آر ایس ایس ملک کو کہاں لے جارہا ہے؟

ابھی چند روز قبل بھرت پور کے نواحی گاؤں بینوا میں سنگھ سرچالک موہن بھاگوت نے معروف و مشہور شخصیت، بھارت رتن ، نوبل پیس پرائز ونراور ٹمپلٹن پرائزیافتہ ’’مدرٹریسا ‘‘کے متعلق جس طرح کا بیان دیا ہے وہ ہندوستانی تہذیب اور بھارتیہ سنسکرتی کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے جس کے زور سے جہاں ایک طرف مادر ہندوستان کا چہرہ زخمی ہوا ہے وہیں دوسری طرف اس سے ایسے لاکھوں افراد کے سینوں میں ٹھیس لگی ہے جو غریبوں ،بے بسو ں،مجبوروں ،محتاجوں اور لاچاروں کی مسیحائی کرتے ہیں نیز یہ ان کی عبادت،پوجا اور مشن زندگی ہے۔

یہ ۲۳؍فروری ۲۰۱۵ء کی بات ہے کہ جب موہن بھاگوت نے آر ایس ایس کے کارکنان کے ذریعے منعقدہ دورزہ تربیتی پروگرام کو مخاطب کر تے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھکتو! کیا تمھیں پتا ہے کہ غریبوں ،اپاہجوں ،بیماروں،کوڑھیوں اور ضرورت مندوں کی مدد کر نے کے پیچھے مدر ٹریسا کا مقصدکیا تھا ؟‘‘بھکتوں نے نا،نا کہا تو سنگھ سر چالک نے کہا ’’اس کا مقصد ہم ہندوؤں کادھرم پریورتن تھا ۔ سو وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہی اور ہمارے کتنے ہی لوگوں کا دھرم بھرشٹ کر دیااور ان سے ان کادھرم چھین لیا۔‘‘اتنا سن کر بھکت ’’ہے رام ․․․․ہے رام ․․․․‘‘ کر نے لگے ۔اس کے بعد بھاگوت نے کہا ’’یا د رکھو! جو لوگ مدر ٹریسا کو مان سمّان دیتے ہیں ان کو اس بات کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے ۔اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس بات کو بھارت ورش کے سب واسیوں کو بتائیں اور اس سازش کو بے نقاب کر کے بھارت ماتا کوشکتی پر دان کر یں ․․․․․‘‘ بھکت چلا اٹھے ․․․․’’اوم ․․․․اوم ․․․․رادھے ․․․رادھے ․․․ہم ایسا ہی کر یں گے ۔‘‘
سنگھ سرچالک کا بیان جاری رہا اور آرایس ایس کارکنان ان باتوں پر تالیاں بجاتے رہے اور’’ بھارت ماتا کی جے ․․․جے ‘‘کے نعرے لگاتے رہے۔

یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ ایسی باتیں اس ملک میں کہہ ہیں جہاں گرو نانک نے وحدت کا گیت گایا تھا ،جہاں چشتی نے امن و آشتی کا پیغام عام کیا تھا اور گوتم بدھ نے جسے گہوارۂ امن بنایا تھا ۔جس ملک میں سب سے پہلے انسانیت کے حقوق کے عَلَم بلند کیے گئے تھے۔ یہ باتیں اس ہندوستان میں کہی جارہی ہیں جس کی صدیوں پرانی قابل تقلید عظیم الشان روایات رہی ہیں اور باہری دنیا نے اس ملک کے دامن میں امان پائی ہے۔مگر سنگھیوں کے لیے کیا کیا جائے جنھیں گھٹی ہی میں انسانیت سے نفرت گھول کر پلا دی جاتی ہے ۔چنانچہ وہ بڑے ہوجاتے ہیں او ر مذہب انسانیت کا خون کرنا ان کا ناپاک مشن بن جاتا ہے۔پھر وہ ہر اس انسان ،ہر اس مشن اور ہر اس فکرکے دشمن بن جاتے ہیں جس کا مقصد حق و سچائی تبلیغ اور انسانیت کی تعمیر ہوتا ہے۔اس وقت انھیں ہر وہ شخص اپنا دشمن نظر آتا ہے جو ہندوستان میں امن و آتشی اور انصاف کی بات کر تا ہے۔

