کشمیر کی مخلوط حکومت: اے خزاں تجھ کو بھی انداز بہار آہی گیا (قسط اول)

مفتی محمد سعید نے بی جے پی کے ساتھ الحاق کا اعلان بالآخر کرہی دیا اور اس کے حق میں یہ جوا زپیش کیا کہ انہیں عام آدمی پارٹی کی مانند واضح اکثریت نہیں حاصل ہوئی ہے لیکن اِس اعتراف کی آڑ میں وہ اُس حقیقت کی پردہ پوشی کر گئے کہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کی غرض سےنیشنل کانفرنس اور کانگریس حکومت سازی میں ان کی حمایت کیلئے تیار تھے ۔ اس مخلوط حکومت کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ عوام کو پتہ چل گیا کہ پیوپلس ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی کس قدر ابن الوقت اور موقع پرست ہے۔ عام آدمی پارٹی کی طرح اگر اس کوواضح اکثریت حاصل ہو جاتی تو کسی کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ مفتی محمد سعید اور ان کی دختر نیک اخترمحبوبہ مفتی کتنےاحسان فراموش ہیں ۔ بصورتِ دیگرمسلمان تو یہی سمجھتے کہ مفتی خاندان سے بڑا ان کا اور کشمیری عوام کا خیر خواہ کوئی اور نہیں ہے۔ انہیں کے دم سے ہندو احیاء پرست اپنے گھناؤنےمقاصد میں ناکام ہوئے ہیں اور اگر یہ نہیں ہوتے تو مودی سرکار ان پر نہ جانے کون کون سے مظالم ڈھاتی ۔ یہی وہ عظیم قوت ہے جس نے آگے بڑ ھ کرفسطائیت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا لیکن اس کے برعکس بی جے پی کے ساتھ الحاق کرکے پی ڈی پی نے اپنے متعلق پائی جانے والی ساری خوش فہمیوں کو اپنےقدموں تلے روند ڈالا اور رائے دہندگان کے توقعات پر خاک ڈال دی ۔ پی ڈی پی کی پشت زنی پر کشمیر کی عوام کچھ اس انداز میں فریاد کناں ہے کہ ؎
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

اس مخلوط حکومت سازی سے نہ صرف مسلمان بلکہ ملک بھر کے ہندو احیاء پرست اور خاص طور پر جموں کے ہندووں کو بھی سخت مایوسی ہوئی ہے جنہوں نے بڑے ارمانوں کے ساتھ اس بار بی جے پی کو خوب دل کھول کر ووٹ دیا اور غیر معمولی کامیابی سے نوازہ ۔ انہیں کیا پتہ تھا انتخاب سے پہلے سرحد پر ہونے والی گولہ باری محض ایک تماشہ تھا ۔ اس لئے کہ سرحدی تنازع ووٹنگ کے دن تک زوروشور سے جاری رہا ہے لیکن انتخاب کے ختم ہوتے ہی اچانک بند ہو گیا۔ وہ بیچارے نہیں جانتے تھے کہ مودی جی کا آئے دن کارگل آنا اور جموں سے ہوتے ہوئے واپس جانا ان کو لبھانے کی ایک سازش تھی اس لئے کہ انتخاب کے بعد وزیراعظم نے سرحد پر تعینات فوجیوں کو یکسر بھلا دیا۔ جموں کے ہندو سوچ رہے تھے کہ بی جے پی کی حکومت اقتدار میں آتے ہی دستور کی دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کردے گی ۔ وہ بیچارے نہیں جانتے تھے کہ پی ڈی پی حکومت میں شامل ہونے کیلئے سنگھ پریوار جن سنگھ کے اولین صدرشیاماپرشاد مکرجی کے بلیدان کو بھلا کر ایوان پارلیمان میں نہ صرف دفعہ ۳۷۰ کے تحفظ کی یقین دہانی کرے گا بلکہ فوج کے اثرورسوخ کو بھی کشمیر سے بتدریج کم کرنے پر راضی ہو جائیگا۔کشمیر میں اقتدار کی ہوس نے مودی جی اور شاہ جی کے ابن الوقتی کوبھی بےنقاب کردیا ہے اوردنیا نے دیکھ لیا ہے کہ اس سیاسی حمام میں سبھی برہنہ ہیں ۔

