کیا فوج پاکستانی نہیں یا محب وطن نہیں

تحریر: سکینہ سالار سلطان

عجب مقام حیرانگی ہے کہ یہ جو ہم برسوں سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ یہ ڈکٹیٹر کی پیداوار ہے وہ ڈکٹیٹر کی گود میں پروان چڑھا۔ ایسی باتیں ہم بچپن سے سن رہے ہیں اور اب اﷲ کے فضل و کرم سے اس قابل ہوگئے ہیں کہ خود ملکی حالات و واقعات پر لکھ رہے ہیں ۔ ہم یہ سنتے سنتے تھک گئے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک فوجی آمر کے ذیر سایہ تربیت پاتے رہے اور نواز شریف کی پرورش ایک فوجی نرسری میں ہوئی۔ کوئی یہ بتائے کہ کیا اس ارض پاکستان میں جو ایک سیاستدان دوسرے سیاستدان کو فوج سے منسلک ہونے اور موجودہ یا سابقہ ادوارمیں فوج سے تعلق کو جو گالی کے سے انداز میں ایک دوسرے کو نوازتے ہیں کم تم فوج سے تعلق کیوجہ سے آئے تو کیا فوج کے ساتھ تعلق رکھنا یا فوج کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط کوئی طعنہ ، گالی یا غیر قانونی و غیر آئینی ہے؟ کیا فوج جو ہمیشہ اس ملک و قوم کیلئے اپنی جان کا نذرانہ دینے کیلئے ہمیشہ سے تیار ہے اور اس وقت ملک کے لئے ایک سے زائد اپریشن،سیلاب، سرحد پر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے حصول کیلئے کوساں ہے۔ نجانے کیوں پاک فوج نام نہاد سیاست دانوں کیلئے اس قدر اچھوت یا نفرت کا شاخسانہ ہے کہ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر فوج کے ساتھ تعلق رکھنے کو بطور طعنہ دینا اپنے لئے کسی فخر و اعزاز سے کم نہیں سمجھتا، بلکہ ہر سیاسی جماعت اس میں اپنا حصہ ڈالنے میں اپنے لئے فخر و عزت محسوس کرتی ہے۔ انتہائی الم ناک بات ہے کہ ہم اپنے ملک کی فوج جو کہ دنیا کی بہترین فوج ہے، بہترین انٹیلی جنس ہے۔ جسکی مدد کے بغیر امریکہ نہ تو 1971 میں روس کو شکست فاش دے سکتا تھا اور نہ اب افغانستان میں دہشت گردی کے نام پر شروع جنگ مین مسلم ممالک اور مسلمانوں پر ظلم و ستم میں پاکستان اور پاکستانی فوج کے مدد کے بغیر اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتاتھا۔ وہ فوج جو پاکستان کی ہر سرحد پر ملک و قوم کے لئے اپنی جان ہر وقت ہتھیلی پر لئے کھڑی ہے ہم اس فوج کے خلاف صبح، دوپہر، شام پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر آکر جگ بازی کرنا اور فوج سے منسلک کسی بھی شخص یا جماعت کو زیر کرنا اور طعنہ دینا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں کیا فوج اس ملک و قوم کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ نہیں دے رہی؟ کیسے کہاں جا سکتا ہے کہ فوج سے منسلک کوئی فرد یا جماعت ملک و قوم کیلئے خطرہ کا باعث اور غدار ہے جب ملک و قوم پر کوئی مصیبت آئے چاہے زلزلہ ہو یا سیلاب۔ سیلاب و زلزلہ متاثرین کی مدد اور امداد کا مرحلہ ہو ، ملک کے کسی بھی سرحد پر کسی بھی ہمسایہ ملک بشمول ہندوستان و افغانستان کی کھلی جارحیت کا جواب دینا ہو، سوات، وادی تیرہ، وزیرستان ضرب عضب اپریشن ہو، 1965 کی جنگ ہو یا 1971 کا محاذ، فوج نے اجتماعی طور پر ملک کے دفاع کیلئے بھی جان کا نذرانہ دیا اور راشد منہاس شہید جیسے ملک کے سپوتوں نے انفرادی طور پر بھی جام شہادت نوش کرکے ملک کے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ روز روشن کی طرح ایک حقیقت ہے کہ یہ جو مختلف سیاستدانوں کی جانت سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ فوج ایک ادارہ ہے جو حکومت کے مخالف ہے اور بڑی تندہی کے ساتھ ایک مستحکم طریقے سے عوام کے اذہان میں بٹھائی گئی ہے کہ فوجی ایک ملازم ہی تو ہوتا ہے اور اگر وہ ملک کی حفاظت کرتا ہے۔ سرحدوں اور دوسرے محاذوں پر لڑتا ہے تو صرف اسلئے کہ وہ اسکے بدلے تنخواہ اور دوسری اضافی مراعات حاصل کرتا ہے۔ بالکل یہ بات سو فیصدی درست ہے مگر اس معاملے میں خود سیاست دانوں کا اپنے بارے میں اور نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں اور نام لیواوں کے بارے میں کیا کیا خیالات اور ارشادات ہے۔ بے شک فوجی ایک حکومتی ملازم ہوتا ہے مگر خود ارکان پارلیمان کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ جوکہ عوام کے ملازم ہوتے ہیں ۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں اور بجائے عوام کے خدمت کرنے کے انہیں اپنا ملازم تصور کرتے ہیں۔ فوجیوں کو جو بھی مراعات اور تنخواہ ملتی ہے وہ ان کی کار کردگی کے عوض دی تا ہے ۔ ضروری نہیں کہ تمام ہی انسانوں کی نیت ایک جیسی ہوں۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں انفرادی یا اجتماعی طور پر فوج کی حمایت یافتہ ہے ممکن ہے کہ جب ان کے حمایت کا قرض چکانے کا وقت اتا ہو اور جب کوئی سیاستدان کسی بھی قسم کا فائدہ لینے سے فوج سے کامیاب ہو جاتا ہو تو بعد میں وہ بھی بدلے میں بس حساب کتاب برابر کر دیتا ہو۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت مختلف ذرائع کے اعداد و شمار کے مطابق ایسی ہے جو کہ مختلف اور دوسرے طریقوں سے دولت و منصب حاصل کرتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے تسلسل کے ساتھ اور مکمل منصوبہ بندی سے عوام کو فوج سے بدضن کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے اور اپنے ہی ملک کی پاک فوج کے خلاف منظم طریقے سے ایسی افواہوں کی سازش کرنا جس سے پاک فوج کے کردار میں کمی واقع ہو کسی طور ملک دشمنی سم کم نہیں۔ اگر یہ روش جاری رہی تو ہم کو ملک سے باہر سرحدوں اور سمندر پار دشمنوں کو ڈھونڈنے اور ان سے محتاط رہنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے حالات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن ہم میں ہی رہ کر ہمارے خلاف دوست کے روپ میں دشمنی کر رہا ہے۔ ایسا دشمن جو گھر کے اندر ہو وہ اپنے خون کے پیاسے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ خون کے پیاسے کو تو جب موقع ملے گا نقب لگا کے قتل کرے گا ۔ مگر دوست کے روپ میں دشمن اپکی بنیادوں کو ہلادے گا۔ اپکی جڑوں کو کاٹ کر آپ کو خود بخود مرنے پر آمادہ کر دے گا۔ بات سوچنے اور سمجھنے کی یہ ہے کہ ملک و قوم کیلئے ہر وقت جان دینے کیلئے تیار ، محب وطن ، جان نثار فوج ایک دم غیر محب وطن کیوں ہو جاتی ہے جب اسکا نام کوئی سیاست دان یا سیاسی جماعت لیتی ہے ۔ کسی بھی انسان کیلئے اپنی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا ۔ ساری دنیا کی دولت بھی انسان کی زندگی کا نعم البدل نہیں ہوسکتی، تو ملک و قوم کیلئے اپنے جانوں کا نذرانہ دینے والے اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کیلئے محب وطن ہے۔ جب وہ اپنی جانیں دے رہے ہو اور جب کوئی سیاسی رہنما یا جماعت فوج کا نام لے تو فوج سے برا کوئی ادارہ نہیں اور فوجیوں سے زیادہ کوئی اچھوت نہیں یہ کیسا تضاد اور کیسی جمہوریت ہے؟ جمہوریت کے ترانے سے 20کروڑ عوام اتنی تنگ ہے کہ تاج برطانیہ کی کالونی ہونے کا ارمان کرتی ہے کہ بے شک تاج برطانیہ کی کالونی ہو مگر زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور سہولیات سے تو آراستہ ہوتے۔ دنیا میں کوئی عزت ہوتی، تعلیم و صحت کے بنیادی سہولتیں حاصل ہوتی۔ عوام خودکشی کر رہی ہے ان جمہوریت کے ٹھیکداروں کے ہاتھوں جو خود کشی نہیں کرتے وہ روز مر مر کر جی رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں کے ہاتھوں مہنگے علاج کے ہاتھوں دال روٹی میسر نہیں ۔ یہاں دن میں پچاس مرتبہ جمہوریت کا سبق پڑھانے کوئی نہ کوئی آجاتا ہے ۔ میڈیا پر بے شک غیر مسلم ہی حکمران ہو مگر اس کے سینے میں احساس کرنے والا دل اور انصاف کا جذبہ ہو کر اس سسکتی عوام کی عزت نفس کو بچا یا جاسکے ۔ ان کو روز روز ان جمہوری ظالموں کی ظالمانہ حکومتوں میں مرنا نہ پڑے ۔
Abid Ali
About the Author: Abid Ali Read More Articles by Abid Ali: 3 Articles with 1609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.