آؤکہ عہدکریں ...’’اَب ہم اپنے ہاتھوں کی زنجیر سے دُشمن کا منہ توڑدیں...‘‘

کیا ہم مُردہ پرست ہونے کے ساتھ ساتھ سانحات پرست قوم بھی بن گئے ہیں...؟؟؟

چلو..!! آج ہم اپنی بات یہیں سے ہی شروع کئے دیتے ہیں آؤکہ عہد کریں’’ اَب ہم اپنے ہاتھوں کی زنجیرسے دُشمن کا منہ توڑدیں‘‘اور ’ ’اپنی جانب ہر میلی نظرسے اُٹھنے والی دُشمن کی آنکھیں نکال دیں‘‘ہماری پاکستانی قوم کے لئے یہ ایک حوصلہ افزاامرقرارپایا ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد(بظاہر بہت سے حوالوں سے بٹی) میری قوم کا ہر فرداپنے مُلک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ایک پیچ پر آگیاہے اَب اِسے اپنی منزل پانے تک یوں ہی متحداورمنظم رہناہوگا،اَب موجودہ حالات واقعات کے تناظرمیں ایک سوال ہے جو میرے ذہن میں پیداہواہے اور وہ یہ ہے کہ ’’کیا ہم مُردہ پرست ہونے کے ساتھ ساتھ سانحات پرست قوم بھی بن گئے ہیں‘‘ ہم جو مسائل مذاکرات سے حل نہیں کر پاتے ہیں اَب کیاہم نے اُن مسائل کا حل سانحات سے نکال لیتے ہیں‘‘قارئین حضرات..! اگرآپ کے پاس میرے سوال کا جواب ہے تو مجھے ضروربتائیے گا۔

بہرکیف ...!!آج ہمارادُشمن ہماری آپس کی لڑائیوں سے یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ ہم تفرقوں میں بٹ چکے ہیں حالانکہ ہم نفسِ انسانی کی مجبوریوں کے باعث لڑتے ضرورہیں مگر ہماری یہ لڑائیاں ایسی بھی نہیں ہوتی ہیں کہ کوئی ہمیں بٹاہوامحسوس کرکے ہم پہ حملہ آور ہی ہوجائے ،(جیساکہ سولہ دسمبر کو پیش آئے سانحہ پشاور میں ہمارے دُشمن نے کیا )اَب دُشمن کو یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ جہاں دوبرتین ہوتے ہیں وہ آپس میں ٹکراتے ضرورہیں بس ہم پاکستانیوں کی بھی خصلت اُن دوبرتوں کی طرح ہے جو ایک ساتھ تو رہتے ہیں مگروقتاََ فوقتاََ یوں ہی بیٹھے بیٹھائے ٹکراجاتے ہیں اور اپنے ٹکرانے سے خود ہی زوردار آوازبھی پیداکرتے ہیں(جیساکہ ہم پچھلے چار ماہ سے ایک ذراسی بات وہ بھی یہ کہ ایک کہتاکہ’’ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی جو ہواسب ٹھیک تھا‘‘اور دوسرابضد رہاکہ’’ جو کچھ ہوااور کیا گیاوہ سب غلط اور دھاندلی سے ہواہے ‘‘جس کے لئے دوسرے نے مُلک بھر میں دھرنے دیئے اور سارے مُلک میں ریلیاں نکالیں اور بس یوں ہی آپس میں ہم لڑتے ہی رہے )اَب ہماری اِس خصلت کوکوئی ہماری کمزوری سمجھے تو یہ اِس کی بھول ہے، اِنہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم ایسے نہیں ہیں جیسے ہم دنیاکو نظرآتے ہیں آج یہ ٹھیک ہے کہ ہم آپس میں لڑتے تو ضرور ہیں مگر ہم بٹے ہوئے ہرگزنہیں ہیں کیوں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماراقرآن کے اِس فرمان پہ یقین اور ایمان ہے کہ’’ آپس میں نہ لڑوورنہ تم بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوااُکھرجائے گی‘‘یوں ہماری آپس کی لڑائیوں کو دیکھ کر کوئی یہ بھی نہ سمجھے کہ ہم بزدل ہوگئے ہیں اور وہ اِس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہماری ہوااُکھاردے گا ۔