بھرت پور میں دیے گئے موہن بھاگوت کے اس بیان کی حالانکہ بائبل سوسائٹی آف انڈیا،نارتھ چرچ آف انڈیا اور دیگر اقلیتی اداروں نے بھرپور مذمت کی ہے مگران مذمتوں سے سنگھیوں کا کیا بگڑ سکتا ہے ۔ ظالم کی نیت خراب ہے ،لاکھ کچھ بھی کر تے رہیے ،دلیل اور حجت پیش کر تے رہیے ،ظالم وہی کر ے گا جو اس نے ٹھان رکھی ہے ۔ ملک کی تہذیب کا خاتمہ ہو، ہوتا رہے۔بھارتیہ سنسکرتی کا قتل ہو،ہوا کر ے ،اس کی بلا سے ۔وہ اسی ہندوستان کو توڑ کر اس کے کھنڈروں پراکھنڈ بھارت کی تعمیر کر نا چاہتے ہیں ۔ایسا اکھنڈ بھارت جس میں بس آر ایس ایس کا ہی راج ہو۔

ہندوستان ،جس کی دنیا بھر میں مہمان نوازی اور مسیحا شناسی میں ایک ممتاز شناخت ہے اس کا حشر جو آج سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کے لوگ کر نا چاہتے ہیں، اس کا تصور کر نے سے ہی کلیجہ منہ کوآتا ہے۔مسیحائے ہند مدر ٹریساکے دل میں کبھی بھولے سے بھی غریبوں ،محتاجوں ،اپاہجوں اور بے بسوں کی مدد کر تے وقت یہ گمان نہیں گزرا ہو گا کہ میں اس خدمت کے لالچ اور اس مسیحائی کی آڑ میں ان کا مذہب تبدیل کرادوں یا ان کا دھرم بھرشٹ کر دوں ،بلکہ وہ تودھر م پریورتن جانتی بھی نہیں تھیں ۔ان کا تو مذہب ہی غریبوں کی ہمدردی و غم خواری تھا اور مجبوروں و بے بسوں کی آہوں پر لبیک کہنا تھا۔نیز انھوں نے اپنا تعلیمی اور تدریسی سلسلہ ہی ان مظلوموں کی آہیں ،کر اہیں سن کر چھوڑا تھا جن کو سنگھیوں، ہندوستان کے بڑے لوگوں،سماج اور مذہب کے ٹھیکے داروں، نیتاؤں اور سرمایہ داروں نے اپنی بستیوں سے باہرنکال کر تڑپنے اور موت کے منہ میں جانے پر مجبور کردیا تھا۔اس کے لیے مدر ٹریسا نے اپنی جملہ خواہشات تک مٹا دیں اور نن بن گئیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ مدر ٹریسا کی اس لامثال قربانی اوربے لوث مسیحائی کے بدلے میں سنگھی جو اپنے آپ کو اس ملک کا رکھشک،رکھوا لا اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں، سجدۂ احسان بجا لاتے اور ان کے قدموں کو دھو دھو کر پیتے مگر احسان فراموشی اور مدرٹریسا کے خلوص کا خون ہونا کوئی سنگھیوں سے سیکھے۔ ’’بھلائی میں لٹھ مارنا‘‘اسی کو کہتے ہیں ۔ ان کو ذرا بھی اس بات کا ا حساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور نہ ہی شرم نہیں آتی ہے وہ کس کے بارے میں یہ بکواس کر رہے ہیں۔

مدر ٹریسا نے سب سے بڑی انسانیت کی خدمت تو کوڑھ کے مریضوں کے زخم پونچھ کر کی ،کوڑھی جنھیں ہندوستان کے ہندومذہبی طبقات منحوس قرار دیتے ہیں اور ان کے اس مرض کو ان کے پچھلے جنم کے کر توت کی سزا کہہ کر انھیں بستیوں کے باہر کوڑے کے ڈھیرو ں پر پھینک دینے کی تلقین کر تے ہیں۔غریب آندھی ،طوفان ،برسات،سردی گرمی میں تڑپتے رہتے ہیں ۔ایسے ہی لوگوں کی مدد کے لیے خدا نے مدر ٹریسا کو بھیجا اور انھوں نے ان کا علاج کر اکے انھیں انسانی سوسائٹیوں میں آبادہونے کے قابل بنایا ۔کیا یہ معمولی سی بات ہے اور کیا اس خدمت کا یہی صلہ ہے ․․․․․؟نہیں صاحب نہیں !!یہ تو ایسی خدمت اور جذبہ ہے جس کی نظیر مل ہی نہیں سکتی ۔مگر سنگھیوں کا براہو انھوں نے عظیم خدمت گار کی اس عظیم خدمت کا ایسا صلہ دیا جس کی کم سے کم انسانوں سے تو قع کی ہی نہیں جاسکتی۔یہ تو ایسی ہی مثال ہو گئی کہ آپ سانپ کو دودھ پلاتے رہیے ،وہ آپ کو ضرو رڈسے گا۔ آپ بچھوکو شہد پلاتے رہیے ،وہ آپ کے ڈنک ضرور مارے گا۔