جموں کشمیر کے انتخابات میں اس مرتبہ پہلی بار بی جے پی نے بڑے زور و شور سے حصہ لیا۔ مودی جی نے جموں کے علاوہ کشمیر میں بھی خوب مہم چلائی اور اٹل جی کا چولہ پہن کر عوام کو ورغلانے کی بھرپورکوشش کی۔ اسی کے ساتھ پہلی مرتبہ بی جے پی نے بڑے پیمانے پر اپنے امیدوار نہ صرف جموں بلکہ کشمیر اور لداخ میں کھڑے کئے ۔ اس ریاست کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تین حصوں میں سے ہر ایک پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا غلبہ ہے ۔ وادیٔ کشمیر کے مسلمانوں پر مودی جی کی گرمجوشی کا یہ ردعمل ہوا کہ انہوں نے ریکارڈ ووٹنگ کی اوربی جے پی کے سارے امیدواروں کی ضمانت ضبط کرادی۔ اس معاملے میں لداخ کے بودھ بھی پیچھے نہیں رہے انہوں نے بھی بی جے پی کا پوری طرح صفایہ کردیا۔ جموں کے ہندووں کی یکمشت حمایت نے زعفرانی پارٹی کودوسری سب سے بڑی جماعت بنادیا لیکن اقتدار ہوس میں بی جے پی نے انہیں مایوس کرڈالا ۔

کشمیر کے انتخابی نتائج پر اگر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ برسرِ اقتدار نیشنل کانفرنس کے ووٹ کا تناسب ۳ فیصد کم ہوا مگر اس کے نتیجے میں اس کی سیٹیں ۲۸ سے ۱۵ پر پہنچ گئیں۔کانگریس کے ووٹ کا تناسب عشاریہ ۳ فیصد بڑھا جبکہ اس کی نشستیں ۱۷ سے گھٹ کر ۱۲ پر پہنچ گئیں۔پی ڈی پی کے ووٹ ۱۵ سے ۲۲ فیصد پر پہنچے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے کامیاب ارکان کی تعداد۲۱ سے ۲۸ ہوگئے ۔بی جے پی نے دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ووٹ پر ہاتھ صاف کیا اور اپنے ووٹ میں ۱۰ فیصد کا اضافہ کیا ۔اس کے ارکان کی تعداد دوگنا سے زیادہ یعنی ۱۱ سے ۲۵ہوگئی۔ دیگر جماعتوں کے ووٹ میں دس فیصد کی کمی دیکھنے کو ملی مگر ان کے ارکان کی تعداد ۱۰ سے ۷ پر پہنچی۔ نمائندگی کے لحاظ سے صرف بی جے پی ایک ایسی بڑی جماعت تھی جسے لداخ اور کشمیر کی عوام نے پوری طرح مسترد کردیا تھا۔

اس حقیقت کے باوجود کہ بی جے پی دوسرے نمبر پر آئی اپنی مرکزی حکومت کے سبب اسے یہ غرہّ تھا کہ وہ آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگی اور پھر پی ڈی پی یا نیشنل کانفرنس اس کی مدد کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ یہی وجہ تھی کہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے سب سے پہلے کشمیر کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ وزیراعلیٰ ہر حال میں بی جے پی کا ہی ہوگا۔ اس کے بعد پی ڈی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا۔ انتخاب سے قبل بی جے پی کے ساتھ کسی بھی تعلق کو مسترد کرنے والی پی ڈی پی نے اس گفتگو کا سرِ عام اعتراف کرلیا اور بی جے پی کے سامنے دو بڑی شرائط رکھ کر اسے اپنے دام میں پھنسا لیا۔ جو کھیل بی جے پی نے مہاراشٹر میں شیوسینا کے ساتھ کھیلا تھا وہی کھیل پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔ اس کےباوجود بی جے پی دھن دولت کے نشے میں خاصی پر امید تھی ۔ اس دوران راجیہ سبھا کے انتخابات آئے جس میں ارکان اسمبلی کو ووٹ دینا تھا اور اس سے ان کا رحجان واضح ہوگیا۔ اس انتخاب میں بی جے پی کے امیدوار کو کانگریس کے غلام نبی آزاد نے شکست دے کر بی جے پی کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے اور وہ زمینی حقائق سے آگاہ ہوگئی اور پی ڈی پی کو اپنا قوام تسلیم کرلیا نیز نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر راضی ہو گئی۔ شاہ جی کی مفتی صاحب کے در پر حاضری شفیق جونپوری کے اس شعر کی مصداق ہے کہ ؎
کشتۂ ناز کی میت پہ نہ آنے والا پھول دامن میں لئے سوئے مزار آہی گیا