آج میری پاکستانی قوم کو یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہرزمانے کے ہر قوم کے ہر معاشرے کے انسانوں کو ایک اتحاد ہی ہے جو عروج دیتاہے اورعدم برداشت اور نفاق ہی ہیں جو اِنسانوں کے معاشرے میں پنپنے والی اِنسانیت کوگڑھے میں گرادیتاہے،اِس بات کی تو ہماری پاکستانی قوم کی تاریخ گو اہ ہے کہ جب ہی مُلک کی خودمُختاری اور بقاو سالمیت پر دُشمن نے حملہ کیا تواِس آزمائش کی گھڑی میں ساری پاکستانی قوم اپنے آپس کے سیاسی و مذہبی ذاتی و اقتصادی اختلافات کو بھولاکر متحدو منظم ہوگئی اِس کی مثال دنیا نے 1965کی جنگ، 8اکتوبر 2005کے شمالی علاقہ جات کے زلزلے اور مُلک میں گاہے بگاہے پیش آنے والے بے شمار ایسے چھوٹے بڑے سانحات کے وقت دیکھاکہ بظاہر لڑائی جھگڑوں میں مصروف رہنے والی پاکستانی قوم اپنے آ پس کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشکل وقت میں کیسے متحد اور منظم ہوجاتی ہے اور ہر مشکل گھڑی کا یکسوئی سے مقابلہ کرکے اُسے کیسے شکست سے دوچارکرکے فتح سے ہمکنار ہوتی ہے ، کیوں کہ میری پاکستانی قوم کو اپنے دین اور اپنے اکابرین سے ملنے والا یہ درس بھی خوب یاد ہے کہ ’’ چیونٹیاں متحد ہوجائیں تو شیر کی کھال کھینچ سکتی ہیں ‘‘اور یہ بھی کہ ’ اتفاق و اتحاد سے کام آسانی کے ساتھ اور جلدی ہوجاتاہے ‘‘۔

آج کیااِس بات کی طرح کہ ’’ ہم مُردہ پرست قوم توپہلے ہی تھے‘‘ مگراَب’’ ہم سانحات پرست قوم بھی ہوگئے ہیں‘‘ آج سے میری قوم اپنے سینے پہ سجے پہلے والی بات کے لیبل کے ساتھ دوسرے جملے کا بھی اضافہ کرکے یہ یقین کرلے کہ اَب ہاں ....’’ہم سانحات پرست قوم بھی بن گئے ہیں‘‘ آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پچھلے چار ماہ سے میرے مُلک میں جس قسم کی سیاست کا بازارگرم تھا اگر سولہ دسمبر کو سانحہ پشاور رونمانہ ہوتاتو میرے مُلک کی بے ہنگم سیاسی گرم بازاری کی دھکتی آگ کے شعلوں میں وقت گزرنے ساتھ ساتھ مزیدشدت آتی جاتی ...پھر نتیجہ کسی کی بے مقصدکی فتح اور کسی کی لاچارگی والی ہار پر آن کر ختم ہوتا...پھرکچھ دِنوں کے لئے کسی نئے اُمورِ مملکت کی بنیاد رکھ دی جاتی ...کچھ عرصہ یہ ڈگمگاتا...ہواچلتااور جب یہ ٹھیک طرح سے چلنے کے قابل ہوتاتوپھرکسی کی طرف سے کوئی نیافتنہ کھڑاکردیاجاتا...اور یہ سلسلہ یوں ہی اُس وقت تک بغیرروکے جاری رکھتاجب تک قوم کے سامنے کوئی سانحہ رونمانہ ہوجاتا...

بہرحال..!! سولہ دسمبر کو پشاورکے ورسک روڈ پر واقعے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کے پیش آنے والے قومی سانحے نے میری پاکستانی قوم کے ایک ایک فرد کو متحداور منظم کردیاہے اور آج میری پاکستانی قوم حکمرانوں، سیاستدانوں اورعسکری قیادت سمیت سرزمینِ پاکستان پر بسنے والے ہر مذہب و ملت ، ہر رنگ و نسل اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے فرد کو مُلک سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اِسے مُلک سے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لئے ایسا متحد و منظم کردیاہے کہ آج میری پاکستانی قوم کے ہر فردکی بس ایک یہی آزوراور دل سے نکلنے والی آواز ہے کہ’’آؤکہ عہدکریں..’’ اَب ہم اپنے ہاتھوں کی زنجیرسے دُشمن کا منہ توڑدیں‘‘اور ’’ اپنی جانب میلی نظرسے اُٹھنے والی دُشمن کی آنکھیں نکال دیں‘‘۔اِس لئے کہ آج میری پاکستانی قوم اپنے سب اختلافات کو بھولا کر یہ بات سمجھ چکی ہے کہ’’ آج ہمارامقابلہ اپنے ایک ایسے سفاک دُشمن سے ہے جودین اسلام کے محبت اور آپس کے بھائی چارگی والے درس کو مسخ کرکے ہماری لاشوں اپنی خودساختہ شریعت کا نفاذ چاہتاہے،آج اپنے دین اور اِنسانیت کے قاتل ایسے دُشمن سے ہماری فتح تب ہی ممکن ہوسکتی ہے کہ جب ہم پوری طرح سے متحداور منظم ہوجائیں اور اپنے دُشمن پر ایسی کاری ضرب لگائیں کے وہ ہمارے ایک ہی وار سے واصل جہنم ہوجائے اور یوں ہمارے متفق اور متحدہونے سے اپنے مُلک سے دہشت گردوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے اور ہمارامُلک جو ایک عرصے سے دہشت گردی کی آگ میں جل رہاہے یہاں بھی محبتوں اور امن و آشتی کے پھول کھلنے لگیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 888020 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.