2020میں امریکہ بھی پاش پاش ہوجائے گا

چارلی ایبڈو پر جس دن حملہ ہوا ،اسی دن فرانس کے ایک مشہور ناول نگار نے پیش گوئی کی تھی کہ 2020 میں فرانس ایک مسلم جمہوریہ ہوگا جس کا صدر بھی مسلمان ہی ہوگا ،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بوکھلاکروہاں کے خفیہ اداروں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے 9/11کی طرح یہ دہشتگردی کروائی ، واﷲ اعلم ،لیکن اس بات کی تائید اس غیر مصدقہ خبر سے بھی کچھ نہ کچھ ہوتی ہے کہ کوچی برادران جن کو واقعے کا ذمہ دار ٹہراکر ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ ایک سال قبل شام کی جنگ میں مارے جاچکے تھے ۔

اسی طرح گذشتہ ہفتے جہان ِپاکستان کے اسی صفحے پر ہماراکالم ’’ اسرائیل کا زوال شروع ہے ‘‘ چھپا،تو کئی دوستوں نے اسے ہماری خوش فہمی قراردیا، ڈاکٹر خلیل بلیدی نے تو اس حوالے سے خاصا مناظرہ بھی کیا،وہ عرب دنیا کی موجودہ تشتت وانفکاک سے استدلال کررہے تھے ،جبکہ ہم اسرائیل کے زوال کو اندرگھر سے ثابت کررہے تھے ، ہمارے سامنے بین الاقوامی میڈیا بالخصوص الجزیرہ کی تفصیلات تھیں ۔

آج جب ہم امریکہ کے زوال کا تذکرہ کررہے ہیں ،تو وہ بھی خارجی نہیں داخلی اسباب کی بناء پر کررہے ہیں ،بی بی سی کے مطابق امریکہ کے زوال کے پیش گوئیاں کوئی نئی بات نہیں ہے ،جب روس نے خلانوردی میں امریکہ کو مات دی تھی اس وقت بھی ایسی قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں ،لیکن حالیہ برسوں میں سیاسی جماعتوں اور مختلف امریکی ریاستوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کردیاہے ،نیز امریکہ قرض میں بری طرح پھنس چکاہے ،جس کا قرض اربوں میں نہیں سینکڑوں کھرب ڈالر میں ہے ،بتایاجاتاہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کبھی اتنا مقروض نہیں ہوا۔

بعض مبصرین کے خیال میں موجودہ قرضے ماضی کے قرضوں کی نسبت بڑے خطرناک ہیں ،جو امریکی زوال کی ایک بڑی وجہ بن سکتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ امریکی زوال کاآغاز اقتصادیات سے ہوگا،جو وہاں کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے کر پوری تہذیب کو گرادے گا،امریکہ کی فارن ریلیشنز کونسل کے صدر رچرڈ باس کے مطابق امریکی زوال کا تعلق معیشت کی گرتی ہوئی صور ت حال سے ہے ، جبکہ امریکی مفکر فرانسیس فوکویاما کے خیال میں اس کا تعلق داخلی بداعتمادی سے ہے ، ان کا کہناہے کہ امریکی قوم کی بندوقوں سے بڑھتی ہوئی محبت صرف ذاتی تحفظ کے لئے نہیں ہے ،بلکہ ایک سیاسی عدم اعتماد کی فضا کی عکاس ہے ، جس کی وجہ سے ملک میں کسی بھی معاملے پر اتفاق رائے ناممکن ہوچکاہے ،کولومبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس کے مطابق سارا نظام امیر کو امیر تر کرنے کے اصول پر استوارہے ،دونوں سیاسی جماعتیں کم ٹیکس ،کم اصلاحات اور امیروں کی حمایت کی پالیسی پر متفق ہیں ،جو امریکہ کے سب سے بڑے مسائل ہیں ،جبکہ کچھ مفکرین ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ امریکہ تعلیمی برتری اور ڈیجیٹل سائنس میں مہار ت کی بدولت ٹوٹ پھوٹ سے بچ جائے گا۔

لیکن مغربی دنیا کے ممتاز سیاسی تجزیہ کار جان کالٹنگ ،جن کی ماضی میں بہت سی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں،نے اپنی کتا ب ’’ The fall of us Empire‘‘میں امریکی زوال کے مسئلے کو پھر سے اٹھایاہے اور 2020 کو ٹارگٹ کیا ہے وہ کہتے ہیں : امریکا بڑے عرصے سے ساری دنیا کی فتح کا خواب دیکھ رہاہے ، کئی ممالک جاپان ،ویت نام ،روس ، لیبیا ،فلسطین ، اردن،چین ، صومالیہ ،شام ، شمالی کوریا، مصر ، سوڈان ، انڈونیشیا، عراق اور افغانستان یا تو براہ راست امریکی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں یا سیاسی مداخلت کے ذریعے امریکی مظالم کا شکار ہوئے ہیں ، خلیج ٹائمز میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے دنیا بھر کی آبادی کے چارحصے امریکی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں ، امریکا کی اندرونی آبادی کا بڑاحصہ امریکا کے ظالمانہ جرائم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔

امریکا میں حالیہ علیحدگی پسند تحریکوں کا اٹھنا بھی امریکی پالیسیوں کا رد عمل ہے ،جان کے مطابق 2020تک یہ تحریکیں امریکہ کی جغرافیائی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کریں گی ، 2012 میں اوباما کے دوبارہ صدر بننے پر لوزیانا ریاست کے 13ہزار افراد نے امریکا سے علیحدگی کے لئے عدالت کو درخواست دی تھی،انہوں نے الگ ملک کے طور پر اپنے لئے ریاست کی علیحدگی کا مطالبہ کیا تھا، ان کے مطالبے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ دیگر ریاستوں میں بھی آزادی کی آوازیں اٹھنے لگیں ، عدالتوں کو درخواستیں دی جانے لگیں ، اب تک وہائٹ ہاوس سے آزادی کا مطالبہ کرنے والی ریاستوں کی تعداد 27ہوگئی ہے ، امریکی آئین کے مطابق جو بھی ریاست آزادی مانگے اور ایک ماہ کے دوران اس ریاست کے 25ہزار افراد آزادی کے مطالبے پر دستخط کردیں، صدر کی ذمہ داری ہے کہ ان کے مطالبے پر غور کرے ،اس شرط کو پورا کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں ، جن ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ، وہاں دستخطوں کی کمپین چل رہی ہے ،بڑی تعداد میں لوگ اپنی ریاستوں کی آزادی کے لئے ایک دوسرے کو تیار کررہے ہیں تاکہ آئندہ دستخطی مہم کا سلسلہ شروع کیاجاسکے ،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کے اکثر لوگ حکومتی پالیسیوں کے مخالف ہیں ، ان کا اعتراض ہے کہ امریکی حکومت بجائے اس کے کہ عوام کے پیسے عوام پر خرچ کرے ، اسے دنیا پر قبضے اور جارحیت پر خرچ کررہی ہے ، دوسری بات یہ کہ امریکی عوام کو ابلاغ اور دیگر ذرائع سے معلوم ہواہے کہ امریکا دنیا کا مقروض ترین ملک ہے ، اس پر ڈیڑھ سو کھرب سے زیادہ ڈالر کا قرضہ ہے ،جس کی وجہ سے امریکی معیشت زوال کا شکار ہے ، اسی طرح امریکہ کی زیادہ توجہ اب تعلیم ، صحت اور روزگار کے بجائے جنگوں پرہے ، ماضی کی بنسبت بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہواہے ،لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنی ریاستوں کے اندر اپنے مسائل کم کرنے کا سوچ رہے ہیں ، ساری دنیا پر حکومت کرنے کا بوجھ اپنے سروں پر سوار نہیں کرنا چاہتے ، امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ ملکی پالیسیوں نے ساری دنیا کو آگ کا گولہ بنادیاہے ،کوئی امریکی شہری دنیا میں محفوظ نہیں ہے ،دنیا بھر میں لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں ، عوام کا کہناہے کہ وہ اس سب کے بجائے اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ اپنی ریاستوں کو امریکہ سے آزادی دلائیں اور دنیا بھر کے لوگوں سے اپنے معمول کے رابطوں کا آغاز کریں تاکہ بااعتماد طریقے سے دنیا میں ہر شخص سے لین دین کرسکیں ۔ سفید فام او رسیاہ فام کی پرانی رقابتیں ایک بارپھر تازہ ہونے لگی ہیں ، فریقین کے مطالبات کے درمیان زمین وآسمان کا فاصلہ ہے ، جو شاید عنقریب ایک بڑی خانہ جنگی پر منتج ہوجائے ، اس کو دیکھتے ہوئے جان لکھتاہے : امریکہ ایک ایسی بندگلی میں داخل ہوگیاہے ،جہاں سے اسے واپسی کا کوئی راستہ نہیں مل رہا ۔۔۔موجودہ حالات میں ایک جانب امریکہ میں آزادی پسندوں کا مطالبہ شدت پکڑ رہاہے ، آزادی پسند ریاستوں میں مضبوط تحریکی آثار نظرآرہے ہیں ،جولوگ وہائٹ ہاوس سے آزادی مانگ رہے ہیں ، ان کے خلاف جوابی ردعمل بھی شروع ہوگیاہے ، جو لوگ آزادی چاہتے ہیں ان کی شہریت منسوخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، اس سے امریکیوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں ،امریکہ میں بڑے پیمانے پر اسلحے کی خرید وفروخت جاری ہے ، ذرائع ابلاغ کے مطابق صرف گذشتہ تین ماہ میں امریکیوں نے تین ملین ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے ، یہ اسلحہ مستقبل میں امریکی زوال کا ایک طاقتورطوفان اٹھائے گا اوراس بات کو یقینی بنائے گاکہ امریکی زوال کے لمحات اب قریب آگئے ہیں ،بقول جان2020 کا انتظار کریں ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 815054 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More