آپس میں تو نہ لڑو یار!

انسان بھی کتنا عجیب ہے، باتیں تو کائنات کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی کرتا اور کنٹرول خود پر بھی نہیں کرسکتا۔ بڑے بڑے پڑھے لکھوں کی پڑھائی لکھائی تھوڑا سا غصہ آنے پر ہی پانی کی طرح بہہ جاتی ہے۔ بہت سے متعدل مزاج بھی دیکھے، لیکن مجال کوئی ان کی بات کو مسترد کردے، گردن نہ دبوچ لیں۔ دوسروں کو برداشت اور تحمل کا درس دینے والوں کی تو خیر تھوڑ ہی کیا ہے، ہر بندہ علامة الدہر بنا یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے، لیکن کسی میں ہمت ہے ان کی سوچ اور نظریے کی مخالفت کر کے تو دیکھے، بس پھر برداشت گئی تیل لینے اور خیر نہیں اختلاف کرنے والوں کے ایمان کی۔ یہ علامة الدہر صاحب پورے پورے علامة القہر و الغضب بن جاتے ہیں۔ اختلاف کرنے والوں کو نوازنے کے لیے ضمیر فروش، بکاﺅ مال، اغیار کا ایجنٹ اور ایمان فروش تک کے القابات سے تو گویا ان کی جیب بھری پڑی ہے اور چاہے فریق مخالف کی بات میں کتنا وژن ہو اور اس کے پاس کتنے دلائل ہوں، سب گئے بھاڑ میں بس اختلاف کیا ہی کیوں۔ اختلاف کرنے والا چاہے بے چارہ صاحب علم اور چنگا بھلا نیک بندہ ہی کیوں نہ ہو۔ لٹھ لے کر چڑھ دوڑیں گے۔
جب سے سعودی عرب نے یمن میں حوثیوں پر حملہ کیا اس وقت سے کم از کم سوشل میڈیا پر تو کچھ لوگ ایک دوسرے پر لٹھ لے کر چڑھے ہوئے ہیں۔ حملے کے حمایتی اور مخالفین ایک دوسرے کے خلاف مورچے لگائے بیٹھے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ جنگ یمن میں نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر ہورہی ہے۔ ارے بھئی ہوبھی کیا گیا ایران اور سعودی عرب کی لڑائی میں آپ کیوں ہلکان ہوئے جاتے ہو؟ جو اس حملے کو درست سمجھتے ہیں، درست سمجھیں اور جو غلط سمجھتے ہیں، غلط سمجھیں، لیکن آپس میں تو جنگ نہ چھیڑو۔ کیا پہلے سے مسلمانوں میں آپس کی لڑائی کی کمی ہے جو آپ پورا کرنا چاہتے ہیں؟ کم از کم آپ خود آپس میں لڑ جھگڑ کر دشمنان اسلام کا کام تو آسان نہ کرو۔ اگر آپ سمجھداری اور سنجیدگی سے کام نہیں لو گے تو خدانخواستہ یہ لڑائی تمام مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور خدا کی قسم دشمن تو چاہتا ہی یہ ہے کہ تم آپس میں لڑتے رہو اور وہ خود دنیا پر مزے سے حکمرانی کرے۔افغانستان، عراق، شام اور جنگ زدہ تمام مسلم ممالک میں کیا یہی کچھ نہیں ہورہا؟ کیا آپ کو کسی غیر مسلم ملک میں لڑائی جھگڑا نظر آتا ہے، نہیں نا۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس وغیرہ میں کتنے ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ اپنے ہی ملک کے خلاف مسلح بغاوت کر رہے ہیں، کوئی بھی نہیں نا، کیوں؟ اسی لیے کہ یہ سب کچھ تو تمہارے لیے ہے، تم خود ہی اپنے لیے لڑائی جھگڑا پسند کرتے ہوئے، وہ تمہیں مل جاتاہے، جبکہ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور پیرس وغیرہ تو اپنے لیے صرف امن کو پسند کرتے ہیں اور وہ ان کو مل جاتا ہے۔ جب آپ لوگ ہی آپس میں محاذ سنبھال لو گے تو پھر امریکا اور اسرائیل وغیرہ کو کیا کوئی کھجلی ہوئی ہے کہ تمہارے ساتھ لڑائی کرے؟ اپنے خاتمے کے لیے تو تم ہی کافی ہو۔ تمام مسلم ممالک کی آپس میں لڑ جھگڑ کر اینٹ سے اینٹ بج گئی اور ”خان بہادر“ خود مزے سے تماشا دیکھتے ہیں۔ ارے یار! اب اگر تم خود ہی کسی ایک بات پر اتفاق نہیں کرسکتے، اپنے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا خاک کرو گے؟ میرا تو ایمان ہے کہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے اپنی جان دینے سے گریز نہیں کرسکتا اور انشاءاللہ قیامت تک کوئی مائی کا لعل حرمین کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، لیکن یہ اس وقت ہے جب مسلمان متحد رہیں، ایک مکے کی مانند، اگر آپ کا مکا خود آپ پر ہی برسنا شروع ہوجائے تو حرمین کی حفاظت کے لیے اللہ کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے پہلے پرندوں کے ذریعے حفاظت کی تھی، اب بھی کر لے گا، آپ چنتا نہ کریں، اللہ آپ کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کی قسم تمہارے نعروں اور جلسوں کی اسے کوئی ضرورت نہیں ہے، بس تم آپس میں اچھی طرح لڑ جھگڑ لو۔ تم اپنا کام کرلو وہ اپنا کام اچھی طرح کرلے گا۔

ارے بھئی آپس کی لڑائی کتنی بری ہے یہ تو جانتے ہو نا؟ دو مسلمانوں میں ہلکی پھلکی لڑائی ہوئی تو اس کی نحوست سے لیلة القدر جیسی مقدس رات چھن گئی مسلمانوں سے اور جب مسلمان لڑائی کے لیے آمنے سامنے آنے لگے تو مسلم حکومتیں ملیامیٹ ہوگئیں اور آج تو ہر طرف مسلمان ہی مسلمان کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس نحوست سے نجانے کیا کیا چھنے گا اب؟ اللہ خیر کرے۔ اب خدا کے لیے کم از کم آپس میں تو نہ لڑو۔ ذرا سا اختلاف کرنے پر کسی کی ایسی تیسی نہ کرو۔ حرمین شریفین کی حفاظت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، لیکن سعودی عرب کے حملے کے درست اور غلط ہونے کو ایمان کا حصہ تو نہ بناﺅ جناب! یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ایسے سیاسی ہی رہنے دو اور اگر کوئی اسے ایمانی مسئلہ سمجھتا ہے تو سمجھے، لیکن کسے کے ایمان میں شک بھی تو نہ کرے۔ یار! اختلافات تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں بھی ہوئے ہیں، وہاں تو کوئی کسی پر فتوے نہیں داغتا تھا، صحابہ کرام کے بہت سے اختلافات تو آج تک چلے آتے ہیں لیکن کسی کو ضمیر فروش اور ایجنٹ قرار نہیں دیا گیا۔ تو کیا آج کے مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی مقدس ہوگئے جو تھوڑا سا اختلاف کرنے پردوسرے کے ایمان تک جاپہنچتے ہیں؟ خدارا کچھ تو خیال کرو۔ کم از کم آپس میں تو نہ لڑو یار!
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.