تحریک پاکستان اور ’’ ناؤ آر نیور‘‘ Now or Never

برطانوی سامراج کا جب برصغیر پاک وہند میں مزید رکنا ناممکن ہوگیا تو اس نے تاج برطانیہ کے سائے تلے متحد ہ ہندوستان (کل ہند وفاق) کا منصوبہ بنایا۔ جس کو کامیاب بنانے کے لیے برطانیہ میں ہندوستانی سیاسی راہنماؤں کو مدعو کرگول میز کانفرنسوں کا ڈھونگ رچایا ۔ کل ہند وفاق دراصل ہندوو اکثریت کی بالادستی قائم کرنے اور 1857 ء مسلم بغاوت کا بدلا لینے کی سازش تھی۔ کچھ مسلم زعماء کل ہند وفاق میں مسلم ریاست کے قیام پر متفق تھے اور انہوں نے گول میز کانفرنس میں اس کی تائید بھی کردی تھی۔ اس نازک موقع پر برصغیر کے بطل جلیل چوہدری رحمت علی ؒنے تاریخ میں پہلی بار انڈین فیڈریشن تجویز کو مسترد کرتے ہوئے الگ ملک ’’پاکستان‘‘ کا مطالبہ کیا۔ چوہدری رحمت علیؒ 1915 ء میں بزم شبلی کے پیلٹ فارم سے بھی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کی تجویز دے چکے تھے۔ 1933 ء کا ’‘ ناؤ اور نیور‘‘ دراصل اسی تجویز کی عملی شکل تھی۔چوہدری رحمت علی ؒنے اس تجویز کی اشاعت عام سے قبل گول میز کانفرنس میں شریک مسلم راہنماؤں سے تفصیلی ملاقاتیں کرکے یہ مطالبہ دھرایا لیکن ایک بھی مندوب کو اس پر متفق نہ کر سکے، تب انہوں نے اس تجویز کو گول میز کانفرنس کے شرکاء میں تقسیم کیا۔

۲۸ جنوری ۱۹۳۳ء کو شائع ہونے والی اس تاریخ دستاویز میں چوہدری رحمت علیؒ نے مسلمانان برصغیر کی ان الفاظ میں نمائندگی کی۔

