کیا وزیر اعلی شہباز شریف اس کالم کو پڑھنا پسند کریں گے ؟

میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلی کی حیثیت سے جہاں پاکستان کے چپے چپے میں اپنی متحرک شخصیت کی وجہ سے ہر دلعزیز ہیں وہاں بنک آف پنجاب کے سرپرست اعلی کے طور پر آپکے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے ۔اس وقت میں آپ کی توجہ بنک آف پنجاب کے حوالے سے ہی ایک اہم کیس کی جانب دلانا چاہتا ہوں ۔بات شروع کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بنک آف پنجاب بھی دیگر قومی بنکوں کی طرح اربوں روپے ڈیفالٹر کے گزشتہ پچیس سالوں سے معاف کرچکا ہے جس کا ثبوت بنک کی بیلنس شیٹس میں محفوظ ہے ۔ایک جانب بنک کی یہ فیاضی کہ ایک ارب روپے قرض لینے والے کو ڈیفالٹر شو کرکے مارک سمیت قرض بھی معاف کردیتا ہے دوسری طرف اگر کوئی بنک ملازم قرض لیتا ہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد بنک اسے مارک اپ معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔میں بنک میں 20 سال ملازمت کر نے کے بعد ریٹائر ہوچکاہوں میں نے خرید پلاٹ کے لیے2005ء میں بنک سے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے قرض لیا تھا ریٹائر منٹ کی تاریخ 3 دسمبر 2014ء تک میں 540,777 روپے بنک کو واپس کر چکا ہوں اور 3,09,223/- روپے اصل قرض میں سے باقی ہیں ۔ لیکن ریٹائرہونے کے باوجود جبکہ میرا کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے مارک اپ کی شکل میں مجھ سے 609,670 روپے مانگے جارہے ہیں ۔میں نے بنک کے پریذیڈنٹ کو نہایت ادب سے مارک اپ معاف کرنے کی درخواست کی تھی لیکن بنک نے یہ کہہ کر مجھے خاموش کروا دیاکہ ملازم کو مارک اپ معاف کرنا بنک کی پالیسی نہیں ہے ۔گویا اربوں روپے ڈیفالٹرکی رقم بنک معاف کرسکتا ہے لیکن بنک ملازم کو ایک پیسہ بھی معاف کرنا گناہ ہے یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے جو آپ کے دور میں میرے ساتھ ہورہی ہے ۔ جناب عالی وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے آپ بنک کے سرپرست اعلی بھی ہیں آپ دلچسپی لے کر مارک اپ ہی معاف کرنے کا حکم جاری فرماکر مجھے ذہنی اذیت سے بچائیں ۔20 سال ملازمت کرنے کے بعد اب میں مالی طور پر شدید ترین مشکلات کا شکار ہوں مجھے علم ہے کہ یہ کام اورکوئی نہیں کرسکتا سوائے آپ کے ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں مسلم لیگ (ن) کانظریاتی کارکن اور ووٹر بھی ہوں آپ اور مسلم لیگ کو میں دل وجان سے چاہتا تھا ۔میری بہترین خدمات کے اعتراف میں مسلم لیگ کی جانب سے مجھے تعریفی اسناد اور گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا ۔ ایک پیسے کا مفاد میں نے حاصل نہیں کیا ۔ اب جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعدبے روزگار ہوچکاہوں اور گھرکے اخراجات پورے کرنا بھی میرے لیے مشکل ہوچکاہے میری ادبی اور لیگی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی ادبی ادارے میں کنٹریکٹ پر ملازم رکھ کے مجھے بھی زندہ رہنے کا حق عطا فرمائیں ۔میں نے الحمد اﷲ قومی ہیروز اور قومی اور بین الاقوامی ایشو پر65 کتابیں لکھی ہیں جن میں سے گیارہ کتابیں پنجاب ٗ خیبر پختونخواہ اور آزادجموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں اور پبلک لائبریریوں کے لیے منظور تو 2005ء میں ہوچکی ہیں لیکن بغیر سفارش اور رشوت کے کسی ایک ادارے نے بھی کتابیں خرید نہیں کیں جبکہ سابق وزیراعلی چوہدری پرویز الہی کے کئی چہیتے کتابیں چھپنے سے پہلے ہی ایڈوانس چیک لے کر ہضم کرچکے تھے۔ اس حوالے سے بھی مجھے آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔میری ادبی اور تخلیقی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 2005 اور 2006 میں تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے میرانام بھجوایاگیا تھا لیکن سفارش نہ ہونے کی بناپر میرا نام کیبنٹ ڈویژن سے آگے نہیں جاسکا اگر مسلم لیگی حکومت میں میری ادبی خدمات کے عوض مجھے تمغہ حسن کارکردگی نہ مل سکے تو سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔از راہ کرم میری ادبی خدمات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تمغہ حسن کارکردگی کے لیے میرانام بھجوائیں۔آپ کو شاید یاد ہو کہ آپ نے 1998ء میں مجھے لاہور کی ڈویلپمنٹ کمیٹی میں شامل کیاتھاجس میں سعد رفیق ٗکامل علی آغا ٗ ڈ ی جی پی آر شامل تھے اس کے بعد آج تک میں آپ کی نظر کرم سے محروم کیوں ہوں۔ اگر مہربانی فرماکر چندمنٹ کی ملاقات کرنے کی مجھے اجازت دیں تو یقین کامل ہے کہ میرے تمام مسائل آپ ایک ہی جنبش میں حل کرسکتے ہیں ۔کیا آپ مرنے کے بعد ہی قدرافزائی کرنے کی روایت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں کیا زندہ انسان کی قدر آپ کے دور حکومت میں کوئی نہیں ہے ۔ کوئی خط اور درخواست تو آپ تک پہنچ نہیں سکتا دیکھتے ہیں یہ کالم بھی آپ کی ذاتی توجہ حاصل کرسکتا ہے کہ نہیں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 667977 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.