اب اقبال کا شاہیں بنے گا ٹیکسی ڈرائیور......

ہرماں باپ کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر اچھی زندگی گزاریں۔حالات ناسازگار ہونے کے باوجود وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں۔ ان کے اچھے مستقبل کے لئے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے اخراجات پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو والدین خود کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے وہ تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم کی دولت سے فیض یاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اگر میں اپنے الفاظ کو سمیٹنا چاہوں تو اک ماں کے الفاظ شاعر کی زبان میں ایسے کہوں گا
؂ ابھی بھولا نہیں میں اپنی ان پڑھ ماں کا وہ جملہ
کہ بیٹا علم کی دولت میری سانسوں سے پیاری ہے

جیسے تیسے غریب کے بچے میٹرک، انٹرمیڈیٹ یا چند ایک جو گریجوایشن تک پہنچ پاتے ہیں ، اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں تو انہیں ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ حصول تعلیم کے بعد حصول روزگار کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ محنت میں کوئی عار نہیں مگر تعلیم اور قابلیت کے مطابق نوکری نہ مل پانا بھی کسی المیے سے کم نہیں۔اگر محنت (مزدوری) ہی کرنی تھی تو ان ڈگریوں کا کیا کرنا تھا۔ اقبال کے پاکستان میں نوجوان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے یقینا اس سے ان کی روح کو تکلیف پہنچتی ہو گی۔مصور پاکستان نے توقوم کے نوجوان کو کچھ اس طرح سے مخاطب کیا۔
؂ تُو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
اور ’’بدلا ہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے ہمارے حکمران تعلیمی میدان میں سہولیات فراہم کرنے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان کی قابلیت اور تعلیم کے مطابق نوکریاں فراہم کرنے کی بجائے اقبال کے شاہیں کو ٹیکسی ڈرائیور بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

مجھے بتائیے کیا گلی گلی جا کر بوٹ پالش کرنے والے غریب نے اپنی بیٹی کو میٹرک، سڑک کنارے نان چنے کی ریڑھی لگانے والے نے اپنے اکلوتے بیٹے کو انٹرمیڈیٹ اورایک بیوہ نے کپڑے سلائی کر کرکے اپنے یتیم بچے کو اس لئے گریجوایشن کروایا تھا کہ وہ دس، بارہ یا چودہ سال تک کتابی کیڑا بنے رہنے کے بعد ایک ٹیکسی ڈرائیور بنے گا۔ آپ ہی بتائیے کیا مذکورہ لوگوں میں سے کوئی ایک بھی ڈاؤن پے منٹ کے ایک لاکھ ستر ہزار ادا کرنے کے قابل ہے۔ جس کی ماہانہ آمدنی ہے ہی چھ ہزارروپے، وہ کیسے فارم فیس کی مد میں دو ہزارروپے اور ٹوکن فیس کی مد میں بارہ ہزار روپے ادا کر سکتا ہے۔

اسی سکیم سے متعلق سوشل میڈیا پر ضلع حافظ آباد سے متعلق کچھ تفصیلات لیک ہوئی ہیں جن کے مطابق ضلع حافظ آباد کے لئے ایک سو بیس گاڑیاں مختص کی گئی ہیں جبکہ یہاں سے پچاس ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔ اس طرح فارم فیس کی مد میں دس کروڑ روپے کی خطیر رقم اکھٹی ہوئی۔ ایک گاڑی کی قیمت چھ لاکھ پچپن ہزار روپے ہو تو ایک سو بیس گاڑیوں کی کل قیمت سات کروڑ چھیاسی لاکھ روپے بنتی ہے۔ یعنی صرف فارم فیس سے جمع ہونے والی رقم بھی گاڑیوں کی اصل قیمت سے زائد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹوکن فیس، ڈاؤن پے منٹ اور اقساط کی صورت میں جو اربوں روپے اکٹھے ہوں گے وہ حکومت کو منافع ہو گا۔ گویا لکی کمیٹی کا طریقہ استعمال کر کے اربوں روپے ہتھیانے کا شاندار منصوبہ ہے، نہ کہ غریب بے روزگاروں کے لئے کوئی تحفہ۔اگر خادم اعلیٰ کو بے روزگاروں کا اتنا ہی خیال ہے تو اپنے اربوں ڈالر پاکستان لے کر آئیں اور ان کی سرمایہ کاری کریں پاکستان میں تاکہ نئی نوکریاں پیدا ہوں اور بے روزگاری میں کمی ہو۔

مگرافسوس حوس کے مارے ہمارے حکمران پیسہ کمانے کی دھن میں اندھے ہو چکے ہیں۔ غریب کے خون پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اک روز اسی جہاں میں ان سے حساب لیا جائے گا۔ خدا کے ہاں دیر تو ہے، پر اندھیر نہیں۔۔۔۔۔
Tajammal Mahmood Janjua
About the Author: Tajammal Mahmood Janjua Read More Articles by Tajammal Mahmood Janjua: 43 Articles with 35075 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.