ہفتہ کو عظیم الشان جشن ۔ ۔ ۔ اسلام آباد میں

عمران خان جب احتجاج کرنے نکلے تو ان کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست کی صورت میں نیا پاکستان بنانا تھا۔ لیکن عملا نظر آ ریا ہے کہ ان کا مقصد کچھ اور بھی تھا۔ وہ پہلے دن سے دھرنوں میں روزانہ کوئی اور کام کریں نہ کریں جشنِ آزادی ضرور منا رہے ہیں۔

پچھلے دنوں خاں صاحب نے کنٹینر سے خطاب میں کہا کہ سیلاب میں امدادی کام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ہماری نہیں ۔ ۔ ۔ حکومت ان کی ہے ہماری نہیں۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر ایک دن سیلابی علاقے کا دورہ کر ہی آئے اور پھر منگل کو نہایت گرم جوشی سے سارے پاکستانیوں سے مخاطب ہوکر اعلان کیا کہ ہفتہ کو دھرنے کی جگہ تاریخی جشن منایا جائے گا۔ انہوں نے سب کو پہنچنے کی ہدایت کی خصوصا طالبعلموں کو۔

ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ عمران خان محروم و مظلوم پسے ہوئے پاکستانیوں کی نمائندگی کا دعوہ کرتے ہیں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے میدانِ عمل میں ہیں آخر پہلے سے پسی ہوئی اور اب سیلاب کی ماری ۔ ۔ ۔ بے گھر در بدر بھٹکتی ۔ ۔ ۔ بھوک و پیاس سے بلکتی قوم کو وہ کس عظیم الشان جشن کی دعوت دے رہے ہیں۔

روز روز کے اعلانِ جشن اور استعفے کے مطالبہ سے ہمیں خاں صاحب اور میاں صاحب کے درمیان ایک قدرِ مشترک نظر آنے لگی ہے۔ میاں صاحب پہ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات ہیں وہ کہتے ہیں تحقیقات کرالیں اگر دھاندلی ثابت ہو گئی تو استعفا دے دوں گا جب کہ حق تو یہ ہے کہ وہ پہلے استعفا دیں پھر الزامات کی تحقیقات ہو اور اگر وہ بے گناہ ثابت ہوں تو بحال کر دئیے جائیں۔ لیکن وہ بحال رہنے پہ بضد ہیں۔ جبکہ خان صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ آپ ہر روز کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ ایک دنیا معترض ہے لیکن آپ مصر ہیں کہ روز نئے پاکستان اور آزادی کا جشن ہوگا۔ حالانکہ اصول یہ ہے کہ پہلے اپنے مقصد کو پایا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کی خوشی یا جشن منایا جاتا ہے۔ خان صاحب اور میاں صاحب دونوں ان کاموں کو موخر کئے ہوئے ہیں جو پہلے کرنے کے ہیں۔

نئے پاکستان اور آزادی جدوجہد کے موقعہ پر یہ جشنِ مسلسل اور ہفتہ کو عظیم الشان جشن یہ خدشات پیدا کرتا ہے کہ کہیں خان صاحب اس ایلیٹ کلاس کے نمائندے تو نہیں جو فیشن کے طور پر غریبوں کے ایشوز کی بات تو کرتا ہے لیکن اس کے لئے انہیں فائیو اسٹار ہوٹل کا وی وی آئی پی ماحول درکار ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ یہاں ہم عمران خان صاحب کو ایک مشورہ دینا چاہیں گے کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر ایمانداری سے سوچیں کہ ایک مسائل سے گھرا غریب اور مجبور پاکستانی کس طرح آپ کے ساتھ روزانہ جشن منا سکتا ہے۔ اور وہ ان روز کے جشنوں کی وجہ سے آپ کے متعلق کیا رائے قائم کر رہا ہے؟ یقینا وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ ایلیٹ کلاس کا ٹولہ ہے جو بوتیک اور بیوٹی پارلر سے نکل کر اپنی بڑی بڑی ٹھنڈی گاڑیوں میں بیٹھ کر غریبوں کے نام پر ایک جلسہ میں جشن کے لئے' اچھا وقت گزارنے‘ میڈیا کے کیمروں کا فوکس بننے اور عمران خان صاصب کا دیدار کرنے چلی آتی ہے۔ ان مراعات یافتہ لوگوں کے لئے تو ہر رات چاند رات اور ہر دن عید کا دن ہے۔ یہ تو سارا سال ہی غریبوں پر حکمرانی کا جشن مناتے ہیں۔

وہ تمام غریب اور پسے ہوئے لوگ جن کے لئے آپ نجات دہندہ ہونے کا دعوہ کرتے ہیں، یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا سب غریبوں کو روٹی نصیب ہو گئی؟ کیا بے روزگاری ختم ہو گئی؟ کیا عدل و انصاف قائم ہو گیا؟ کیا ظالم اقتدار سے محروم کر دئے گئے؟ کیا چوروں‘ ڈاکوؤں اور قاتلوں کو سزائیں مل گئیں؟ اگر نہیں تو PTI یہ جشن کیوں منا رہی ہے؟

اگر عمران خان اپنے اہداف میں سچے ہیں اور اپنے مقصد پر قائم ہیں تو اس تحریک کو حق و باطل کی جنگ ہونا چاہئیے اور حق و باطل کی جنگیں ڈھولک کی تھاپ پر لہک لہک کر اور تھرک تھرک کر نہیں لڑی جاتیں۔ جشن منایا جاتا ہے لیکن باطل کو شکست دینے کے بعد اور یہ جشن اللہ کے حضور سجدہِ شکر بجا کر منایا جاتا ہے۔

یوں جشن نہ منا
بھول بھلیوں میں کہیں
مقصد ہو فنا
Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 53 Articles with 40541 views https://www.facebook.com/pages/BazmeRiaz/661579963854895
انسان کی تحریر اس کی پہچان ہوتی ہےاس لِنک کو وزٹ کرکے بھی آپ مجھ کو جان سکتے ہیں۔ویسےکراچی
.. View More