موہن بھاگوت کی اس بات نے نہ صرف مدر ٹریسا کی روح کو تڑپایا ہے بلکہ ان کروڑوں لوگوں کے احساس و جذبات پر بھی آری چلائی ہے جن کا مذہب ہی خدمت انسانیت ہے اور وہ رات دن بے لوث طریقے سے انسانیت کی خدمت کر تے ہیں ۔وہ لوگ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہے کہ سنگھیوں کے عہد میں نیکی کر نا بھی جرم ہے اور اس طرح کے کارخیر کر نے والوں کو غلط انداز سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے خلوص کا قتل کیا جاتا ہے۔وہ سوال کررہے ہیں کہ یہ کیسی تہذیب اور سنسکرتی ہے اور آر ایس ایس اس ملک کو کہا ں لے جارہا ہے؟!

موہن بھاگوت کے اس بیان نےجہاں ویلفیئر اور خدمت انسانیت میں مصروف رہنے والے اداروں کی بے لوث خدمات کا قتل کیا ہے وہیں ہندوستانی تہذیب کا بھی جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔طرفہ تماشا دیکھیے کہ سنگھ پریوار اپنی اس طرح کی تمام کوششوں اور مہمات کوہندوستانی تہذیب اوربھارتیہ سنسکرتی کی بقا و تحفظ کا نام دیتا ہے،مگر اس سے تمام ہندوستانی پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیسی تہذیب ہے جس کی بقا کی بات یہ سنگھی کر تے ہیں اور ساری دنیا سے اس کے لیے لڑتے ہیں ۔ کیا ہندوستانی تہذیب یہی ہے کہ اپنے محسنوں کے احسانوں کو بھلا دو، ان کے نیکی اور بھلائی کے کاموں پر ناجائز شک کر واور ان کی بے لوث خدمات کا یہ صلہ دوکہ قبروں میں بھی ان کی روحیں تڑپ اٹھیں ۔ انھیں مجرم کہو اور ان کے سروں پر ایسے ناپاک الزام لگاؤ جن کے بارے میں انھوں نے کبھی سوچا تک نہ ہو۔․․․․ہو سکتا ہے یہ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کی تہذیب اور سنسکرتی ہو مگر ہندوستان کی ہر گز نہیں ہو سکتی ۔اگر سنگھی اسے ہندوستانی تہذیب کہتے ہیں تو وہ باشندگان ہند کے ساتھ ساتھ تاریخ کے ساتھ بھی بہت بھدا مذاق کررہے ہیں نیز ہندوستانی اقدار کو مٹا رہے ہیں۔

احساس
مسیحائے ہند مدر ٹریساکے دل میں کبھی بھولے سے بھی غریبوں ،محتاجوں ،اپاہجوں اور بے بسوں کی مدد کر تے وقت یہ گمان نہیں گزرا ہو گا کہ میں اس خدمت کے لالچ اور اس مسیحائی کی آڑ میں ان کا مذہب تبدیل کرادوں یا ان کا دھرم بھرشٹ کر دوں ،بلکہ وہ تودھر م پریورتن جانتی بھی نہیں تھیں ۔ان کا تو مذہب ہی غریبوں کی ہمدردی و غم خواری تھا اور مجبوروں و بے بسوں کی آہوں پر لبیک کہنا تھا۔نیز انھوں نے اپنا تعلیمی اور تدریسی سلسلہ ہی ان مظلوموں کی آہیں ،کر اہیں سن کر چھوڑا تھا جن کو سنگھیوں، ہندوستان کے بڑے لوگوں،سماج اور مذہب کے ٹھیکے داروں، نیتاؤں اور سرمایہ داروں نے اپنی بستیوں سے باہرنکال کر تڑپنے اور موت کے منہ میں جانے پر مجبور کردیا تھا۔اس کے لیے مدر ٹریسا نے اپنی جملہ خواہشات تک مٹا دیں اور نن بن گئیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ مدر ٹریسا کی اس لامثال قربانی اوربے لوث مسیحائی کے بدلے میں سنگھی جو اپنے آپ کو اس ملک کا رکھشک،رکھوا لا اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں، سجدۂ احسان بجا لاتے اور ان کے قدموں کو دھو دھو کر پیتے مگر احسان فراموشی اور مدرٹریسا کے خلوص کا خون ہونا کوئی سنگھیوں سے سیکھے۔ ’’بھلائی میں لٹھ مارنا‘‘اسی کو کہتے ہیں ۔ ان کو ذرا بھی اس بات کا ا حساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور نہ ہی شرم نہیں آتی ہے وہ کس کے بارے میں یہ بکواس کر رہے ہیں۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56231 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More