٭ پاکستان سے ہمارا مطلب پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، کشمیر، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے۔
٭ کل ہند وفاق (انڈین فیڈریشن) کے اعلامیے پر دستخط کرکے مسلمانان برصغیر کے لیے سزاء موت کے پروانے پر دستخط کیے گئے ہیں۔
٭ پاکستان کے باضمیر مسلمان کسی طرح بھی سزائے موت کے پروانے کو قبول نہیں کریں گے۔
٭ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے شکست خردہ ذہنیت کے حامل ہیں۔
٭ پاکستان کا مطالبہ مسلمانان برصغیر کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔
٭ ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک چھوٹا براعظم ہے، اس میں ایک نہیں بلکہ کئے قومیں بستی ہیں، انگریزوں نے پہلی بار برصغیر کے مختلف حصوں کو ملا کر ایک حکومت بنائی ہے۔
٭ ہندوستان کے پانچ شمالی صوبوں کی آباد چار کروڑ ہے، جن میں سے تین کروڑ مسلمان ہیں۔
٭ اہل پاکستان کی ثقافت، تاریخ، روایات، سماجی و معاشی نظام، قوانین وراثت، شادی بیاہ کی رسمیں الغرض ہر چیز ہندوستان میں بسنے والے دوسری اقوام سے بنیادی طور پر مختلف ہیں یہاں تک کہ ہماری غذاء اور لباس تک مختلف ہیں۔
٭ کچھ کوہ نظر لوگ مسلمانوں اور ہندو کو کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ عقیدے سے تشبیہ دیتے ہیں، ہمارے نزدیک یہ موازنہ انتہائی بے بنیاد اور غیر ضروری ہے۔
٭ مسلم اور ہندو دو فرقے نہیں بلکہ دو الگ مذاہب ہیں۔عیسائی مذہب کو انفرادی معاملہ سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان اور ہندو ایسا نہیں سمجھتے بلکہ وہ مذہب کو طرز زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
٭ اگر مسلمانان پاکستان کو جداگانہ قومیت کے باوجود انڈین فیڈریشن میں شامل کیا گیا تو یہ مسلمانوں کے لیے انتہائی ملک ثابت ہوگا۔
٭ ہمارے پانچ صوبوں کا رقبہ اٹلی سے چار گنا زیادہ ہے ، ان کی آبادی اسٹریلیا کی آبادی سے سات گنا، کینڈا سے چار گنا، اسپین سے دوگنا اوراٹلی و فرانس کے برابر ہے۔
٭ ہم انہی حقائق کی بناء پر ہندووں سے الگ قوم ہونے کا دعوی ٰ کرتے ہیں
٭ ہندو قوم ہندوستان کے بڑے حصے پر آباد ہے اور بڑے حصے کی حقدار بھی ہے۔
٭ ہم کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے چھوٹے حصے پانچ صوبوں پر مشتمل الگ وفاق پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں۔
٭ ہمارا مطالبہ مسلم مندوبین کے ساتھ ساتھ ہندو اور انگریز مندوبین سے بھی یہی ہے کہ ہم مسلمانان برصغیر کو انڈین فیڈریشن کے بجائے الگ ملک پاکستان تسلیم کیا جائے۔
٭ برصغیر میں امن بھی تب ہی قائم ہوسکتا ہے جب دو بڑی قوموں کو اپنی تعمیر و ترقی کے لیے برابر موقع دیا جائے۔
٭ مسلمانان برصغیر کسی قیمت پرانڈین فیڈریشن میں رہنے پر آمادہ نہیں ہوں گے اور اگر جبرا ایسا کیا گیا تو ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات جاری رہیں گے اور یہاں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔
٭ ہمارا مطالبہ انڈین فیڈریشن کے اندر کسی اکائی کے بجائے الگ ملک کے قیام کا ہے، اسے ایسی تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے۔
٭ گول میز کانفرنس نے جن تحفظات کا ذکر کیا ہے کیا ان کی موجودگی میں مسلمانان برصغیر اپنی مرضی کے مطابق اپنا لائحہ عمل بنا سکیں گے، نہیں ہرگز نہیں ۔
٭ انڈین فیڈریشن کے اندر رہنا جداگانہ قومیت کا بدل کبھی نہیں ہوسکتا،
٭ جو لوگ چند تحفظات کی بناء پر الگ ملک کا مطالبہ کرنے سے درتے ہیں وہ دراصل ملک ذہنی مرض کا شکار ہیں۔
٭ انڈین فیڈریشن میں ہمیشہ ہندو اکثریت کی من مانی قائم رہے گی اور مسلمانوں کے مفادات کا کبھی خیال نہیں رکھا جاسکے گا۔
٭ جب انڈین فیڈریشن میں دفاع، خارجی امور، مواصلات، تجارت، ڈاک و تار ، مالیہ اور محصولات وفاقی حکومت کے پاس ہوں گے اور ہندوو اکثریت کی بناء پر وفاق میں حکومت بھی ہندو کی ہوگی تو ایسے میں مسلمان اپنے مقاصد کیسے حاصل کرسکیں گے؟ تب ہر قدم پر ہمارے مقاصد اور ہندوؤں کے مقاصد میں ٹکراؤ ہوگا۔
٭ گزشتہ صدی کی تاریخ گواہ ہے کہ ہماری قومی زبان اردو جو برصغیر کی عوامی زبان ہے کو ہندوستانی زبانوں کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے، اس ماحول میں مسلمانوں کا مستقبل کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
٭ ان بنیادوں پر ہم گول میز کانفرنس کے مندوبین سے پوچھتے ہیں کہ ہم پر غیر مسلمانوں کا تسلط قبول کرنے کا دباؤ آخر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
٭ انڈین فیڈریشن میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کیا بہتری ہوگی؟
٭ کیا ہم مسلمانان برصغیر کے مستقبل کو چند لوگوں کی ایما ء پر قربان کردیں؟
٭ کیا ہم اس جھوٹ کا نشانہ بن جائیں کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم آباد ہے؟
٭ کیا کچھ لوگوں نے طے کر لیا ہے کہ ہر قیمت پر ہندوؤں کے ساتھ مصلحت کرنی ہے؟
٭ ہمارے کچھ لوگ ہندو نیشنلزم میں مسلمانوں کا مفاد دیکھتے ہیں لیکن ہمارا جواب نفی میں ہے۔
٭ ہم خود کو اپنے ہاتھوں ہلاک نہیں کرسکتے، ہم ہرگز، ہرگز خو د کو ہندوو قوم پرستی کی صلیب پر مصلوب نہیں کریں گے۔
٭ برصغیر میں مسلمانوں اور ہندو ؤں کے لیے الگ ملک تشکیل دئیے جائیں جو اپنی ترقی کے لیے اپنے پسندیدہ راستے اختیار کرسکیں۔
٭ وہ مسلمان جو کل تک ہندوستان میں اسلام کی شان وشوکت کے امین تھے، کس طرح ہندو اکثریت کی بھینٹ چڑھ جائیں
٭ یہ مسئلہ ’’ اب یا کبھی نہیں ‘‘ کا ہے۔ ہمیں ایک فیصلہ کرنا ہے کہ ہم سربلند رہیں گے یا بالکل تباہ ہو جائیں گے۔
٭ یہ تقدیر کی بات نہیں تدبیر کی بات ہے، سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
٭ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہندوستانی وفاق کو قبول کریں یا اپنے اسلامی ورثے کو محفوظ کریں۔

چوہدری رحمت علی ؒ کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی، مسلمانان برصغیر نے ہندوبالادستی قبول کرنے سے انکار کردیا اور ایک الگ ملک پاکستان میں وجود آیا جس کا مطالبہ انہوں نے 1933 میں کیا۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105374 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More