجز سے چھٹکارا مِلا نہیں ہوتا کہ کوئی نا کوئی نیا عذاب کھڑا ہو جاتا ہے کبھی کوئی صولت مرزا پیدا ہوجاتا ہے اور کبھی کوئی عمران ٹانگ اُٹھا ئے کھڑا ہوتا ہے کیونکہ یہاں قوم کو راہ راست پہ لانے کیلئے بنائی گئی نکیل یعنی کہ قانون صرف اور صرف قوم کیلئے ہی ہے جس کے ذریعے حاکم ماحول میں توازن پیدا کرنے کی بجائے مداری کی طرح اسے کو بندر کاناچ نچانے میں لگے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی نمائندے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مگن ہیں،اِن حالات میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں کا قانون نہ ہی تو کِسی بیورو کریٹ پہ لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی کِسی سیاستدان پہ ، یہ کِسی کو ننگا نچائیں چاہے کِسی کو تختہ پھانسی پر لٹکوائیں اِنہیں کوئی پوچھ کچھ کرنے والا نہیں مقامی قانون اِن کیلئے محض مقدمہ جبکہ شرفا ء کیلئے مقدر ہے ،سیاستدان ہوچاہے قتل کا مجرم ہی کیوں نہ ہو آزاد ہے مگر کوئی شریف شہری اگر کِسی کی مُولی بھی اُکھاڑ لے توبغیر مقدمہ کے ہی پولیس مقابلہ میں پار کردیا جاتا ہے ،کیونکہ اِس کے خلاف مقدمہ کی جگہ مقدر درج ہوتا اور جن کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے وہ گینگ ریپ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود بھی گرفتار نہیں ہوتے ،جیسا کہ صولت مرزا کے حیران کُن انکشافات کے باوجود بھی اُس کی پھانسی کی سزا کیس ری اوپن کئے بغیرہی برقرار ہے جبکہ شریک جرم کو کوئی پُوچھ کچھ ہی نہیں،یہی کیس اگر کِسی اور ملک میں ہوتا تو اب تک ایک کی جگہ کئی کیس ری اوپن ہوچکے ہوتے اور صولت مرزا جیسے مجرم کو بطور گواہ استعمال کرتے ہوئے اِس کی پھانسی اُس وقت تک کیلئے روک دی جاتی جب تک اِس کے شریک جرم سے متعلق عدالت کوئی نہ کوئی فیصلہ نہ کر دیتی ،مگر افسوس کہ پاکستان میں توکِسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کی نکیل سے پکڑنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتایہاں تو یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی کوئی حاکم بھی اپنے جرم کی سزا پائے گا ،یہاں پر تو سب پہلے سے ہی گِرے ہوؤں کو گِرانے والے ہیں یہاں گرتے کو تھامنے والا کوئی نہیں،اگر یہاں کوئی ایک ہی مگر مچھ سرِ عام لٹکا دیا جاتا تو یقیناً ملک بھر سے جرام کا خاتمہ ہوجاتا، کب کی دہشت گردی ختم ہوجاتی اور کب کا کراچی امن کا گہوارا بن چکا ہوتا کیونکہ جرم ہمیشہ اُسی وقت جنم لیتا ہے جب عادل اور مجرم کوئی فرق باقی نہ رہے ،جب طاقتورکی نکیل کھول دی جائے اورکمزور کو ڈال دی جائے ،تب ایسے ہی حالات پیدا ہواکرتے ہیں جیسے آج پاکستان اور اِس کے مشہور شہر کراچی کے ہیں ،جِسے بچانے کیلئے بے نکیلوں کو نکیل ڈالنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مچھلی کا پانی میں رہنا ضروری ہے،(فی امان اﷲ)۔
۔
Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 37850 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.