کشمیر میں فی الحال جو کچھ ہورہا یہ کھیل اس سے پہلے کئی بار ہوچکا ہے اور اسی طرح کی بدمعاشی نے کشمیر کو شورش زدہ علاقہ بنا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آزادی کے وقت کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کا جھکاؤ ہندوستان کے بجائے پاکستان کی جانب تھا اس لئے کہ ریاست کی ۷۷ فیصد عوام مسلمان تھے۔ لیکن پاکستان کی جانب سے ہونے والے قبائلیوں کے حملے سے خوف کھا کر اس نےگورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے فوجی مدد طلب کرلی۔ چونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا اختیار عمل پاکستان پر نہیں تھا اس لئے انہوں نے فوج کشی سے قبل ہندوستان کے ساتھ الحاق کی شرط رکھی۔ اس نازک وقت میں شیخ عبداللہ نے حکومت ہند کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ اس وقت پنڈت جی نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے استصواب کا حق تسلیم کیا تھا۔

جموں کشمیر وہ واحد ریاست ہے جس کا اپنا منفرد پرچم اور مختلف دستور ہے۔وہاں کے لوگوں کو آج بھی جزوی خود مختاری حاصل ہے۔ خارجہ ، دفاعی اور مواصلاتی امور کے علاوہ ہندوستانی پارلیمان کا کوئی قانون وہاں کی ریاستی حکومت کی منظوری کے بغیر نافذ العمل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ کشمیر میں ؁۱۹۶۵ تک صدر مملکت اور وزیراعظم کا عہدہ ہوا کرتا تھا۔؁۱۹۶۵ کے انتخابات میں جس کا اعتبار مشکوک ہے پہلی مرتبہ کانگریس کو کامیابی ملی اور اس نے فوراً کشمیر کے دستور میں ترمیم کرکے صدر کے عہدے کو گورنر میں بدل دیا اور وزیراعظم کو وزیر اعلیٰ بنا دیا اس طرح غلام محمد صادق نے سب سےپہلے وزیر اعلیٰ کا عہدہ کا حلف لیا۔ ایک طرف توریاستِ دہلی کے اختیارات میں اضافہ کا دعویٰ بی جے پی ، کانگریس اور عآپ والے کرتے رہتے ہیں دوسری جانب کشمیر رہنماوں نے مرکز ی حکومت کے دباؤ میں اپنے اختیارات کا سودہ کردیا۔ اب اگر عوام ان پر اعتماد نہیں کرتے تو اس میں کس کا قصور ہے؟ پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے اپنے والد کے دوست شیخ عبداللہ کی وفاداری کا انہیں یہ صلہ دیا کہ شیر کشمیر کو تمل ناڈو کی جیل میں قید کردیا۔ وہ جیل سے رہا ہوئے تو وزیراعظم سے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر راضی ہو گئے۔ ان کے بعد فاروق عبداللہ نے اقتدار سنبھالا تو ؁۱۹۸۴ میں کانگریس نے ان کے بہنوئی غلام محمد شاہ کی مدد سےان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ایک کٹھ پتلی سر کار عوام پر مسلط کردی ۔

