دہشتگرد بمقابلہ نان بائی

بلاشبہ جب ملک اس ہیجانی کیفیت میں سے گذر رہا ہے کہ قوم 150معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں دیکھ دیکھ کر مغموم ہے پورے ملک میں تدریسی سرگرمیاں بند ہیں بچے جب والدین سے سوال کرتے ہیں کہ ان کا سکول کیوں بند ہوگیا ہے جب کہ اس کے امتحانات جاری تھے تو والدین کبھی ایک بہانہ کر تے ہیں کبھی کوئی سچ پوچھیں تو کتنی مائیں تذبذب کا شکار ہیں کہ کیا ان کے بچوں کی تعلیم ان کی جان سےزیادہ ضروری ہے ؟ اس لمحے ملک کے وزیر داخلہ جو داخلی سلامتی کا ذمہ دار ترین شخص ہوتا ہے بھلا کیسے آرام اور چین سے بیٹھ سکتا تھا کیونکہ پشاور کا واقعہ ہونے تک پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا اس لیئے سب کچھ صحیح چل رہا تھا لیکن پشاور کے معصوم بچوں کے خون نے حکومت کو احساس دلایا کہ یہ جو دہشتگردی نامی ایک عفریت ہے اب کہیں یہ پاکستان میں بھی داخل نہ ہو جائے اس لیئے حادثہ کے بعد دوسرے دن ملکی رہنما مل کر بیٹھے اور کئی گھنٹوں تک حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت کے بعد جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ ایک ایسی کمیٹی بنا دی جائے جو ایک ایسا پلان ترتیب دینے کے لیئے ایک روڈ میپ تیار کرے جس کی روشنی میں مستقبل میں آنے والے ممکنہ خطرات کا سد باب کیا جا سکے اس وقت جو خبر میڈیا نے نہیں دی وہ یہ ہو سکتی ہے کہ دہشتگرد "بھائیوں "سے گذارش کی گئی ہو گی کہ ہمارے پاس کیونکہ دہشتگردی کے خلاف پلان نہیں ہے اور آپ کو اس بات کی خبر بھی تھی پھر بھی آپ نے آرمی پبلک سکول میں دہشتگردی کر کے زیادتی کی ہے لیکن جو ہوا سو ہوا اب برائے مہربانی ہماری پالیسی بنائے جانے تک آپ لوگ کوئی مزید کاروائی نہیں کریں گے ۔ کیونکہ ملک کو پہلی دفعہ دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیئے حکومت نے بروقت روک تھام کی پالیسی بنانے کے لیئے اس کمیٹی کو اپنی سفارشات ایک ہفتے میں مکمل کرنے کا ٹاسک دیا اور ان سفارشات کو ملک کے تمام طبقہ ہائے زندگی کے لیئے قابل قبول بنانے کے لیئے اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا کہ چونکہ اس پالیسی سے سب سے زیادہ پریشانی طالبان اور دہشتگردوں کو ہو سکتی ہے اس لیئے کمیٹی میں چن چن کر ان لوگوں کو شامل بھی کیا گیاجو طالبان کے لیئے یکساں قابل قبول ہوں پھر کیا تھا یہ سارے درد رکھنے والے افراد ہوم ورک مکمل کرنے بیٹھ گئے اور مسلسل چار روز تک غورو خوض جاری رہا جس میں سب سے زیادہ زور اس پر تھا کہ دہشتگردی کی مذمت کے لیئے ایسےہومیوپیتھک بیانات جاری کئے جائیں جن سے شہداء کے ورثاء بھی مطمئن ہو جائیں اور "دہشتگرد بھائیوں "کی دل آزاری بھی نہ ہو اور اس طرح ملکی وحدت کو پارہ پارہ ہونے سے بچایا جائے ۔ملکی تاریخ میں پہلی بار صرف چار دن بعد ہی ان نابغہ رروزگار ہستیوں نے معاملہ کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر مسلسل تیرہ گھنٹے تک ملاقات کی جس میں دہشتگردی کے روک تھام کی تمام جزئیات زیر بحث لائی گئیں اور کافی ردو قد اور بحث و تمحیص کے بعد ان قومی راہنماؤں نے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے عوام کی حفاظت کے لیئے بنائے جانے والے پلان کا روڈ میپ ترتیب دے دیا اور ساتھ ہی حفظ ما تقدم کے طور پر وفاقی وزیر داخلہ جو اس کمیٹی کی سربراہی کی نازک ترین ذمہ داری بھی نبھا رہے تھے انہوں نے پریس کانفرنس کر کے جو اہم ترین نکات بیان فرمائے تو قوم خوشی سے ناچتی ہوئی سڑکوں پر آگئی کیونکہ قوم کو یقین ہو گیا تھا کہ اب ان کے مسائل کا یقینی حل وزیر داخلہ موصوف نے بیان کر دیا تھا اور وہ حل ہی نہیں ایک ایسا راز تھا جس سے امریکہ جیسی سپر پاور بھی ابھی تک لا علم تھی اور دہشتگردی کے شکار تمام ممالک بھی بلکہ اس حل کے سامنے آنے پر گمان غالب ہے کہ اپنا سر پیٹنے لگ جائیں کہ کئی سو ارب ڈالر خرچ کر کے بھی وہ جس عفریت کا مقابلہ نہیں کر سکے پاکستان کے ذہین راہنماؤں نے اسے چٹکی بجاتے ہوئے حل کر دیا آپ پریشان ہو رہے ہوں گے وہ اہم نکتہ کیا ہے جس کو میں نے ابھی تک بیان نہیں کیا تو دل تھام کر بیٹھ جایئے کیونکہ میں مطالبہ کرنے لگا ہوں کہ دہشتگردی کے خلاف اس معرکتہ الآراء حل پیش کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ کے لیئے امن کے نوبل پرائز کا اعلان کیا جائے پریشان مت ہوں وہ حل وزیر داخلہ نے کل پریس بریفنگ میں بتا تو دیا ہے مگر میں یہاں بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر دہرا دیتا ہوں کہ دہشتگردی کے خاتمہ کے لیئے "تمام نانبائی ان لوگوں پر نظر رکھیں کو ان سے کثیر تعداد میں روٹیاں خریدیں "اور ان لوگوں کی اطلاع وزارت داخلہ تک پہنچانے کے لیئے ممکن ہے آج یا کل ہر تندور پر ہاٹ لائن بھی قائم کر دی جائے پس تحریر : -سوائے پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر رحیق عباسی کے کسی سیاسی یا سماجی راہنما نے اس "تندور پلان "کی مذمت تک نہیں کی شاید انہیں احسا س بھی نہ ہوا ہو؟
محمد نعمان عمر
About the Author: محمد نعمان عمر Read More Articles by محمد نعمان عمر: 5 Articles with 2814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.