پارلیمنٹ کی قرارداد۔ اور، سٹیٹس کو، کے دیوانے

گذشتہ روز پارلیمنٹ کے اندر ایک قرار داد آئین کے تحفظ اور جمہوریت کے بچانے کیلیے جناب محمود خان اچکزی ٔ صاحب نے پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کر لی گی ٔ جسکا میں نے اعلان اپنی مشہور سخت کلامی کی وجہ سے آجکل کے شاید ناپسندیدہ ترین سیاسی لیڈر خواجہ سعد رفیق صاحب نے پریس کے سامنے بڑے فاتحانہ انداز میں آ کر کیا، ایک ایک لفظ زہر میں ڈوبے نشتر کی مانند جس نے مذاکرات کے ماحول پر جلتی پر تیل کی طرح کاکیا جیسے ڈوبتے کو تنکا نہیں شاید کسی غرق شدہ کشتی کا تیرتا ہوا کوی ٔ تختہ یا ششہتیر مل گیا ہو۔ قرار داد پہلے سے تیار شدہ تھی کیونکہ تمام حاضرین اسے پڑھ رہے تھے، جس سے قبل مبینہ طور پرباری باری معزز اراکینِ پار لیمنٹ نے د ھرنے اور انقلاب والوں کو خوب لتاڑا اور آ ۓن کی حفاظت اور کسی خاص۔۔ ایجنڈے کے تحت۔۔ کسی ان دیکھی تیسری قوت کا بھر پور مقابلے کا اعادہ کیا؟؟؟ اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر شرمندہ ہونے کی بجاے ٔ، آجکل ہمارے سیا ستدان کسی تیسری قوت سے کچھ ذیادہ ہی خوف ذدہ رہتے ہیں اور فرضی طور پر اسے لتاڑنے کا کوی ٔ موقع نہیں گنواتے ۔ سمجھ نہیں آتا، یہ لوگ چھپتے بھی اسی قوت کے پیچھے ہیں اور پیٹھ پیچھے اسی کی براۓیاں کرتے ہیں، ،،لیکن ، لگتا ہے وہ تیسری قوت انکی کسی بھی اشتعال انگیز باتوں میں آنے والی نہ ہے اور نہ ہی ان سے ڈرتی ہے، وہ ہمارابہتر ین دماغ ، محب وطن جان فروش اور اپنے ملک و ملت کے سچے محافظ اورا میں اور ان سے الجھنے کی بجاے ٔ انکو صرف اپنے فراۓض یا دلا رہے ہیں اور جنکا اولین مقصد صرف اور صرف اس مملکت خداداد کا استحکام ہے نا کہ گندی سیاست۔

زرا مقررین ملاحظ ہوں، جناب اعجازالحق صاحب، اپنی پارٹی جو خدا خدا کر کے کسی نہ کسی طرح اس دفعہ ایوان میں اکلوتی حیثیت میں پہنچ ہی چکی ہے، ، پورے سال میں شاید پہلی دفعہ ،،شاہ سے ذیادہ شاہ ،،کی وفاداری کا کچھ اس طرح ثبوت دے رہے تھے جیسے یہ نشست انہوں نے باقاعدہ الیکشن لڑ کر نہیں بلکہ نواز شریف کی مرہونِ منت سنبھالی ہوی ٔ ہے۔ وہ جذبات میں یہ بھی بھول گے ٔ کہ وہ مذاکرت کے پہلے راونڈ میں ایک رکن کی حیثیت سے شامل رہے ہیں، اور کس منہ سے دو ڈھای ٔ جماعتوں کا کہہ کر ہزاروں، لاکھوں لوگوں کی دل آزاری کر رہے ہیں۔ محترمہ تہمینہ دولتانہ صاحبہ، جو شاید اپنے پاے ٔ کی اکلوتی خاتون رہنما ۔۔ٔ ن لیگ۔۔ میں رہ گی ٔ ہیں، فرماتی ہیں کہ وہ اس روز روز کی صورتحال میں روزانہ روتی ہیں؟؟؟ محترمہ بی بی صا حبہ،،،، لگتا ہے صدیوں سے آپ اس پارٹی میں شامل ہیں، اگر آج آپ کے پارلیمنٹ کے راستے تنگ آ کر عوام نے ہفتہ دس روز سے آپ ہی کی کوتاہیوں پر توجہ دلانے کیلیے روک لیے ہیں اور آپ کا رونا نکل گیا ہے، کیا آپ کی حکومت جو گذشتہ تین عشروں سے کسی نا کسی صورت میں اقتدار میں رہی ہے اور آپ جیسے سٹیٹس کے دیگر پجاری سیاستداں، آپ میں سے کسی کو عوام کی ذلت آمیز زند گیوں پر کبھی رونا کیوں نہیں آتا کہ آج بھوک سے بچے مر رہے ہیں، لوگ خود کشیا ں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے، اور ملک کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے کس بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے؟؟ ہمارا کیسا پیارا ملک تھا کہ ساٹھ سالوں کے قلیل عرصہ میں آپ سیاسی جماعتوں نے اپنے چاچے مامے کے ہاتھوں اسے کہاں پہنچا دیا ہے اور قاۓدِ اعظم یا علامہ اقبال جیسا ایک بھی لیڈر انکے بعد آجتک پیدا نہ ہو سکا؟؟؟۔ اس باپ بیٹی کو ہی دیکھیں،،،، پـڑھے لکھے نوجوانوں کو روزانہ قرضوں کی دلدل میں اور بھکاری بنانے کے علاوہ انکا کویٔ اور من پسندیدۂ کام ہی نہ ہے۔ محترم جناب ، شیر پاو ٔ صاحب، جو اپنی ذات میں ایک انجمن سے کم نہیں، یہ صاحب کبھی پورا سیر اور کبھی ادھ پاو ٔ ہو جاتے ہیں،،،، وہ موجودہ بوسیدہ سسٹم اور سٹیٹس کو کے سب سے بڑ ے علمبردار ابھر کر سامنے آ ے ٔ،، کیونکہ وہی تو تھے جنہوں نے نواز شریف صاحب کو صرف چند سال پہلے عملی طور پر ہتھکڑیوں میں ڈالنے کا کلیدی کردار ادا کیا ۔۔قوم کیا بھول گی ٔ ہے کہ آپ اس وقت کے منتخب وزیرِ اعظم کے ساتھ کیا حشر کر رہے تھے جسکے غم میں آج آپ نے طویل تر ین بھا شن دے ڈالا۔ شایدابھی تک موصوف کو کوی ٔ خاص عہدہ ہی نہیں دیا گیا اور یہ۔۔ سارا زور۔۔ وہ شاید انکا ایک۔۔ توجہ دلاؤ نوٹس ۔۔کی مانند تو نہیں تھا کہ جناب وزیرِ اعظم صاحب،،،ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں؟؟؟؟ انکے غصے کی ایک بڑی وجہ عمران خان کا حال ہی میں انکے پاورفل وزیر بیٹے سے کرپشن اور بد عنوانی جیسے گھناونے الزامات کی وجہ سے وزارت چھننا بھی ہے۔ باقی سب لوگوں کو میں چھوڑتا ہوں، سیدھا آ جاتے ہیں جناب ا چکز ی ٔ صاحب پر، جناب آپ نہ بو لیں گے تو اور کون بولے گا، آپ قرارداد پیش نہ کریں گے تو اور کون کریگا؟؟؟، کیونکہ مبینہ طور پر لوٹ کھسوٹ اور اقربا ٔ پروری کی جتنی بھونڈی مثال آپ جیسے قد کاٹھ کے لیڈر جسکا میں ذاتی طور پر بہت معترف تھا، نے آجکل کی لوٹ مار کے بازار میں کی ہے، اسکی بھی شاید دوسرا کو ی ٔ مثال پیش نہ کر سکے، زرا ایک منٹ کیلیے سوشل میڈیا پر آیۓے اور عوام کی طرف سے آپ کی ذات پر کیۓ گے لاتعداد سوالات کے جوابات دے دیجیے،،،، لاۓن لگی ہوی ٔ ہے حضورِ والا اور جناب مجھے تو لگتا ہے کہ۔۔ تیری بُقل دے وِچ چور۔۔ والا مقولہ کیا آپ کیلیے تو نہ گھڑا گیا تھا؟؟؟ ان حالات میں اوپر اُٹھتی کتنی انگلیوں کو آپ نیچے کریں گے اور مجھ جیسے اپنے ایک چاہنے والے کو مطمعٔن کر سکیں گے۔ ؟؟؟؟ رہ گی ٔ بات دونوں دھڑوں کے مطالبات کی، زرا دل پر ہاتھ رکھ کے خدا کو حاضر ناظر جان کر جواب دیں کہ ان حالات کو یہاں تک لانے کا کون ذمہ دار ہے، جواب دیتے ہیں کہ چار حلقوں کا مطالبہ صرف الیکشن ٹریبیونل کے اختیارات میں آتا ہے۔ بالکل سفید جھوٹ؟؟؟؟اگر آپ کا دامن صاف ہے تو ٹر یبیونل تو کیا، آپ کسی بھی اد نیٰ یا اعلیٰ عدالت میں جا کر دونوں فریق اگر ایک بات کا بیان دے دیں کہ ہم ایسا کرنیکو تیار ہیں یا ایک خاص نقطے پر متفق ہیں،،،، تو وہ عدالت بقیہ تمام کاروای ٔ ختم کر کے، فریقین کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ کر دیتی ہے اور عدالتوں میں یہ روزانہ کا معمول ہے ؟؟؟؟؟ اور جناب درجنوں انسانوں کے بے گناہ خون پر خون بہا کے مطالبے میں کونسی غیر جمہوری شق حاۓل اور ایک پاک صاف صالح معاشرے کے قیام کے مطالبے میں کونسی برای ٔ پنہاں ہے؟؟؟ اور جناب وہ کونسا ایسامطالبہ ہے جو ماضی میں یہ دونوں بھای ٔ ان کے خود ہی خالق اور امین نہ رہے ہوں، یہ انکے اپنے نعرہِ مستانہ اور انوکھی ایجادیں ہیں جو آج انکے اپنے گلے میں نہ پڑیں تو یہ انکے حامی اور پسندیدہ ترین دوست میاں نریندر مودی یا میاں اوباما کے گلے پڑیں؟؟؟؟ یہ کل ہی کی بات ہے کہ بڑے میاں صاحب ہمیں۔ خودی۔ اور چھوٹے بھای ٔ جان، زرداری کے پیٹ پھاڑنے کے عملی طریقے اور اسباق یاد کروا رہے تھے۔ اور آ ج دنیا دیکھے گی کہ یہی چھوٹے میا ں آج سٹیٹس کو کے سب سے بڑی پجاری اسی۔ زرداری صاحب ۔ اور اپنے کنبہ پروری اور اقربا ٔ پروری کے پسندیدہ لیکن عوام کی نظر میں ایک بدبودار سیاسی سسٹم کو قاۓم و داۓم رکھنے کیلیے انکے استقبال کیلیے بے چین اور صدر دروازے پر انہیں لینے کیلیے مضطرب و بے قرار نظر آۓں گے ۔ کہتے ہیں کہ عمران بندے اکھٹے نہیں کر سکا۔ افسوس، یہ کتنے سادہ ہیں، یہ اپنے آپ کو عوامی کہہ کر اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے شاید خود ہی دلدادہ ہیں اور اسوقت کے لوگوں کے جذبات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ فرض کریں کہ دھرنے میں آندھیوں اور طوفانوں کے باوجود روزانہ دس بارہ ہزار لوگ والہانہ شریک ہو رہے ہیں۔ تو یہ تعداد کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی بھی جمہوری حکومت کیلیے اخلاقی مات اور ہار کیلیے بہت ذیادہ ہے۔جبکہ۔۔ نام نہاد سیکورٹی۔۔ کے نام پر راولپنڈی اسلام آباد کو آ نیوالے تمام راستے آپ نے سیکڑوں کنٹینروں اور خاردار تا روں سے مکمل سیل کیے ہوے ٔ ہیں۔ یاد رکھیں،، اگر یہ دس ہزار ہیں تو انکے پیچھے انکے چاہنے والے لاکھوں میں نہیں کروڑوں کی تعداد میں بے چین و بے قرار بیٹھے ہیں، جو آپ کی غیر جمہوری پابندیوں اور کسی نہ کسی ذاتی مجبوری کی وجہ سے ان دھرنوں میں شریک ہونے سے قاصر ہیں، جو اپنا بھرپور اظہار ایک نہ ایک دن ضرور کریں گے، بس زرا نے ٔ انتخابات کا اعلان تو ہونے دیں۔ جب اس استحصال زدہ گھسے پٹے نظام کے ستاے ٔ باشعور عوام ایک نے ٔ پاکستان میں آپ کو اس گلے سڑے بوسیدہ سسٹم سے انگلی اٹھا کر ایک غیر جاندار اور ایماندار ا یمپاۓر کی طرح باہر پھینک دیں گے۔ جناب مضطر فیروز پوری کے ان اشعار کے ساتھ خدا حافظ۔
قوم کے مردِ قلندر ڈٹ گے ٔ میدان میں
کھلبلی سی مچ گی ٔ ہے ظلم کے ایوان میں
ظلمتِ شب مات کھاے ٔ گی سحر کے نور سے
ہو گا مضطر اب اُجالا میرے پاکستان میں
Khokhar Latif
About the Author: Khokhar Latif Read More Articles by Khokhar Latif: 4 Articles with 3005 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.