؁۲۰۰۲ میں پی ڈی پی پہلی بار سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مفتی محمد سعید کانگریس کی مدد سےوزیر اعلیٰ بنے ۔ ؁۲۰۰۵ میں انہوں نے کانگریس کے غلام نبی آزاد کو حکومت کی باگ ڈور تھمادی اور انتخاب سے قبل امرناتھ مندر کو اراضی دینے کی مخالفت کا بہانہ بنا کر کانگریس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کانگریس نے ہندووں کو تو پی ڈی پی نے مسلمانوں کا دل جیتنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس جوتم پیزار میں نیشنل کانفرنس کا بھلا ہو گیا۔ ؁۲۰۰۸ میں عمر عبداللہ کانگریس کی حمایت سے بر سر اقتدار آگئے۔ اس بار پھرکشمیر کی عوام نے نیشنل کانفرنس سے بیزار ہو کر اسے مسترد کردیا اورپی ڈی پی کو کامیاب کردیالیکن اس نے کانگریس کے بجائے بی جے پی کا ساتھ گوارہ کرلیا اس لئے کہ مرکز میں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے ۔ اس اٹھا پٹخ سے ظاہر ہے کہ عبداللہ خاندان اور مفتی خاندان وقفہ وقفہ سے کشمیری عوام کا استحصال کررہاہے پہلے کانگریس ان کی ہمنوا تھی اب وہ جگہ بی جے پی نے لے لی ہے ۔ اسی کے ساتھ کشمیر کے اندر جس جمہوریت کا ساری دنیا میں چرچا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ بقول شاعر؎
یہ بیاباں، یہ شب ماہ ،یہ خنکی ،یہ ہوا
اے خزاں تجھ کو بھی انداز بہار آہی گیا

پی ڈی پی اگر چاہتی تو کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی مدد سے اپنی مخلوط حکومت قائم کرسکتی تھی لیکن اسے پتہ تھا کہ اس صورت میں مرکزی حکومت آئے دن اپنے گرگوں کی مدد سے کشمیر میں شورش برپا کرتی رہے گی ۔ کشمیر کے اندر حفاظتی دستوں کی مدد سے کی جانے والی دہشت گردی جگ ظاہر ہے۔ فوجیوں کا کورٹ مارشل اس کا جیتا جاگتاثبوت ہے۔ یہ جمہوریت کا وہ کریہہ چہرہ ہے جسے اس نیلم پری کے عشاق دیکھنا نہیں چاہتے۔ مفتی خاندان کویہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ اگر دہشت گردی پاکستان کے نام سے کی جائےاور اس پر روک تھام میں ناکامی کا الزام ریاستی حکومت پر دھر دیا جائے تو اس بہانے سے اسےباآسانی برخواست کیا جاسکتا ہے۔ اس کےبرعکس اگر مرکزی حکومت سے مفاہمت کرلی جائے تو سرکاری خزانے کا منہ کھل جاتا ہے جیسا کہ حکومت سازی پر رضامندی کے فوراً بعد وزیراعظم نے ۴۲۶ کروڈ کی امداد کا اعلان سیلاب زدگان کی باز آباد کاری کیلئے کردیا۔ مرکز میں وزارت کے مل جانے سے اپنی ذاتی تجوری بھرنے کے بھی بے شمار مواقع حاصل ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہنٹر اور گاجر کی حکمت عملی ہے جس پر ہر مرکزی حکومت عمل کرتی رہی ہے۔ اسی بلیک میلنگ کے سبب موقع پرستی کا پودہ پروان چڑھتا ہے۔ مرکز میں وی پی سنگھ کی حکومت آتی ہے تو مفتی محمد سعید وزیر داخلہ بن جاتے ہیں ۔ اٹل جی کی حکومت میں عمر عبداللہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور اور مودی حکومت میں محبوبہ مفتی اسی طرح کی کوئی وزیر بن جاتی ہیں ۔ اگر فی الحال مرکزمیں منموہن سنگھ کی حکومت ہوتی تو پی ڈی پی کو کیا ضرورت تھی کہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاتی وہ تو سیدھے سیدھے کانگریس کا ہاتھ تھام لیتی۔

پی ڈی پی ایک ایسے وقت میں بی جے پی کے ساتھ الحاق کررہی ہے جبکہ این ڈی اے میں شامل شیوسینا اور اکالی دل نے بی جے پی کے تحویلِ اراضی قانون کے خلاف الم بغاوت بلند کررکھا ہے۔ ویسے اس دھاندلی سے کشمیر کی عوام محفوظ ہے اس لئے کہ وہاں کوئی غیرملکی تو کجا غیر کشمیری بھی زمین خریدنے کا مجاز نہیں ہے۔ پی ڈی پی کو یہ بھی پتہ ہے کہ بی جے پی نے مہاراشٹر ، بہاراور ہریانہ میں اپنے حلیفوں کے ساتھ کس قدر اہانت آمیز سلوک کیا ہے لیکن جو لوگ اقتدار کی خاطر اپنے اصول نظریات کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ عوام کے جذبات و احساسات کو قدموں تلے روندتے ہیں وہ اسی سلوک کے حقدار ہوتے ہیں ۔مہاراشٹر کے اندرپارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کا ساتھ دینے کے بعدراج ٹھاکرے کی نونرمان سینا نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ ہریانہ میں وشنوئی کو ذلیل کرکے بھگا دیا گیا۔ نتیش کمار کو بی جے پی نے جس قدر رسوا کیاوہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے باوجودمفتی محمد سعید اور شرد پوار اگر بی جے پی کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہیں تو وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں ۔ شرپوار کی تو یہ مجبوری ہے کہ وہ بدعنوانی کے الزام میں جیل نہیں جاناچاہتے لیکن مفتی صاحب کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کے لئے بی جے پی کا آشیرواد درکار ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے جس وزیراعظم کے پاس دہلی کی تقریب ِ حلف برداری میں شرکت کیلئے وقت نہیں تھا وہ سرینگر جانے کیلئے پر تول رہا ہے۔

اس موقع پر ملک کے رائے دہندگان کو ٹھہر کر اس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے کہ بڑے ارمانوں سے جن امیدواروں کووہ کامیاب کرتے ہیں انہیں بعدمیں کیا ہوجاتا ہے؟اس سیاسی نظام میں ووٹر اس قدر بے بس کیوں ہے کہ عوامی نمائندے من مانی کرتے ہیں مگر ان کا بال بیکا نہیں ہوتا؟ ہر سیاسی رہنما اس نمک کی کان میں جلد یا بدیر نمک کیوں بن جاتا ہے؟ بلاتفریق ساری جماعتیں وقت کے ساتھ اپنے اصول نظریات کو بھلا کر سرتاپا بدعنوانی کے دلدل میں کیسے دھنس جاتی ہیں یا غیر مفقود ہو جاتی ہیں؟ اس نظام میں ایسی کون سی خرابی ہے جو ہر سیاسی گرد ہ کو بتدریج ابن الوقت اور مفاد پرست بنا دیتی ہے اور دیکھتے دیکھتے پی ڈی پی و بی جے پی کے درمیان کا فرق مٹ جاتا ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتوں یا ان کے امیدواروں کے بجائےاس سیاسی نظام کا متبادل تلاش کیا جائے ورنہ انتخاب آتے اور جاتے رہیں گے مگر جبرو استحصال ختم نہیں ہوگا۔ پی ڈی پی اور بی جے پی کا مدھر ملن اس سیاسی نظام کی کمزوریوں سے خبردار کرتا ہے لیکن افسوس کے عوام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے والے دانشورخود انہیں پتوں پر تکیہ کئے ہوئے ہیں جو آئے دن ہوا دیتےرہتے ہیں ۔ہماری حالت زارپریہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
نسیم صبح تو کیا سونے والوں کو جگائے گی
ابھی تو صبح خود سوئی ہوئی معلوم ہوتی ہے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228167 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.